کورونا وائرس: ہمیں اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے


مسلمہ حقیقت ہے بدلتے وقت کے ساتھ زمانہ بھی کروٹ بدلتا ہے اور اس کے زیر اثر سوچ، انداز فکر اور سماج بھی اپنی سمت متعین کرتے ہیں۔ حادثات، آفات اور وبائیں انسانی دماغ کو سوچ و بچار پر مجبور کرتی ہیں اور وہ اپنے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے جدید علوم سے استفادہ کرتے ہیں۔ یوں نت نئی ایجادات اور دریافتیں سامنے آتی ہیں۔ لیکن ہماری کہانی کچھ اور ہی کہتی ہے۔

ملک پاکستان میں ہر دوسرا بندہ حکیم اور ڈاکٹر ہے۔ ان پڑھ ورکشاپ مکینک سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تک سبھی کے پاس پیٹ درد سے لے ہارٹ اٹیک تک کے کامیاب علاج کے لیے آزمودہ دیسی ٹوٹکا جیب میں دھرا ہوتاہے۔

دوسری طرف ایسے حضرات بھی نظر آتے ہیں جو ہر معاملے میں اسلام اور نبی پاک ﷺ کی تعلیمات کو لے آتے ہیں۔ اس حقیقت سے قطع نظر کہ مذکورہ بیماری کا وجود حضور ﷺ کے دور میں نہیں تھا۔ آپ ﷺ نے کہیں اس بیماری کے علاج کا ذکر نہیں فرمایا تھا۔ لیکن پھر بھی وہ بضد ہوتے ہیں کہ شریعت محمدی میں ہر مرض کا علاج موجود ہے۔

کچھ ایسا ہی حال اس وقت کورونا وائرس کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ موذی بیماری ہے جسے عالمی وبا قرار دیا جا چکا ہے۔ اس ایک وائرس کی وجہ سے دنیا بھر کے ہزاروں افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ کئی ممالک میں لاک ڈاؤن کی صورتحال ہے۔ خانہ کعبہ کو طواف کے لیے بند کردیا گیا ہے۔ پنجاب (پاکستان) میں دفعہ 144 کا نفاذ کردیا گیا ہے۔ ا ن نازک حالات میں سینکڑوں واٹس اپ میسجز اور فیس بک سٹیٹس پڑھنے اور دیکھنے کو مل رہے ہیں جس میں اس وبائی مرض کا علاج پیاز کے پانی، دیسی ادرک، شہد یا پھر لیموں پانی سے بتایا جا رہا ہے۔

دوسری طرف وہ احباب ہیں جن کا کہنا ہے کہ وبائی امراض سے موت شہادت ہے اور ساتھ ہی وہ کچھ دعائیں اور اذکار بتا رہے ہیں جس کے پڑھنے سے ہم سب اس موذی مرض سے محفوظ ہوجائیں گے۔ کچھ دوست اس مسئلے کے حل کو وضو اور نماز سے جوڑ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اللہ کے نبی نے صفائی کو پسند کیا ہے اور صاف ستھرے رہنے کا حکم دیا ہے۔ آج کی جدید تحقیق کے بعد ڈاکٹر حضرات حفاظتی اقدامات کے تحت یہی مشورہ دے رہے ہیں کہ ہاتھوں کو بار بار دھوئیں۔

کم از کم ہر ایک گھنٹے بعد جراثیم کش سینٹائزر کا استعمال کریں۔ حالانکہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اسلام میں مسلمانوں کو ایک دن میں کم از کم پانچ دفعہ با وضو ہو کر نماز پڑھنے کا حکم ہے۔ جس میں جسم کے تقریباً وہ تمام حصے دھوئے جاتے ہیں جن کو آج کی جدید لیباٹریاں کروڑ روپے خرچ کرنے کے بعد بتا رہی ہیں۔ کچھ احباب اس امر پر معترض ہیں کہ مصافہ سے کیوں منع کیا جارہا ہے۔ جب کہ اسلام میں مصافہ کرنے کے بے تحاشا فوائد بیان کیے گئے ہیں۔

اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ نے صاف ستھرے رہنے کا حکم دیا ہے تو کسی بھی مذہب میں کسی بھی نبی نے گندے رہنے کا حکم نہیں دیا ہے۔ صفائی ستھرائی انسانی تہذیب کے بنیادی اوصاف میں سے ایک ہے۔ اس لیے اس کو کسی ایک دین سے جوڑنا کوئی خاص عقل مندی نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے اسلامی عقیدہ کے مطابق مسلمانوں کو دن میں کم از کم پانچ دفعہ نما ز کے لیے وضو کا حکم ہے۔ تو یہاں یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ اب تک سائنسدانوں نے ریسرچ کے بعد جو حفاظتی اقدمات بتائے گئے ہیں ان دیگر لوازمات میں سے ایک یہ ہے کہ کم از کم ہر ایک گھنٹے بعد ہاتھ دھوئے جائیں اور اس میں بھی جراثیم کش میٹریل یا صابن کا استعمال لازمی قرار دیا گیا ہے اور یہ احتیاطی تدابیر کا کل نہیں بلکہ ایک جز ہے۔

مزید یہ کہ یہ حفاظتی اقدمات تب تک کارآمد ہیں جب تک وائرس آپ پر حملہ آور نہیں ہو جاتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر آپ اس موذی بیماری کی زد میں آجاتے ہیں تو بھی ان ڈاکٹر حضرات کی طرف ہی رجوع کرنا شہادت کی موت حاصل کرنے سے بہتر ہے۔ اس زمین پر اللہ کے نائب بھی یہی ہیں، مسیحائی کا رتبہ بھی انہیں ہی حاصل ہے۔ تیسری بات اسلامی احکامات اپنی جگہ پر محترم بھی ہیں اور مقدم بھی۔ لیکن یہ حقیقت مان لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ قرآن کریم کوئی میڈیکل سائنس، فزکس، کیمسٹری، بیالوجی، ٹیکنالوجی، آسٹرونومی یا دیگر سائنسی علوم کی کتاب نہیں ہے۔ بلکہ یہ سماجی اور اخلاقی ضابطوں کی معلم ہے۔ قرآنی آیات ہمیں نفسیاتی سپورٹ تو دے سکتی ہیں لیکن از خود کسی مرض کا علاج نہیں ہیں۔

اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ جابر بن حیان، البیرونی، ابن خلدون، ابن ماجہ اور چند ایک دوسرے سائنسدانوں کے علاوہ ہمارے پاس کوئی ایسا نام نہیں ہے کہ ہم ترقی یافتہ اقوام کے سامنے سر فخر سے بلند کر کے کھڑے ہوسکیں۔ اس سے بھی تشویش ناک حقیقت یہ ہے کہ ان سائنسدانوں کو اس فانی دنیا سے گئے کچھ سال نہیں بلکہ صدیاں گزر چکی ہیں اور پچھلی کئی صدیوں سے مسلمانوں نے طب سمیت کسی بھی میدان میں کوئی ایجاد یا دریافت نہیں کی ہے۔

اس لیے جب کوئی آفت ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے تو مد د کے لیے جب ہمیں اغیار کی طرف دیکھنا پڑتا ہے جس سے ہماری نرگیسیت کو چوٹ لگتی ہے۔ اس لیے ہم کبھی دیسی ٹوٹکوں سے کام چلاتے ہیں تو کبھی اسلام کا نام لے کر اپنا دفاع کرتے ہیں۔ لیکن بنظر غائر دیکھا جائے تو دونوں صورتوں میں ہماری جہالت مزید واضح ہوجاتی ہے۔ لیکن ہم شتر مرغ کی طرح سر ریت میں چھپا کر سمجھتے ہیں کہ طوفان ٹل چکا ہے۔

اس لیے بہترین حکمت عملی یہی ہے کہ علم کے جدید ستونوں سے آئی ہر تازہ ہوا کو مغربی اور یہودی لابی کہہ کر رد کردینے کی انتہائی خوفناک عادت سے چھٹکارا پائیں اور نئے سائنسی علوم کو حاصل کریں۔ جو لوگ ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کی بات کرتے ہیں ان کے ساتھ قدم سے قدم ملالیں۔ اسی میں ہم سب کی بقا ہے۔

تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ٰ ہے ازل سے

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments