اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے!


کرونا ایک ایسی وبا ہے جس نے پوری دنیا کو چاروں شانے چِت کر دیا ہے۔ میرا پیارا پاکستان جہاں زیادہ تر لوگ غربت سے نیچے اپنی زندگی کرتے ہیں۔ روزانہ کی بنیادوں پر مزدور قطار در قطار کبھی مین مارکیٹ کبھی جیل روڈ کبھی شادمان کبھی مغلپورہ جیسی جگہوں پہ روزی روٹی کی تلاش میں کندھا سے کندھا ملائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ہائے ہائے! ان جیسوں کا کیا ہوگا یہ غریب کسی کرونا ورونا سے ہلاک ہوں یا نہ ہوں بُھوک سے ضرور مرجائیں گے۔

اللہ رُوئے زمین پر اپنا رحم کرے۔ میری بیٹی ڈاکٹر ہونے کے ناتے مجھے گھڑی گھڑی فون کر کے احتیاطی تدابیر بتائے جارہی ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ اس کی اکلوتی ماں پچھلے 23 برسوں R۔ A یعنی روماٹائد آرتھرائٹس سے جنگ لڑ رہی ہے۔ Immuno suppressant drugs کھانے کی وجہ سے اکثر وہ جلدی بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہے لہٰذا احتیاط تو محبت کا پہلا قرینہ ہے۔ وہ مجھے کرونا سے بچنے کے قرینے بتائے جارہی ہے۔ دنیا میں مختلف مملکتوں میں پھیلنے والی وبائی بیماریوں میں سب سے خطر ناک وہ عالمگیر وبا ہے جو ملکوں ملکوں سرحدیں پار کر کے پھیل جائے۔

مُتعدی بیماریاں ہمیشہ ہی تاریخ کا حصہ رہی ہیں۔ پتھر کے دور سے لے کر مختلف ادوار میں ملیریا، ٹی۔ بی، کوڑھ، وبائی زکام، چیچک اور طاعون وغیرہ نے زندہ لوگوں کے سینوں تک میں موت کی ظالم خاموشی اُتار دی۔ 1920 میں طاعون کی وبا پُھوٹی تھی اور لوگ خوف و ہراس اور تنہائی کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اُترنے لگے۔ آج دنیا بھر میں گُھٹن اور خوف کے کالے بادل منڈلا رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے شاعر اور مصور اپنے زمانے سے آگے کے لوگ ہوتے ہیں۔ سچ ہی لگتا ہے جون ایلیا صاحب جو آج کل ہماری نوجوان نسل کے بھی پسندیدہ شاعر بن چکے ہیں انہوں نے جانے کب کس وقت شاید آج کے کرونا کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا تھا۔

اب نہیں کوئی بات خطرے کی

اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے

کیسا حسبِ حال شعر ہے کہ خطرہ چاروں جانب دانت نکو سے ہر گام کھڑا ہے۔ لہٰذا کسی کو کسی سے خطرہ کیونکر ہوگا کیوں کہ اب تو سب کو سب سے خطرہ ہے۔ کرونا کی وبا چین سے پُھوٹی اور ہوتے ہوتے دنیا بھر کے تقریباً 156 ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ شروع میں لوگ یہی سمجھتے رہے کہ یہ وبا شاید چین تک ہی ختم ہوجائے کہ چمگادڑوں اور چوہوں کا سوپ تو صرف چینیوں نے چُوں چُوں کر کے پیا ہے۔ لیکن یہ چُوں چُوں کا مربّہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔

اس وقت ایران اور اٹلی سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں شمار ہو رہے ہیں۔ یورپ تقریباً سارا بند ہے اسپین، اٹلی، فرانس، پرتگال سب لاک ڈاؤن ہیں۔ خبریں آرہی ہیں کہ دو چار دنوں میں برطانیہ بھی لاک ڈاؤن ہوجائے گا۔ اس وقت وطنِ عزیز میں بھی خوف و ہراس کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ پنجاب میں دفعہ 144 لگ چکی ہے۔ لاہور میں چھوٹے اور گنجان بازار تقریباً بند ہو چکے ہیں۔ سندھ میں سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

ادھر چین نے خدشات ظاہر کیے ہیں کہ یہ وائرس امریکہ کا حیاتیاتی ہتھیار ہوسکتا ہے۔ کیونکہ چینی حکام یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے امریکی فوجی چین میں کرونا وائرس لے کر آئے تھے۔ آج کی جدید دنیا میں حیاتیاتی ہتھیار نیا اور بڑا خطرہ ہیں۔ حیاتیاتی ہتھیار بیکٹیریا یا وائرس وغیرہ یا کسی اور خورد بینی قسموں کے وائرس ہیں جو انسانوں، جانوروں اور پودوں کا قلع قمع کرنے کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔ یہ ظالمانہ مکروہ کام وہی قومیں سر انجام دے رہی ہیں جو جدیدت اور ٹیکنالوجی کے میدان میں خود کو دنیا کے مامے سمجھتی ہیں۔

دنیا بھر میں کرونا کا خوف کچھ اس طرح سے طاری ہے کہ تمام معمولات زندگی معطل ہو کر رہ گئے ہیں۔ یورپی ممالک کی تمام سرحدیں بند ہیں۔ دنیا بھر میں سٹاک مارکیٹ کا بُرا حال ہوگیا ہے۔ خبروں کے مطابق دنیا میں کرونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد پانچ ہزار ہوگئی ہے۔ اقوامِ متحدہ کا دفتر بھی بند ہو چکا ہے۔ کرونا وائرس دسمبر 2019 میں پھیلا تو اس کا نام کرونا 19 رکھ دیا۔ حکومت تو صرف سرحدوں پہ حفاظتی اقدامات کر سکتی ہے لیکن افسوس ہے کہ پاکستان، افغانستان اور ایران کے مابین غیر قانونی آمدورفت اور سمگلنگ کی صورت میں ایک بڑا خطرہ موجود ہے جس پہ فوری قابو پانے کی ضرورت ہے۔

لاہور کے ہوائی اڈے پہ بین الاقوامی پروازوں پر Screening کی اشد ضرورت ہے جو کہ نہیں ہو رہی۔ اس سے پہلے تاریخ میں ایسی کوئی وبا کا ثبوت نہیں ملتا جو عالمگیر سطح پر پھیلی ہو۔ آسٹریلیا کے وزیر داخلہ، برازیل کے صدر، اسپین کے صدر کی اہلیہ بھی اس کا شکار ہوگئی ہیں۔ کوئی بھی وبائی مرض یہ نہیں دیکھتا کہ اس کا شکاری کسی ملک کا صدر ہے یا ٹھیلے والا لہٰذا احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہونا لازمی ہے۔ اس کے لیے ہاتھوں کو دھونا، کچھ دیر دھوپ میں بیٹھنا، مصافحہ وغیرہ نہ کرنا، دوسرے انسانوں سے فاصلہ برقرار رکھنا وغیرہ شامل ہے مرزا غالب سب کے پسندیدہ شاعر ہیں بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ آج کے تمام شاعر غالب ہی کی باز گشت میں تو غلط نہ ہوگا۔ ان کا شعر بھی آج کے ظالم حالات کا عکس پیش کرتا ہے۔

موت کا ایک دن معین ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

یہ بھی آج ہی کی حالت زار کا آئینہ ہے۔ رات رات بھر فکر ستائے رکھتی ہے کہ صبح کیا کرنا ہے۔ کس کو ملنا ہے اور کس کو نہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی پریشان ہیں کہ اگر یہ وبا تیزی سے پھیلی اور بے قابو ہوگئی تو کنٹرول سے باہر ہوگئی۔ برطانیہ نے بھی اپنے لوگوں کو کہہ دیا ہے اگر کسی میں کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت نکل آئے تو لوگ سرجری یا اسپتال مت آئیں کہ وہاں Isolated wards نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے ایسے میں مریض خود کو گھر میں ہی دوسروں سے جدا کر لے اور ڈاکٹر سے ٹیلیفونک رابطے میں رہے۔

سوچیے! اگر ایک ترقی یافتہ ملک کا حال ہے تو ہمارا کیا ہوگا جہاں بنیادی سہولیات ہی میسر نہیں۔ اے خدا بس بنی نوع انسان کی خطائیں معاف کر دے اور اس وبا کو انسانیت سے اُٹھا لیں۔ آخر میں چند چیزیں کچھ اس طرح ہیں کہ خوف زدہ ہونے سے جسم میں موجود صلاحیتیں کمزور ہوجاتی ہیں۔ حقیقی خطرے کا اندازہ لگا کر کسی بھی قسم کی مصیبت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن حواس باختہ ہونے سے معاملات خراب ہوسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم میں زبردست قوت مدافعت رکھی ہے۔

اسی قوت مدافعت نے انسان میں مراقبے جیسی طاقتور چیزیں سیکھنے کی خواہش پیدا کی جس سے جڑنے سے بہت سے ذہنی تناؤ انسانی زندگی سے بھاگ جاتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اجتماعات سے بھی گریز کریں۔ مذہبی تقریبات کو بھی علماء کرام نے مؤخر کرنے کا کہا ہے۔ اسی طرح ہم اس کرونا وائرس کی زنجیرکو توڑ سکیں گے۔ اگر ایسا نہیں کریں گے تو پھر سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments