منحوس کرونا وائرس


منحوس کرونا وائرس نے جب سے اس دنیا میں قدم رکھا ہے تو ہر طرف افراتفری اور بے سکونی مچا رکھی ہے۔ خواہ آپ شاپنگ کے لئے جائے، ڈرتے ڈرتے کسی بازار کا رخ کریں، نہ چاہتے ہوئے بھی شادی میں جائے یا ویسے ہی آپ سوچنا شروع کردے تو نا دکھنے والا بھوت کرونا وائرس کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ اب تک اس وائرس سے پانچ ہزار سے زیادہ لوگ وفات پاچکے ہیں۔ اور ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زیادہ لوگوں کے ٹیسٹ پاسیٹیو آئے ہیں۔ مزید اس وائرس کی تباہ کاریوں نے معیشت کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔

جو شہر سیروتفریح کے لئے مشہور تھے، جو مارکیٹیں شاپنگ کے لئے مشہور تھی وہاں پر زمین انسانوں سے خالی پڑے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک نے اب تک اس نئے وائرس سے بچنے کے لئے مختلف احتیاطی تدابیر اپنائے ہیں جس کو اب ترقی پزیر ممالک بھی اپنا رہے ہیں۔ اس وائرس سے سب سے زیادہ نقصان چائینہ کا ہوا ہے اور دوسرے نمبر پر متاثرین وائرس فرانس اور ایران کے ممالک ہیں۔ اس وائرس کا کوئی خاص ٹھکانہ نہیں ہے بلکہ ایک ملک سے دوسرے ملک کو با اسانی منتقل ہوتا ہے۔

یہ وائرس ترقی یافتہ ممالک سے ہوتا ہوا اب پاکستان میں تقریبا ایک ماہ پہلے داخل ہو چکا ہے اور کئی افراد کو متاثر کیا ہے جس سے خوف اور بیماری کا خدشہ دن بدن بڑھتا جاتا ہے۔ یہ خوف غریب ممالک میں اور بھی زیادہ ہے کیونکہ نہ ان ممالک کے پاس وسائل ہیں اور نہ ہی یہ صحت کے معاملے میں بیداراور ہوش مند ہیں۔ اور رہی سہی کسر ہمارے سیاستدانوں کی غیر سنجیدگی پورا کرتی ہے۔

اس سلسلے میں آپ یہ دیکھ سکتے ہیں کہ اس وائرس کے پھیلاؤ کے ایک دو مہینے بعد حکومت نے ایک میٹنگ بلاکر سنجیدگی سے غور کرنا شروع کیا اور اس کے اختتام پر قابل تحسین اقدامات اٹھائے جن میں ایران اور افغانستان کے بارڈر کو بند کرنا، بین الاقوامی سفر کے لئے فلائٹس محدود کرنا اور مختلف تعلیمی اداروں کو بند کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ سندھ کی حکومت کی پھرتی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جنہوں نے محدود وسائل کو استعمال کرتے ہوئے اس وائرس سے بچاؤ کے لئے کئی قابل قدر اقدامات کیے ہیں۔

یہ تو ہوگئے کچھ چیدہ چیدہ نکات۔ اب آتے ہیں ہمارے لوگوں کی طرف جنہوں نے اس وائرس کے بارے میں اپنے طور پر کئی مفروضات قائم کیے ہیں۔ جس سے انسان رنجیدہ بھی ہو جاتا ہے اور غصہ بھی۔ ان لوگوں کی جہالت پر رونا آتا ہے جو کہتے ہیں کہ پاکستان میں کرونا نہیں ہے بلکہ پاکستان امریکی ڈالروں کو ہڑپ کرنے کے لئے یہ ڈرامے کر رہی ہیں۔

جب سوال پوچھا جاتا ہے کہ یہ تو صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے ساری دنیا اس سے متاثر ہو رہی ہے تو بتاتے ہیں کہ یہ امریکی اور اسرائیلی گیم ہے جس کا مقصد ہے کہ مسلمانوں کے ایمان کو کمزور کریں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اب ہم ایک دوسرے سے ہاتھ نہیں ملائیں گے؟ اورتعلیمی ادارے بند تو کر دیے ہیں اب مسجد وں، خانقاہوں اور درگاہوں کو بھی تالا لگادے؟ مزید یہ بھی فرماتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہم شادی میں بھی شرکت کریں گے اور ختم قران کی دستاربندی میں بھی اپنی موجودگی کو یقینی بنائیں گے کیونکہ ہم اس سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔

پاکستان دوسرے ترقی پزید ممالک کی طرح کئی خرافات، پیچیدگیوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہے۔ کبھی اس کو دہشت گردی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے تو کبھی اس ملک کو پولیو، کانگو اور ڈینگی جیسے وائرس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر سب سے بڑا مسئلہ یہاں پر ہماری روایتی سوچ اور رسوم ورواج ہیں۔ جس کو اپناتے ہوئے ہم سائنٹفک چیزوں کو اہمیت نہیں دیتے۔ اور نہ ہی نئے دور کے جدید ٹیکنالوجی سے خاطر خواہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہم پیروں فقیروں، بابو، جعلی حکیموں کے پاس اپنے طبی مسائل کے حل کے لئے جاتے ہیں اور اپنے آپ کو جھوٹی تسلیاں دیتے ہیں کہ ہم ٹھیک ہوگئے ہیں۔ اگر ایسی روش کرونا کے متعلق جاری رہی تو اس سے لوگوں کو بہت نقصان کا خطرہ ہو سکتا ہے۔

ہمارے ملک کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر لوگ بغیر کسی مقصد کے جمع ہو جاتے ہیں۔ اگر ایک شخص پل پر کھڑا ہوکر نیچے نہر میں دیکھ رہا ہو تو سارے لوگ وہاں یہ دیکھنے کے لئے جمع ہوتے ہیں کہ کیا ہورہا ہے۔ اگر آپ مسجد میں جائے تو نماز کے بعد لوگ ویسے ہی گپیں مارنے کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ اگر کوئی اجتماع ہو رہا ہو تو وہاں پر بھی آپ کو لوگ اکٹھے نظر آئیں گے۔ حکومت نے تعلیمی اداروں کو چھٹیاں دی ہیں مگر لوگ ان چھٹیوں کو بطور تفریح استعمال کر رہے ہیں اور دو دو چار چار انسان ملکر کسی پارک میں یا کسی اور جگہ چکر کے لئے جاتے ہیں۔

ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا یا گلے ملنا ہم فرض سمجھتے ہیں۔ عام حالات میں تو یہ باتیں ٹھیک ہیں مگر جب غیر معمولی حالات ہوتے ہیں تو ہمیں احتیاط کرنی چاہیے اور حکومت جو پالیسی اختیار کریں اس پر من و عن عمل پیرا ہونا چاہیے۔ ہماری آبادی زیادہ تر دیہات میں رہتی ہے اور دیہات میں آپ لوگوں سے مصافحہ بھی کریں گے ان کی شادی بیاہ میں شرکت بھی کریں گے اور دستاربندی میں آپ لوگوں کو سہرا بھی پہنائیں گے۔ اگر آپ ایسا نہ کریں تو لوگ آپ پر ہنستے ہیں اور آپ کا مذاق اڑائیں گیا اور آپ کو اس دنیا کا انسان نہیں سمجھتے۔

بہرحال کرونا وائرس ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ جس نے دنیا کو ایک عذاب میں مبتلا رکھا ہے۔ جو کرنے کے کام ہم پہلے کرتے تھے۔ جس روٹین پر ہم پہلے عمل کرتے تھے اس سے ہٹ کر ہم کو احتیاط کرنا ہوگا ورنہ اس وائرس پر قابو پانا ہمارے لئے مشکل ہوگا۔ کیونکہ نہ حکومت کے پاس اتنے وسائل ہیں اور نہ ہی ہمارے لوگ اتنے امیر ہیں کہ وہ اپنا خیال خود رکھیں۔ ہمارے بس میں جو ہوتا ہے ہمیں چاہیے کہ اس پر سختی سے عمل کریں اور غیر ضروری ملنے جلنے سے پرہیز کریں۔ اس میں بھلا ہمارا ہی ہے ورنہ جب یہ وائرس بے قابو ہو جائے تو پھر ہمارے پاس سر کھجانے کے لئے بھی وقت نہیں ہوگا۔ اللہ ہم سب کو اس منحوس اور قاتل وائرس سے بچائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments