گل بانو کی بچپن میں اچانک شادی, افسانے کی حقیقی لڑکی قسط 3


اسکول جانے کی ہمت تو کیا ہوتی اسے تو بستر سے اٹھنا ہی مشکل لگ رہا تھا۔ سب سے پہلا خیال یہ آیا کہ اب تو امی کو پتا چل جائے گا کہ وہ واقعی پریشان ہے اور شاید وہ اپنے سخت رویئے پہ شرمندہ ہوں۔ اس نے تھوڑا سا سر گھما کے دیکھا دادی حسب معمول فجر کی نماز کے بعد تسبیح پڑھتے پڑھتے سوگئی تھی۔ وہ اس کے اسکول جانے کے وقت عموما سو رہی ہوتی تھیں سب کے جانے کے بعد امی اپنے اور ان کے لئے چائے نکالتیں تب دادی ٹھیک سے جاگتی تھیں۔

وہ انتظار کرنے لگی کہ امی کو کب احساس ہو کہ وہ اسکول کے لئے تیار ہونے نہیں اٹھی۔ اسد ویسے تو اُسی اسکول جاتا تھا مگر اسے بھی پتا نہیں چلتا کہ بسمہ کب اسکول گئی، کب نہیں۔ جب سے اسے لگنے لگا تھا کہ وہ بڑا ہوگیا ہے اسے بسمہ کے ساتھ اسکول جانے میں شرمندگی ہوتی تھی۔ وہ اپنے کسی دوست کے ساتھ بائک پہ اسکول چلا جاتا تھا۔

بسمہ کافی دیر آنکھیں موندے انتظار کرتی رہی کہ امی کب پریشان ہوکے اسے دیکھنے آئیں۔ بخار اتنا تیز تھا کہ وہ آدھی سوئی جاگی سے کیفیت میں یہ بھی بھول گئی کہ آج اتوار تھا۔ کافی دیر بعد امی اپنی اور دادی کے چائے لے کر کمرے میں آئیں تو ان کی نظر بسمہ پہ پڑی جو اس وقت غنودگی میں تھی، دیکھتے ہی اندازہ ہورہا تھا کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس کا چہرہ تپتا ہوا محسوس ہورہا تھا اور خشک ہونٹ نیم وا تھے جس سے وہ گہرے سانس لے رہی تھی۔ امی نے چائے کے کپ سائیڈ ٹیبل پہ رکھ کر پہلے دادی کو ہلایا۔

”اماں دیکھیں تو بسمہ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی“

دادی ہڑبڑا کے اٹھیں ”ہیں کیا ہوا رات تو بھلی چنگی سوئی تھی، کل اسکول میں کوئی الا بلا کھا لی ہو گی یہ ملعون اسکول والے بھی پیسے کمانے کے لالچ میں سڑی بسی چیزیں بچوں کو کھلا دیتے ہیں۔ “

”بسمہ! بسمہ اٹھو بیٹا“ امی نے اس کا بازو ہلایا تو اس نے بہ مشکل آنکھیں کھولیں۔

”اٹھو گڑیا! تھوڑا ناشتہ کرو تو دوا کھلاؤں دیکھو کتنا تیز بخار ہورہا ہے“

امی نے کلی کروا کے چائے ڈبل روٹی دی مگر اس سے وہ بھی نہیں کھائی گئی وہ دوا کھا کے دوبارہ لیٹ گئی۔ اس کی آنکھ دوبارہ تب کھلی جب امی نے اٹھایا کہ فائزہ کا فون آیا ہے اسے اندازہ ہوا کہ وہ چار پانچ گھنٹے سو لی تھی۔ چہرہ اور جسم پسینے سے بھیگ رہا تھا البتہ سر میں ابھی بھی درد ہورہا تھا۔ دادی معمول کے مطابق باہر لاونج میں بیٹھی تھیں۔ امی موبائل پکڑا کر دوبارہ باہر کام کرنے کے لئے چلی گئیں۔

اس نے نقاہت بھری آواز میں کہا ”ہیلو! آگئیں اسکول سے؟ “ دوسری طرف سے فائزہ کی حیرت بھری آواز آئی۔

”کیاہوگیا؟ بخار دماغ پہ چڑھ گیا ہے کیا؟ اتوار ہے آج۔ آج بھی بھیج دے مجھے اسکول، رحم کر یار تھوڑا۔ اچھا سن میں نے کال اس لیے کی تھی کہ فزکس کا کل والا ٹاپک پوچھنا تھا ایکسیلیریشن والی لاسٹ کی کچھ لائنز رہ گئی تھیں ابھی آنٹی نے بتایا کہ تجھے بخار ہورہا ہے۔ کیا ہوگیا گرمی لگ گئی کیا؟ “

فائزہ کافی نارمل لگ رہی تھی جیسے کل والی بات بھول گئی ہو یا اسے پروا نا ہو۔

”پتا نہیں یار ابھی ڈاکٹر کو تو نہیں دکھایا بس امی نے دو پیناڈول کھلا دی تھیں۔ اب تو کم لگ رہا ہے بخار۔ مگر یار۔ ۔ “ وہ تھوڑا رکی ”فائزہ یار میں رات دیر تک گل بانو کے بارے میں سوچتی رہی تمہیں پتا ہے امی اور دادی کو پہلے سے اس کی شادی کا پتا تھا اور پریگنینسی کا بھی۔ “

”ہاں یار میں بھی کل یہی سوچ رہی تھی، امی کو بتایا تو انہیں بھی افسوس ہوا، امی بتا رہی تھیں کہ اس عمر میں تو شادی کروانا جرم ہے۔ سچی پہلے پتا ہوتا تو اس کے بڈھے ہسبینڈ کو پولیس سے پکڑوا دیتی۔ تجھے پتا ہے میں اتنا روئی امی کے سامنے۔ شکر ہے بسمہ یار میرے امی پاپا ایسے نہیں ہیں وہ کبھی میری شادی پڑھائی ختم ہونے سے پہلے نہیں کریں گے۔ “

اور بسمہ کو چند لمحوں میں احساس ہوگیا کہ اس کا اصل صدمہ اور خوف کیا تھا۔ دوسری طرف فائزہ اپنی بات کہے جارہی تھی۔

”ہاں یہ تو بتا، تو کہہ رہی تھی کہ آنٹی والوں کو پتا تھا تونے پوچھا نہیں کہ انہیں کس نے بتایا۔ اس بار بھی سیماء آپی کی دیورانی والوں سے پتا چلا کیا؟ “

” ہاں مجھے بھی یہی لگ رہا ہے۔ تجھے پتا تو ہے کہ امی مجھے ایسی باتیں نہیں بتاتیں۔ “

”شادی کا بتانے میں تو کچھ ایسا نہیں جو چھپایا جائے مجھے لگ رہا ہے مسئلہ کچھ اور ہے۔ دیکھ نا شادی پہلے سے طے ہوتی تو بانو ہمیں خود ہی بتا دیتی یہ اتنی جلدی میں اور چپکے سے شادی؟ کچھ سمجھ نہیں آرہا، مجھے بہت مسئلہ لگ رہا ہے۔ مجھے لگ رہا ہے اسے خود بھی نہیں پتا تھا۔ ایسا کرتے ہیں شام میں امی کے ساتھ چکر لگاتی ہوں تیری طبیعت دیکھنے کا کہہ کر۔ باتوں میں امی کو تو بتا ہی دیں گی وہ لوگ۔ “

فون بند کرتے ہی بسمہ شام کا انتظار کرنے لگی۔ بخار تو اتر گیا تھا مگر ابھی بھی نقاہت اور کمزوری کافی ہورہی تھی۔ کچھ کھایا پیا ہی نہیں جارہا تھا۔ امی دو بار ڈبل روٹی دودھ کے ساتھ کھلانے کی کوشش کر چکی تھیں اور ساتھ ہی جھنجھلا بھی رہی تھیں۔ دادی کی بڑبڑاہٹ بھی ساتھ جاری تھی۔ ”لو دیکھو ذرا! یہ آج کل کے بچے، ذرا دم نہیں ہے۔ ان کی عمر میں ہم تو پیٹ سے ہو کر بھی سب کام کرتے تھے۔ فجر ہوتے ہی ساس مرحومہ بستر سے کھڑا کر دیتیں کہ شریف گھرانوں کی بہوئیں دن چڑھے تک کمروں میں نہیں رہتیں۔ اب حالی ہو بیماری ہو مرحومہ دوبارہ کمرے میں نہیں جانے دیتی تھیں ایسے نخرے ہمارے اٹھائے گئے ہوتے تو پل گئے تھے بچے۔ “

وہ دادی کی باتیں سن سن کر کڑھتی رہی وہ اپنی ساس کے رویئے کا سگی ماں کے رویئے سے مقابلہ کر رہی تھیں۔ اسے امید ہوئی شاید امی اس کی حمایت میں بولیں گی۔ ویسے بھی صبح سے لہجہ تھوڑا نرم ہی تھا۔

امی برتن اٹھا کر جانے لگیں دادی بھی پیچھے پیچھے نکلیں۔

”بہو تم نے لاڈ پیار کر کے نازک بنا دیا ہے۔ چلو لڑکے تو ہوتے ہیں نخرے والے، نہ انہیں پرائے گھر جانا ہے، مگر لڑکی ذات کا تو بڑا خیال رکھنا پڑتا ہے پرائے گھر میں کون سے اماں باوا ہوں گے جو ایسے نخرے سہیں۔ “

”اماں آپ خود دیکھ رہی ہیں میں کیا کروں آج کل کی اولاد ہی بے حس ہوگئی ہے تو کیا کیا جائے۔ خود دیکھ رہی ہے کہ ماں صبح سے رات تک کام میں لگی ہوتی ہے ایسے میں بیماری کے نخرے بھی اٹھانے پڑتے ہیں۔ اور ہم خود بیمار ہو جائیں تو کوئی پانی کو بھی نہیں پوچھتا بس ہر ایک کو اسکول آفس سے آکر سب کچھ تیار چاہیے جیسے ماں تو انسان ہی نہیں۔ “

اسے دکھ اور شرمندگی کے احساس نے ایک ساتھ گھیر لیا۔ اسے شدید رونا آنے لگا ”کیا وہ جان بوجھ کے بیمار ہوئی ہے؟ “

وہ اپنا دھیان ہٹانے کے لئے فائزہ اور اس کی امی کے آنے کا سوچنے لگی وہ آئیں تو گل بانو کے معاملے کی تفصیل پتا چلے۔ اب اسے خود بھی لگ رہا تھا کہ کچھ زیادہ سنجیدہ مسئلہ ہے۔

شام میں تقریبا چھ بجے کے بعد فائزہ اپنی امی (نفیس آنٹی جنہیں محلے میں میڈم نفیس کے نام سے پکارا جاتا تھا) کے ساتھ آئی۔ نفیس آنٹی اس کے لئے جوس اور پھل بھی لے کر آئی تھیں۔

وہ نکل کر باہر لاونج میں آئی تو آنٹی نے آگے بڑھ کر غیر محسوس انداز میں اسے سہارا دیا۔

”ارے واہ بسمہ بیٹا! آپ تو بہت بہادر ہیں۔ میں تو بیمار پڑ جاوں تو بستر کی جان نہیں چھوڑتی“

یہ جملہ اگر اس کے سامنے کسی اور کو کہا جاتا تو وہ نفیس آنٹی کی بچکانہ بات پہ دل میں بہت ہنستی مگر اس وقت اسے یہ سن کر کتنا اچھا لگا یہ وہی جان سکتی تھی۔ ایسا لگا ساری کمزوری صرف رویوں کی تھی جو ذراسی شفقت ملنے پہ گم ہوگئی۔ اسے واقعی لگا کہ اس نے کوئی بہادری کا کام کیا ہے جو ٹارزن اور ہرکولیس بھی نا کر پائے ہوں۔

وہ اور فائزہ وہیں قریب کے صوفے پہ بیٹھ گئیں۔

”اور بھئی اسٹرونگ گرل (مضبوط لڑکی) اتوار کی بجائے پیر کو بخار چڑھانا تھا نا، چھٹی کرنے کا مزا بھی آتا۔ “ ان کی بات پہ بسمہ بے ساختہ مسکرا دی۔

”ارے بخار وخار کیا ہونا ہے بس دوست کی اچانک شادی کو دل سے لگا لیا ہے۔ آخر کو بچپن کا ساتھ ہے ہماری بچی ویسے بھی محبت کرنے والی بچی ہے اپنے پرائے کی تکلیف پہ پریشان ہوجاتی ہے۔ “

یہ دادی تھیں۔

”کاش دادی یہ بات آپ نے مجھ سے کہی ہوتی۔ آپ کو نہیں پتا کہ اتنا سا خیال اور توجہ کتنی ہمت دیتا ہے۔ “ وہ صرف سوچ کے رہ گئی۔ پتا نہیں امی اور دادی کی اصل سوچ کیا ہے ابھی والی یا پہلے والی۔

”ویسے بھابھی بچاری بچی کے ساتھ ظلم بھی بہت ہوا ہے“ توقع کے مطابق امی بغیر کسی محنت کے تفصیل بتانے کے لیے ریڈی تھیں۔ حسب عادت انہوں نے نفیس آنٹی کو بھابھی کہا جبکہ فائزہ، آنٹی کی سب سے بڑی بیٹی تھی اور آنٹی بھی ینگ ہی لگتی تھیں۔ مگر امی کے بقول ان کی شادی جلدی ہوگئی اسی لیے بچے بڑے بڑے ہیں ورنہ تو وہ ابھی جوان ہیں۔ اور نفیس آنٹی سے کافی چھوٹی بھی۔ بلکہ امی تو محلے کی عموما شادی شدہ خواتین کو بھابھی ہی کہتی تھیں بھلے ان کے بچے اسد سے چھوٹے ہی کیوں نا ہوں۔ ہاں کچھ خواتین جواب میں امی کو خالہ کہہ کر حساب چکا دیتی تھیں۔

بسمہ کل سے اپنے دماغ میں ابل ابل کر آنے والی سوچوں سے پریشان تھی۔ آج بھی امی کے بھابھی کہنے پہ پتا نہیں کہاں تک چلا گیا اس نے سر جھٹک کر امی کی بات پہ دھیان دیا۔

”ہمیں تو پچھلے مہینے سیما نے بتایا۔ سچ اتنا دکھ ہوا کیسی چھوٹی سی بچی کے ساتھ ایسا ظلم کردیا۔ اس کی دیورانی کی بہن جاتی ہے نا میلاد پڑھنے اسی سے پتا چلی سب تفصیل۔ “

”تو اتنی جلدی میں شادی کرنے کی کیا ضرورت پڑ گئی تھی کچھ مہینے انتظار کر لیتے بچی میٹرک تو پورا کر لیتی۔ ایسے بیچ میں پڑھائی چھڑوائی۔ “

”ارے بھائی کے کرتوت بھگت رہی ہے بچاری، سیما بتا رہی تھی گل بانو کے بھائی نے گاؤں کی دوسری برادری کی لڑکی سے بھاگ کر شادی کر لی ہے بلکہ خدا جانے کی بھی ہے یا۔ بھئی ان دیہاتیوں کو شریعت کا کیا پتا کلمہ بھی آ جائے تو بڑی بات ہے۔ خیر اب وہ دونوں تو روپوش ہیں۔ جرگے نے عوض میں پانچ لاکھ جرمانہ اور گل بانو کا نکاح لڑکی کے چاچا سے کرنے کا فیصلہ دیا۔ مجھے تو سوچ سوچ کے ایسا ترس آتا ہے بچی پہ ایسی پیاری سلجھی ہوئی بچی نماز روزے کی پابند بس بھابھی کیسے گنوار لوگ ہوتے ہیں یہ گاؤں والے بھی۔ “

امی کے لہجے میں درد ہی درد تھا جو کل کہیں بھی محسوس نہیں ہوا۔ کل تک ان کے لئے یہ شادی ٹھیک تھی۔

اب دادی نے تفصیل کا چارج سنبھالا ”بس نا پوچھو مجھے تو بتاتے شرم آ رہی ہے تین دن بچی اسپتال رہ کر آئی ایسا حال کیا ظالم نے پہلی رات۔ “

بسمہ کا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا اس کا شدت سے دل چاہا کہ اس کا مطلب وہ نہ ہو جو اسے لگ رہا ہے اس نے فائزہ کی طرف دیکھا جس کے چہرے پہ بھی اسی سے ملتے جلتے تاثرات تھے۔ مگر نفیس آنٹی کی بات نے ان کے شک پہ یقین کی مہر لگا دی۔

”خالہ یہی مسئلہ ہے ہمارا، ہم قانون کو صرف تب مانتے ہیں جب اپنا مفاد ہو ورنہ سب کو پتا ہے کہ کم عمری کی شادی جرم بھی ہے اور خطرناک بھی۔ ہم اپنے ہاتھوں سے اپنی بچیوں کو مرنے کے لئے بھیج دیتے ہیں ورنہ اس عمر میں بچی کا جسم بہت نازک ہوتا ہے ازدواجی تعلقات کے لیے بھی اور حمل کے لئے بھی۔ “

”نفیس بیٹا برا نہیں ماننا ہم اپنی بچیوں کے سامنے ایسی باتیں نہیں کرتے۔ تبھی ہماری بچیاں ابھی تک اتنی معصوم ہیں۔ زمانے کی ہوا تک نہیں لگنے دیتے ہم انہیں۔ “

دادی کو ایک دم اخلاقیات یاد آگئیں۔

”معافی چاہتی ہوں خالہ۔ مگر واقعی افسوس بہت ہوا اس کا حال سن کر۔ چلیں بسمہ بیٹا آپ آرام کریں ہم چلتے ہیں۔ فائزہ بیٹا بسمہ کو اس کے روم تک چھوڑ آؤ بچی بیٹھے بیٹھے تھک گئی ہوگی۔ “

آنٹی کہتے ہوئے کھڑی ہوگئیں۔ دادی نے بے مروتی کا مزید مظاہرہ کیا اور اپنا پاندان کھول کے بلاوجہ اس میں مگن ہوگئیں۔

بسمہ شرمندہ سی فائزہ کے ساتھ روم میں آگئی۔

”فائزہ سوری یار دادی بس جو منہ میں آتا ہے بول دیتی ہیں تم میری طرف سے آنٹی سے معذرت کرلینا۔ “

”کوئی بات نہیں یار ہمیں پتا ہے ان کی عادت کا دوسرا امی کیونکہ روز یہ موضوع کالج میں پڑھائی ہیں تو انہیں یہ اتنا عجیب نہیں لگتا جتنا عموماً خواتین کو لگتا ہے امی کے بقول ایسی باتوں میں ذومعنی اصطلاحات بات کو زیادہ نامناسب بنا دیتی ہیں۔ “ فائزہ ہلکے سے ہنسی۔ ”چل بس تو آرام کر کل اسکول میں ملتے ہیں۔ “

بسمہ بستر پہ بیٹھی اسے جاتا دیکھتی رہی پھر تھکن زدہ انداز میں لیٹ گئی۔ وہ سوچنے لگی کہ آنٹی نے ایسی کون سی ناموزوں بات کہہ دی تھی جو دادی نے نہیں کی تھی صرف الفاظ کا ہی تو فرق تھا بات تو ایک ہی تھی نا۔ بس مختلف بات تو یہ تھی کہ بچیوں کی کم عمری میں شادی نہیں کرنی چاہیے تو کیا ’یہ‘ بات دادی کے لیے غیر اخلاقی تھی؟ اور اگر گل بانو اسی وجہ سے اسپتال میں داخل ہوئی تھی تو مطلب آنٹی کا موقف ٹھیک تھا۔ مگر ایسا کیسے ہوسکتا ہے یہ تو بہت نازک اور رومانوی رشتہ ہے دادی نے یا تو کسی اور حوالے سے کہا ہوگا جسے آنٹی نے یہ معنی پہنا دیے۔ مگر وہ تو زولوجی کی ٹیچر ہیں انہیں ٹھیک سے نہیں پتا کیا؟ پھر اسے یونہی خیال آیا کہ دادی کو تو ویسے بھی نفیس آنٹی پسند نہیں تھیں۔

اور اس ناپسندیدگی کی ان کے پاس ایک بہت مضبوط وجہ تھی وہ یہ کہ وہ باہر مردوں کے ساتھ کام کر کے پیسے کماتی ہیں۔ دادی کے مطابق عزت دار عورت بھوکی مرجاتی ہے مگر خود کو مردوں میں لے جاکر ذلیل نہیں کرتی۔ ان کے خیال میں باہر نکل کر کام کرنے والی عورتیں صرف مردوں سے بات کرنے کے شوق میں گھر سے باہر نکلتی ہیں۔ بسمہ بھی دادی کی باتوں پہ آنکھیں بند کرکے یقین کرتی تھی مگر اس کے باوجود نفیس آنٹی سے مل کر اسے ہمیشہ بہت اچھا لگتا تھا۔

وہ ہمیشہ فائزہ سے بہت نرم لہجے میں بات کرتی تھیں دادی کے بقول اسی نرمی نے فائزہ کو بگاڑ دیا ہے لڑکیوں والی حیا شرم تو ہے ہی نہیں اس میں بے نتھا بیل بن گئی ہے۔ جبکہ امی کا خیال تھا کہ یہ صرف دکھاوا اور منافقت ہے ہر ماں اپنی اولاد سے ایسے ہی بات کرتی جیسے امی کرتی ہیں کچھ مائیں دوسروں کے سامنے منافقت دکھاتی ہیں جو امی کو نہیں آتی کرنی۔

پہلے کبھی اس نے ان باتوں پہ غور ہی نہیں کیا بس جو اور جیسا دادی اور امی نے کہہ دیا اس نے مان لیا۔ اب اسے حیرت ہورہی تھی کہ اب وہی باتیں الگ زاویئے سے نظر آرہی تھیں۔ جن پہلوؤں پہ اس نے کبھی غور نہیں کیا آج اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ بھی سامنے کی ہی باتیں تھیں جنہیں وہ نظر انداز کرتی رہی۔ اس نے نفیس آنٹی کو کبھی برقعہ پہنے نہیں دیکھا جس پہ امی اور دادی دوسری محلے کی عورتوں کے ساتھ مل کے خوب باتیں بھی بناتی تھیں مگر محلے کے تقاریب میں نفیس آنٹی کا لباس امی اور ان دوسری تمام عورتوں سے زیادہ شائستہ ہی ہوا کرتا۔

وہ امی کی طرح خوبصورت نہیں تھیں مگر ان کی خود اعتمادی ان کی کم صورتی پہ حاوی رہتی۔ جبکہ امی کی کوشش ہوتی کہ جب وہ خوبصورت ہیں تو ہر تقریب میں وہی چمکتی نظر آئیں۔ ہر تقریب میں جاتے ہوئے انہیں لگتا کہ آج تو ان کی تیاری نفیس آنٹی کو جلا دے گی مگر کبھی ایسا نہیں ہوا۔ پتا نہیں کیسا مقابلہ تھا یہ، یک طرفہ۔ امی کا وزن عمر کے ساتھ بڑھ رہا تھا مگر ان کی کوشش ہوتی کہ کپڑوں کا ناپ وہی پرانا رہے وہ پڑوس کی عورتوں میں بیٹھ کے فخر سے کہتی تھیں کہ بچے جوان ہوگئے مگر ان کا اور ان کی بڑی بیٹی کے کپڑوں کا ایک ناپ ہے۔

جو فرق نفیس آنٹی اور امی کی پہننے اوڑھنے میں تھا وہی اس کے اور فائزہ کی پہننے اوڑھنے میں تھا۔ ویسے فائزہ ہر جگہ سادہ دوپٹہ اوڑھ کے جاتی وہ بھی کبھی سر پہ کبھی گلے میں مگر اس کے کپڑے ہمیشہ سادے ہوتے چاہے کوئی تقریب ہی کیوں نا ہومگر بسمہ کو امی باہر جاتے میں بار بار ٹوک کے دوپٹہ اور اسکارف سر پہ رہنے کی تاکید کرتیں مگر شادیوں میں کبھی اسکارف نہیں پہننے دیتی تھیں۔ پچھلی ایک دو شادیوں میں تو پارلر سے ہیئر اسٹائل بھی بنوایا تھا۔

بسمہ سوچے جارہی تھی اور سوچیں تھیں کہ ختم ہی نہیں ہورہی تھیں۔ بس گل بانو کی طرف دھیان جا بھی رہا تھا تو وہ خود سے جھٹک دیتی تھی۔ رات کے کھانے تک اسے اپنی طبیعت کافی بہتر محسوس ہونے لگی تھی۔ مگر اب بھی چلتے میں یا کوئی کام کرنے میں ہاتھ کانپتے محسوس ہورہے تھے۔ مگر کھانا کھا کے وہ برتن دھونے کھڑی ہوگئی دماغ پہ ایک دھن سی سوار ہوگئی تھی کہ دادی اور امی کو دکھانا ہے کہ وہ نہ تو کمزور ہے نہ بے حس۔ برتن دھوتے میں دو بار وہ تھک کر بیٹھ گئی مگر تھوڑا سستا کر دوبارہ کام میں لگ گئی اور برتن پورے کر کے ہی چھوڑے۔ آہستہ آہستہ صبح کے لیے یونیفارم پہ استری کی۔ یہ سب کر کے ہی اتنی تھکن ہوگئی کہ وہ بستر پہ لیٹتے ہی سو گئی۔

اگلی صبح سے سب پہلے جیسا روٹین تھا۔ وہ فائزہ سے گل بانو کے بارے میں بات ہی نہیں کر رہی تھی۔ وہ میاں بیوی کے رشتے کی نزاکت اور رومانویت برقرار رکھنا چاہتی اسے ڈر تھا کہ اس نے تفصیل سے بات کی تو یہ سب ختم ہوجائے گا وہ چاہتی تھی کہ دادی کی بات کامطلب وہ رہے جو وہ سمجھنا چاہتی ہے وہ نہ ہو جو نفیس آنٹی نے بتایا۔ یہ کوئی اتنی سی بات نہیں تھی اس کے تصوّرات کی افسانوی دنیا کا دارومدار اسی نازک رومانوی تعلق پہ تھا۔

وہ جیسا یہ سب تصور کرتے ہوئے محسوس کرتی وہ سب سے منفرد تھا وہ اس احساس کو کھونا نہیں چاہتی تھی۔ دن رات تیزی سے گزرتے جارہے تھے میٹرک کا سال پورا ہورہا تھا۔ امی اب ہر چھوٹی بڑی تقریب میں اسے تیار کروا کر لے جاتیں اور ہر خاتون سے اس کا تعارف کرواتیں اور یہ بتانا نہ بھولتیں کہ بڑی دونوں بیٹیاں بیاہ دی ہیں اور بسمہ بھی میٹرک کرنے والی ہے بس جیسے ہی کوئی شریف خاندان ملا اس کے فرض سے بھی سبکدوش ہونا ہے۔ اس دوران پتا نہیں کیوں ناچاہتے ہوئے بھی بسمہ کا جسم کچھ لمحوں کے لئے ٹھنڈا پڑ جاتا اور سانس رکتی محسوس ہوتی۔

اسے پتا بھی نہیں چلا کہ کب اس کے دل میں خوف بیٹھ گیا

سوتے میں عجیب سے خواب آتے، کبھی وہ دیکھتی کہ وہ دلہن بنی ہوئی ہے اور فائزہ کہہ رہی ہوتی زبردستی کی شادی رومینٹک ہوتی ہے کیا؟ کبھی دادی کہہ رہی ہوتیں کہ ظالم نے وہ حال کیا کہ تین دن اسپتال میں رہ کر آئی، کبھی امی کہہ رہی ہوتیں اچھا ہوا بچی اپنے گھر کی ہوگئی۔ کبھی گل بانو نظر آتی مگر اسے لگتا کہ وہ گل بانو نہیں بسمہ خود ہے۔ کبھی گل بانو کی شکل بشریٰ آپی سے ملنے لگتی۔

اس کے دل میں یہ خیال جڑ پکڑنے لگا کہ گھر والے شادی کرائیں گے تو اس کا بھی گل بانو جیسا حال ہوگا اور گھر والوں کو کوئی فکر نہیں ہوگی۔ اس کے دل و دماغ میں جنگ سی چھڑ گئی تھی۔ ایک طرف بچپن سے سیکھی ہوئی اقدار اور ایک طرف اس کا خوف جو اسے غیر منطقی لگ رہا تھا مگر پھر بھی وہ اس سے پیچھا نہیں چھڑا پارہی تھی۔ اسے پتا تھا کہ وہ اچھی بیٹی ہے اور والدین کی نافرمانی کبھی نہیں کرے گی مگر اسے یہ بھی لگتا تھا کہ گھر والوں نے زبردستی شادی کردی تو خوف سے اُس کا دل رک جائے گا۔

جاری ہے۔

ابصار فاطمہ
اس سیریز کے دیگر حصےزبردستی کی شادی رومانوی ہوتی ہے کیا؟محبت کرنے اور اپنی نمائش لگانے میں فرق ہے

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments