کورونا سے لڑنے کے لئے فوج کی نہیں، شعور کی ضرورت ہے!


پاکستان میں کورونا وائرس  مریضوں کی  بڑھتی ہوئی تعداد کے باوجود وفاقی حکومت کی پالیسی غیر واضح  ہے ۔  ابھی  تک ایسے ٹھوس اقدامات سے گریز کیا جارہا ہے جن کے تحت لوگوں کی آمد ورفت کو محدود کرکے اس مرض کو پھیلنے سے روکا جاسکے۔ سندھ حکومت کی بار بار درخواست پر وزیر ریلوے شیخ رشید نے آج بارہ  ریل گاڑیاں بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ملک کے تمام صوبوں میں  کووڈ۔19  کا شکار لوگوں  کی تعداد میں  تیزی سے اضافہ کی سب سے بڑی وجہ ایران سے واپس آنے والے زائرین کی   بلوچستان کے علاقے تافتان سے    اپنے آبائی صوبوں میں واپسی ہے۔  گزشتہ تین روز کے دوران تین ہزار سے زائد  زائرین سندھ، پنجاب اور خیبر پختون خوا  پہنچائے گئے ہیں۔ اب بھی دو سے تین ہزار افراد تافتان اور بلوچستان کے دیگر کیمپوں میں مقیم ہیں جنہیں دو ہفتے کی مدت پوری ہونے پر وہاں سے جانے کی اجازت دی جائے گی۔ حکومت نے ایران سے وطن واپس آنے والے شہریوں کو دو ہفتے تک بلوچستان میں ہی قرنطینہ میں رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم اب خبریں موصول ہورہی ہیں کہ   حفظان صحت اور بنیادی سہولتوں کی خراب حالت کی وجہ سے متعدد افراد   وہاں سے  ’فرار‘ ہونے میں بھی کامیاب ہوگئے تھے۔ ان لوگوں  کا ابھی تک ٹیسٹ نہیں  کیا جاسکا۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان کی وجہ سے کورونا وائرس کہاں اور کن لوگوں تک پہنچ چکا ہے۔  اطلاعات کے موقع پر تافتان کے کیمپ میں حالات اتنے خراب تھے کہ  ایک موقع پر سیکورٹی فورسز کو ہوائی فائرنگ کرکے صورت حال   کو قابو کرنا پڑا۔

اب تافتان سے جو معلومات موصول ہورہی ہیں اور وہاں قیام کرنے والے لوگوں نے جو تصاویر اور ویڈیوز   شئیر کی ہیں ، ان سے پتہ چلتا ہے کہ  بلوچستان یا وفاقی حکومت نے ان لوگوں کی دیکھ بھال کرنے،  انہیں مناسب طبی نگرانی و سہولت  فراہم کرنے یا  دو ہفتے کی مدت پوری ہونے پر ان کے آبائی صوبوں میں روانگی  سے پہلے ان کا ٹیسٹ کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا ۔  اس طرح حکام نے   کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے اس بنیادی سبق کو فراموش کردیا کہ یہ ایک سے دوسرے انسان کو تیزی سے منتقل ہوتا ہے ۔ اسی لئے لوگوں میں  فاصلہ رکھنے، ہاتھ ملانے، گلے  لگانے یا ایک دوسرے کو چھونے سے منع کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ ہر شخص کسی بھی چیز کو ہاتھ لگانے کے بعد فوری طور سے صابن سے اچھی طرح ہاتھ دھو لے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ چین میں اس  وائرس کے پھیلاؤ اور وہاں سے سامنے آنے والی معلومات کے باوجود  پاکستانی حکام ایران سے واپس آنے والے چند ہزار زائرین کی حفاظت کرنے اور ان میں سے  وائرس کے متاثرین کو علیحدہ کرنے میں کامیاب  نہیں ہوئے۔  دو ہفتے کے قرنطینہ کے بعد یہ اہم تھا کہ جن لوگوں میں بیماری کی کوئی بھی  علامت مل رہی تھی،  تافتان سے روانہ کرنے سے پہلے ان کا ٹیسٹ کیا جاتا۔

اسی طرح یہ بات بھی حیران کن ہے کہ ایک  وبائی وائرس سے بچانے کے لئے بظاہر لوگوں کو کیمپوں  میں رکھا گیا لیکن اس وائرس کے بچاؤ اور پھیلاؤ کو روکنے کے لئے کسی قسم کا کوئی اہتمام کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا۔  اس  کے  برعکس دو روز قبل ہی وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں بلوچستان حکومت کی شاندار کارکردگی کی توصیف کرنا ضروری سمجھا۔ اب  ان زائرین کی کہانیاں اور تافتان کی صورت حال  سامنے آنے پر وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کسی بھی قسم کی ذمہ داری لینے سے انکار کیا ہے۔ ایک  ٹوئٹ  میں   صوبہ کے وزیراعلیٰ جام کمال نے کہا ہے کہ ’ تافتان کا نام لینے سے پہلے دوسرے صوبوں کے لوگ دس مرتبہ سوچیں  اور بتائیں کہ کیا  ان  صوبوں کی حکومتوں نے اپنے لوگوں کی دیکھ بھال کے لئے کوئی امداد  تافتان روانہ کی تھی؟‘ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کا ردعمل اس حوالے سے حیران کن نہیں ہونا چاہئے کہ  اس وقت پاکستان میں کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے بحران کا واحد علاج یہ سمجھا جارہا ہے کہ  اس کا الزام دوسرے پر ڈال دو یا  اپنی بجائے کسی دوسرے کو   ذمہ دار قرار دیا جائے۔

سندھ  حکومت نے  البتہ اس بحران میں بروقت اقدام بھی کئے ہیں  اور اسکولوں کو بند  کرنے کے بعد ریستورانوں اور دیگر ہمہ قسم اجتماعات پر پابندی بھی لگائی ہے۔  سندھ میں کسی حد تک  سوشل آئسولیشن کا   اہتمام  بھی کیا جارہا  ہے۔ اس کے علاوہ کراچی اور صوبے کے دیگر شہروں میں  قرنطینہ مراکز قائم کئے گئے ہیں ۔ صوبائی حکومت نے متاثرین کی امداد کے لئے  رضاکار گروپ منظم کرنے اور مخیر حضرات کے وسائل سے علاج معالجہ اور غریب خاندانوں کی امداد کا انتظام بھی کیا ہے۔ مرکزی حکومت نے ابھی تک وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی توصیف  اور ان کے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کرنے یا سندھ حکومت کے تجربہ سے فائدہ اٹھا کر  دیگر صوبوں میں وہی اقدامات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ البتہ  اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا  نے   یہ  یقین دلایا ہے کہ جلد ہی چینی ماہرین سے ویڈیو کانفرنس کا اہتمام کیاجائے گا تاکہ وہاں کے تجربہ سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ اس قسم کے بیان حکومت کی بے عملی اور تساہل کا بدترین نمونہ کہے جاسکتے ہیں۔

اسلام آباد ہی کی پریس کانفرنس میں وزیر اعظم کی معاون خصوصی  برائے اطلاعات و نشریات  فردوس عاشق اعوان کے علاوہ  پاک فوج کے شعبہ  تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل  میجر جنرل   بابر افتخار کو بھی بٹھایا گیا تھا۔ انہوں نے کورونا وائرس کے بحران سے نمٹنے کے لئے فوج کے تعاون کا یقین دلایا اور کہا کہ ’فوج ملک میں کورونا وائرس کاپھیلاؤ روکنے کے لئے پرعزم ہے۔ آرمی  چیف نے ملک بھر میں فوجی یونٹوں کو حکم دیا ہے کہ وہ تمام اضلاع میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے سول انتظامیہ کی مدد کریں۔  فوج قرنطینہ کیمپ بنانے میں بھی سول حکام کی مدد کررہی ہے۔ فوج صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے ساتھ مل کر کووڈ۔19 کے بچاؤ کے لئے اقدامات کررہی ہے۔ اور کسی بھی ایمرجنسی صورت حال سے نمٹنے کے لئے طبی  منصوبہ بنا لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ فوج ہوائی اڈوں پر بھی سول انتظامیہ کی مدد کررہی ہے‘۔

دنیا بھر میں طبی ماہرین اور محققین  کورونا وائرس کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہیں اور اس سے بچاؤ  کے طریقے بتاتے ہیں۔ پاکستان میں  میڈیا ٹاک شوز میں جید  صحافی ایمرجنسی لگا کر ملک کو فوج کے حوالے کرنے کا  مشورہ دیتے ہیں اور اب  وزیر اعظم کے دو معاونین  خصوصی پاک فوج کے ترجمان کو ساتھ بٹھا کر عوام کو یہ پیغام دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ  ’گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، پاک فوج ہے نا‘۔  یہ بات اپنی جگہ پردرست ہے  کہ ملک  کے بیشتر سول ادارے  کم وسائل، بدانتظامی، بدعنوانی اور مہارت کے فقدان کی وجہ سے کسی بھی بحران میں   کارکردگی دکھانے  میں ناکام رہتے ہیں۔ ملک کو سیلاب  و طوفان کا سامنا ہو یا زلزلہ آئے تو فوجی ٹیمیں ہی  متاثرین کو مناسب امداد پہنچانے کا اہتمام کرتی ہیں۔  اگر حکومت وقت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سول اداروں کو مضبوط کرے تاکہ فوج  سے  کم سے کم  مدد لینا پڑے لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی واضح ہونی چاہئے کہ فوج اگر کسی بھی بحران میں سول حکام کی مدد کرتی ہے تو  نہ تو اسے جتانے کی ضرورت  ہے اور نہ ہی اس  اقدام پر فوج  کا ممنون احسان ہونا چاہئے۔ فوج بھی دیگر اداروں کی طرح اس ملک کا ایک ادارہ ہے اور حکومت کے زیر انتظام ملکی دفاع یا کسی مشکل سے نمٹنے میں امداد فراہم کرنے کی آئینی  طور  سے پابند ہے۔

کووڈ۔ 19 کے حوالے سے خاص طور سے پاک فوج کے ترجمان کا  سول حکومت کے نمائیندوں کے  ساتھ بیٹھنا اور یہ اعلان کرنا کہ فوج اس مشکل سے نمٹنے کے لئے تیار ہے، ایک طرف ملک کی  منتخب حکومت کی نااہلی اور ناکامی کی علامت ہے تو دوسری طرف اس تاثر کو قوی کرنے کی افسوسناک کوشش کا حصہ ہے  کہ  فوج کی مدد کے بغیر کوئی سول حکومت کام نہیں کرسکتی۔ کورونا وائرس کوئی دشمن کی فوج نہیں ہے  جو  گولہ بارود  کے ساتھ حملہ آور ہوئی ہے۔  یہ وائرس ایک طبی کیفیت ہے جس سے بچاؤ کے لئے کسی فوجی جنرل کے مشوروں سے زیادہ طبی ماہرین کی رائے اور دوسرے ملکوں کے تجربات سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔       کورونا سے بچاؤ کے لئے کئے جانے والے اقدامات کو یا تو حکومتیں نافذ کرسکتی ہیں یا لوگ خود آگاہی اور اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت  حفاظتی  اقدامات کے ذریعے اس کی روک تھام کا اہتمام کرسکتے ہیں۔ اس موقع پر  ملک کی قیادت کو فوج کی آڑ لینے کی بجائے قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے لئے خود سامنے آنا چاہئے اور ہر سطح پر لوگوں کو معلومات فراہم کرنے  کا اہتمام کرنا چاہئے۔  وزیر اعظم سمیت وفاقی حکومت ابھی تک  یہ مثال قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔

سندھ  میں کورونا کی جنگ  کا بہادری سے مقابلہ کرنے والی  حکومتی  جماعت پیپلز پارٹی  کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے آج کراچی میں بجا طور سے متنبہ کیا ہے کہ اب پاکستان  کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں اس اسٹیج پر پہنچ گیا ہے کہ  صرف   دوسرے ملکوں سے آنے والے ہی اسے پھیلانے کا سبب نہیں بن رہے بلکہ یہ وائرس اب مقامی باشندوں سے دوسروں کو منتقل ہوسکتا ہے۔ یہ چیلنج  ملک کے عوام اور صوبائی و وفاقی حکوتیں مل کر ہی قبول کرسکتی ہیں۔ کورونا کو شکست دینے کے لئے فوج کی نہیں، عقل سلیم اور قائدانہ حوصلہ کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2765 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments