ڈیموکریٹک پارٹی کے برنی سینڈرز امریکی صدارتی انتخابات کی دوڑ سے باہر؟


برنی

امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار کے لیے نامزدگی حاصل کرنے کے لیے برنی سینڈرز اور جو بائیڈن کے درمیان مقابلہ جاری ہے مگر اب یہ مقابلہ سینیٹر سینڈرز کے ہاتھوں سے بظاہر نکلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔

امریکی ریاست ورمونٹ سے تعلق رکھنے والے سینیٹر برنی سینڈرز کو کشمیر، مشرقِ وسطیٰ اور امریکہ میں مسلمانوں کی حمایت کرنے اور اسلامو فوبیا کے خلاف کھل کر گفتگو کرنے کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔

ساتھ ہی ساتھ برنی سینڈرز امریکہ کی سیاہ فام، افریقی اور ہسپانوی برادریوں، تارکینِ وطن اور مقامی قبائل کے حقوق اور ان کے ساتھ روا رکھی جانے والی تفریق کی بھی مذمت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ہلیری کو ہرانے والے اپنے ہی تھے

کشمیر: امریکی سیاستدانوں اور میڈیا کی بڑھتی تشویش

’یہاں اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے والوں کا داخلہ منع ہے‘

یوکرین کے صدر سے متنازع گفتگو پر ٹرمپ مشکل میں

ماضی میں برنی سینڈرز کو پاکستان اور امریکہ میں مقیم مسلمانوں اور پاکستانیوں کی جانب سے پذیرائی ملتی رہی ہے۔

انھوں نے گذشتہ سال اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ (اسنا) کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے، رابطوں پر پابندی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کڑی تنقید کی۔

اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے امریکی حکومت پر بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق اس مسئلے کے پرامن حل کے لیے کھل کر بولنے پر زور دیا تھا۔

https://twitter.com/People4Bernie/status/1167947007765311489

سینڈرز پھر بھی پیچھے کیوں ہیں؟

برنی سینڈرز کی جانب سے امریکہ جیسے متنوع معاشرے کے بیشتر طبقات کے مسائل کو اپنی مہم کا حصہ بنانے کے باوجود لگتا ہے کہ وہ اس مہم میں جو بائیڈن سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔

واضح رہے کہ ستمبر 2019 میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعتراف کیا تھا کہ انھوں نے سابق امریکی نائب صدر جو بائیڈن اور ان کے بیٹے سے متعلق معاملہ جولائی میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی کے ساتھ ایک فون کال میں اٹھایا تھا۔

ان پر الزام ہے کہ انھوں نے یوکرین پر دباؤ ڈالا کہ وہ 2020 کے صدارتی انتخابات میں ان کے ممکنہ حریف جو بائیڈن کے متعلق تحقیقات کریں۔

صدر ٹرمپ نے ان الزامات کا انکار کیا تھا مگر ان الزامات پر کانگریس نے صدر ٹرمپ کا مواخذہ کیا جس میں انھیں سینیٹ نے بری کر دیا تھا۔

جو بائیڈن، ہنٹر بائیڈن

جو بائیڈن کے بیٹے ہنٹر بائیڈن (بائیں) یوکرائن کی سب سے بڑی گیس کمپنیوں میں سے ایک ’بوریزما‘ میں پرکشش تنخواہ حاصل کرنے والے ڈائریکٹر تھے

ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے صدارتی نمائندگی حاصل کرنے کے لیے 1991 نمائندوں کی حمایت حاصل کرنا ضروری ہے، اور تاحال جو بائیڈن 1147 جبکہ برنی سینڈرز 861 نمائندوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

جو بائیڈن فلوریڈا، ایلینوائے اور ایریزونا میں بھاری مارجن سے جیت کے بعد نمائندگی حاصل کرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔

تو کیا امریکہ نے برنی سینڈرز کے بیانیے کو ایک مرتبہ پھر مسترد کر دیا ہے؟

فلوریڈا جو بائیڈن کا حامی

کورونا وائرس کے باوجود فلوریڈا میں ڈیموکریٹک پارٹی کے پرائمری مقابلوں میں متوقع ہے کہ تعداد 2016 کے 17 لاکھ ووٹس سے زیادہ ہوگی۔ اس وقت ہیلری کلنٹن نے یہ ریاست جیتی تھی اور اس مرتبہ جو بائیڈن نے یہاں سے فتح حاصل کی ہے۔

یہاں پر ووٹر اکثریتی طور پر ریٹائرڈ افراد پر مشتمل ہیں اور بائیڈن کے لیے یہ ایک قوت ثابت ہوئے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر عمر رسیدہ ووٹروں نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ برنی سینڈرز کے انقلابی جذبے کے بجائے سابق نائب صدر کے بتدریج اصلاحاتی پروگرام سے زیادہ متفق ہیں۔

وسطی فلوریڈا کی سمٹر کاؤنٹی جہاں پر ریاست کے اوسطاً سب سے عمر رسیدہ افراد مقیم ہیں، وہاں سینڈرز تیسرے نمبر پر آئے، بائیڈن اور یہاں تک کہ مائیکل بلومبرگ سے بھی پیچھے، جو رواں ماہ کے اوائل میں مقابلے سے دستبردار ہوگئے تھے۔

اس کے علاوہ بائیڈن کو فلوریڈا کے ہسپانوی ووٹروں میں بھی پذیرائی حاصل رہی، بھلے ہی اولین مقابلوں میں یہ آبادی سینڈرز کی قوت ثابت ہوئی تھی۔

سینڈرز نے ٹیکساس اور نیواڈا میں برتری حاصل کی مگر ان دونوں ریاستوں کے برعکس فلوریڈا کی ہسپانوی برادری کیریبیئن اور جنوبی امریکہ سے تعلق رکھتی ہے، چنانچہ کئی لوگوں کو سینڈرز کی ‘سوشلسٹ’ پہچان سے مطلق العنانیت کی یاد آتی ہے۔

اور ممکنہ طور پر صرف فلوریڈا میں ہی اپنی جیت کی وجہ سے بائیڈن کو حاصل نمائندوں کی حمایت میں دوگنا کا اضافہ ہوا۔

جو بائیڈن اور برنی سینڈرز 15 مارچ 2020 کو ڈیموکریٹک پارٹی کے مباحثے کے دوران

جو بائیڈن اور برنی سینڈرز 15 مارچ 2020 کو ڈیموکریٹک پارٹی کے مباحثے کے دوران

مگر رکیے!

اب زیادہ سے زیادہ ریاستیں اپنے پرائمری انتخابات کو جون تک ملتوی کرنے کا اعلان کر رہی ہیں، اور جولائی کے لیے طے شدہ ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن بھی معلق ہے۔

مختصر مدت میں اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ بھلے ہی بائیڈن سینڈرز سے کہیں آگے ہیں، مگر اب بھی سینڈرز کے چاہنے والوں کو امید ہوگی کہ تاخیر سے باقی ریاستوں کے ووٹروں کو ایک مرتبہ پھر سوچنے کا موقع ملے۔

کچھ دیگر لوگوں نے چند حالیہ قومی سرویز کی جانب اشارہ کیا ہے جس کے مطابق بائیڈن کو حاصل برتری میں کمی آ رہی ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک یہ اشارہ ہے کہ برنی سینڈرز کی مہم ایک مرتبہ پھر زور پکڑے گی۔

سینڈرز کو اب یہ سوچنا ہوگا کہ وہ اس مقابلے میں کتنا عرصہ باقی رہنا چاہتے ہیں۔ منگل کو انھیں مکمل طور پر شکست ہوئی جبکہ گذشتہ ہفتے وہ چھ میں سے پانچ مقابلے ہارے۔

اب ان پر ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے باعزت طریقے سے دستبردار ہونے کے لیے مطالبات سامنے آئیں گے۔

اب انھیں اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ان کی تحریک کے لیے اس وقت کیا چیز سب سے زیادہ بہتر ہے۔

کیا دوڑ میں شامل رہنا انھیں ان مسائل پر بات کرنے اور واپس آنے کے لیے وقت فراہم کرے گا، یا یہ کہ مقابلے میں شامل رہنے سے صرف یہ امکان بڑھے گا کہ وہ انتخابات کے بعد بھی یادوں میں رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp