لداخ، انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر: ہمالیہ کے برفانی ریگستان میں پشمینہ اون کا بحران


برطانوی فوٹوگرافر اینڈریو نیوی نے کشمیر کے خانہ بدوش قبیلے چانگپا کی زندگی کو اپنے کیمرے میں محفوظ کیا ہے اور یہ جانچنے کی کوشش کی ہے کہ پشمینہ اون کی پیداوار کو کیسے خطرے لاحق ہیں۔

اینڈریو نیوی نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے انتہائی سرد علاقے لداخ میں خانہ بدوش چانگپا قبیلے کے ساتھ دو ہفتے گزارے۔

اپنی فوٹو سیریز کے علاوہ انھیں پشمینہ اون کی پیداوار کی تاریخ جاننے کا بھی موقع ملا اور اس کے ساتھ خانہ بدوش گڑیوں کے طرز زندگی اور ان کی روایت کو لاحق خطرات کا بھی علم ہوا۔

وہ اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’وسیع برفانی ریگستان چانگ تھانگ سطح مرتفع پر جہاں 14000 فیٹ کی بلندی پر جاڑوں میں درجۂ حرارت منفی 40 ڈگری سیلسیئس تک چلا جاتا ہے وہاں یہ یقین کرنا کہ کوئی شخص یا چیز زندہ رہے گی مشکل لگتی ہے۔‘

ہمالیہ اور قراقرم پہاڑی سلسلے کے درمیان واقع یہ دنیا کا مستقل آباد رہنے والا سب سے بلند مقام ہے اور یہ انتہائی سخت جان اور نادر قسم کی بکریوں کی نسل کا مسکن ہے۔ ان بکریوں کو چانگرا یا پشمینہ بھیڑیں بھی کہا جاتا ہے۔

بلندی اور منجمد کرنے والے درجۂ حرارت کے ساتھ سخت اور چبھتی ہوائیں اس نامہربان پہاڑی علاقے کی بکریوں میں انتہائی نرم جلد اور بال تیار کرنے کا سبب ثابت ہوئی ہیں۔

یہ فائبر محض آٹھ سے دس مائیکرو کونز چوڑے ہوتے ہیں جو کہ انسانی بال سے دس گنا زیادہ باریک اور بھیڑ کے اون سے آٹھ گنا زیادہ گرم ہوتے ہیں۔

اس پرتعیش فائبر کو دنیا بھر میں پشمینہ کے نام سے جانا جاتا ہے جو کہ دنیا کے سب سے نرم اور سب سے مہنگے کشمیرہ اون کی قسم ہیں۔

صدیوں تک چانگپا خانہ بدوش دنیا کی چھت کہے جانے والے علاقے میں گھومتے رہے اور وہ اپنے جانوروں کی طرح ہی جفا کش ہیں۔ وہ اپنے یاک، بھیڑ اور بکریوں کے ریوڑ کو لے کر اس بلندی پر واقع صحرا میں روایتی نقل مکانی والے راستوں پر لیے نئی چراگاہوں کی تلاش میں گھومتے رہے۔

اس قدیم طرز زندگی کو اب موسمیاتی تبدیلی، چین سے آنے والے نقلی پشمینہ، اچھی تعلیم کی ضرورت اور نسبتا آسان اور سہل زندگی کی چاہت سے بہت خطرہ لاحق ہے۔


یہ خانہ بدوش اور سائنسدان دونوں اس بات پر مصر ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی اس علاقے میں پشمینہ کی پیداوار میں سب سے بڑا خطرہ ہے۔

اب چانگتھانگ سطح مرتفع پر اتنی برف نہیں پڑتی جتنی پہلے پڑتی تھی اور اگر پڑتی بھی ہے تو یہ جنوری اور فروری میں شروع ہوتی ہے۔

بہرحال گذشتہ چند برسوں کے دوران یہ دیکھا گیا ہے کہ اس میں شدت آئی ہے اور یہ دسمبر یہاں تک نومبر سے ہی شروع ہو جاتی ہے۔

اس کے نتیجے میں کھانے کی اضافی چیزیں باہر سے لائی جاتی ہین تاکہ جانوروں کو بھوک سے مرنے سے بچایا جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی سردیوں کی شدت میں نسبتاً کمی واقع ہونے لگی ہے جس کی وجہ سے گرانقدر پشمینہ اون کی کوالٹی اور مقدار میں کمی واقع ہوئی ہے۔

پیشمینہ بہت مہنگی ہے اور اس کا جواز بھی ہے۔ چانگپا بہار میں پریا یا کینچلی اتارنے والے موسم میں بالوں پر بہت احتیاط سے کنگھا کرتے ہیں تاکہ انڈرکوٹ یا استر کو اتار سکیں اور پھر اس کے اچھے اور خراب ریشے کو محنت کے ساتھ ہاتھ سے علیحدہ کرتے ہیں۔


ایک بار جب ریشے ہاتھ سے علیحدہ کرلیے جاتے ہیں تو پھر انھیں صاف کیا جاتا ہے اور ہاتھ سے اس کی کٹائی ہوتی ہے تاکہ پھر بُننے کا کام شروع ہو سکے جو کہ خود ایک انتہائی محنت طلب کام ہے۔

ایک انتہائی ہنرمند کاریگر کے لیے اپنے لکڑی کے لُوم یا کرگھے پر اپنے فنی نمونے کے سحر کو ابھارنے میں کئی ماہ سے لے کر بعض اوقات ایک سال تک کا عرصہ لگ جاتا ہے اور پھر انھیں دنیا بھر میں بھیجا جاتا ہے جہاں یہ پُرتعیش دکانوں میں 200 ڈالر سے 2000 ڈالر تک فروخت ہوتے ہیں۔

تشویش کی دوسری بات یہ ہے کہ اس علاقے میں برفانی تیندوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے جو ان جانوروں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ان کی تعداد میں اضافہ گذشتہ دہائی میں کامیابی کے ساتھ ان تیندوؤں کو تحفظ فراہم کرنے کا نتیجہ ہے۔

کشمیری بکری کے پالنے کو لاحق خطرات سے جموں کشمیر میں رہنے والے تین لاکھ لوگوں کے گزربسر کے ذریعے کو خطرہ لاحق ہے جو کہ براہ راست یا بالواسطہ پشمینہ پر ہی انحصار کرتے ہیں۔

اس کا مطلب چانگپا کی تہذیب کا بھی خاتمہ ہے اور ان میں سے بیشتر تبت کے بدھ مت کو ماننے والے ہیں اور ان کے یہاں مویشیوں پر مبنی بہت سے رسم و روایات مروج ہیں۔



تمام تصاویر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp