کرونا اور سماجی پستی


کرونا وائرس جس نے دنیا کے تقریبا 165 کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ سائنس جس کا دعویٰ اوج ثریا پر پہنچنے کا ہے۔ آج بے بس و لاچار ہے۔ اگرچہ سائنس داں اس مرض کی ویکسین کی تیاری میں دن رات مصروف ہیں لیکن ابھی تک اس میں کوئی حتمی کامیابی سامنے نہیں آئی ہے، اور کامیابی کی صورت میں بھی اس دوا کو عوام الناس تک پہنچنے میں تقریبا ایک سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ دوسری اہم بات یہ کہ ترقی یافتہ ممالک بھی اسی طرح اس کی زد میں ہیں جتنا کہ ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک۔ امیر اور غریب کی تفریق کے بغیر یہ وائرس سب کو متاثر کررہا ہے۔ آج وہ طبقہ بھی دُبک کر گھر بیٹھ گیا ہے جن کہ بارے میں اکبر ؔنے کہا تھا کہ :

ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا

کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے اسپتال جاکر

یا پھر جو موسم کی شدت یا کسی بھی منفی غیر معمولی صورتحال میں دبئی یا یورپی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ جب سب سے پہلے یہ وبا چین میں پھیلی تو سوشل میڈیا پر ہمارے ”دانشوروں“ نے چین کو اس کی خوراک کے حوالے سے خوب معطون کیا اور حلال اور طیّب خوارک کی افادیت پر بھرپور اقوال پیش کیے۔ لیکن جوں ہی یہ وبا پاکستان کی سرحدوں تک پہنچی دس روپے کا ماسک سو روپے میں ملنا شروع ہوگیا حالانکہ ڈاکٹر بتا چکے ہیں کہ ایک صحت مند آدمی کی بجائے ماسک اس کے لئے فائدہ مند ہے جو کروناوائرس کا شکا ر ہے۔

ذخیرہ اندوزوں نے کمر کس لی نجی لیبارٹریوں کی بھی چاندی ہوگئی اور کرونا وائرس کے ٹیسٹ کی ”خدمات اور سہولت“ ہزاروں روپے کے عوض فراہم کرنے کی تشہیر کی جارہی ہے۔ فتنہ گروں نے خور و نوش کی دکانوں کی بندش کی اطلاع پھیلا کر افراتفری کا ماحول پیدا کردیا اور قحط کی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی۔ سوشل میڈیا پر کرونا وائرس کے علاج کے وظائف اور دیسی ٹوٹکے کثرت سے دستیاب ہیں اور تو اور سابق بیوروکریٹ اور کالم نگار نے تو ان ہومیو پیتھک دواؤں کے نام بھی اپنے کالم میں شائع کردیئے جن سے کرونا وائرس کا علاج ممکن ہے۔

کرونا وائرس گزشتہ سو سالوں کے دوران پھوٹنے والی بد ترین وبا ہے، جہاں اس وبا نے خوف پھیلایا ہے وہاں جستجو کا ایک نیا جذبہ بھی پیدا کیا ہے جو اس وبا کے علاج کے لیے متحرک ہے۔ وائرس سے متاثر افراد کے قرنطینہ سینٹر بنائے جارہے ہیں، جن کی حالتِ زار کی ویڈیو سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ موت کے خوف نے عجیب صورتحال پیدا کردی ہے جس کا سب سے زیادہ شکار اشرافیہ ہیں۔ رہے عوام تو استحصالی طبقات نے عوام کو پہلے ہی قرنطینہ سینٹر میں رکھا ہوا ہے جہاں انھیں اسی قدر دیا جاتا ہے کہ سانس اور روح کا رشتہ برقرار رہے اور غلام ابن غلام کا سلسلہ جاری رہے۔

کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ کورنا کے خوف سے ہزار یا پانچ سو روپے یومیہ کمائی سے گھر کی کفالت کرنے والا مزدور گھر میں بند ہو کر بیٹھ ہوجائے؟ ، ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کی اشرافیہ کو اشیاء خورد و نوش کی قلت کا خدشہ ہے کیا انہوں نے کبھی دنیا میں ہر سال غذائی قلت اور بھوک سے مرنے والے تیس لاکھ سے زائد افراد کے لیے بھی کوئی عملی قدم اٹھایا ہے؟ دنیا کی ساڑھے سات ارب سے زائد کی آبادی میں کورونا وائرس سے اب تک صرف تقریباً آٹھ ہزار افراد موت کا شکار ہوئے ہیں جب کہ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں عمومی اموات کی یومیہ شرح تقریباً ایک لاکھ ستر ہزار ہے۔

ایک دوست سے بات ہوئی تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس کے حوالے سے پاکستان کی عوام کو کیا مسئلہ؟ یہ یہاں اس طرح اپنا اثر نہیں دکھا سکے گا جیسا کہ دیگر ممالک کی عوام اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ پاکستان کی عوام کی اکثریت تو پہلے ہی صاف پانی کی سہولت سے محروم ہیں، ملاوٹ زدہ خوراک، مردہ مرغیوں اور گدھے گھوڑے کا گوشت کھانے والوں پر کرونا کیا اثر کرے گا؟ ہماری قوت مدافعت تو پہلے ہی سے بہت مضبوط ہے۔

کرونا کی وبا یقینا باعث توتشویش ہے۔ لیکن گزارش یہی ہے کہ احتیاط کیجیے، خوف نہ خود پر طاری کیجئے نہ دوسروں پر مسلط کیجئے اور اللہ سے خیر کی امیدکے ساتھ اپنے سماجی اورمعاشی معاملات کو بھی احکامِ الہی کی روشنی میں اداکرنے کی سعی کیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments