کیا کرونا خدا کی آزمائش ہے؟ جناب جاوید احمد غامدی کا نقطہ نظر


سوال: کرونا وائرس سے جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس میں دو رویے سامنے آ رہے ہیں۔ ایک یہ کہ جو مذہبی لوگ ہیں، وہ اسے خدا کی آزمائش قرار دے کر لوگوں کو اللہ کی طرف رجوع کرنے کی طرف مائل کر رہے ہیں۔ اور جو غیر مذہبی لوگ ہیں وہ اس کا سائنسی طور پہ یا اس کا جو (Cure) ہے اسے تلاش کرنے میں محنت صرف کر رہے ہیں۔ تو اس موقعے پر جب اس طرح کی آزمائش آتی ہے، رویے کیا ہونے چاہیں۔ لوگوں کو ڈرا کے اللہ کی طرف متوجہ کرنا چاہیے یا کوشش کرنی چاہیے کہ اس کا جو حل ہے اس کو تلاش کیا جائے کیونکہ یہ بیماری بھی انسانوں نے ہی پیدا کی ہے۔ اور اس کا حل بھی انسانوں نے تلاش کرنا ہے۔

جواب: دونوں چیزیں ضروری ہیں۔ دیکھے اصل میں بندہ مومن تو ان دونوں کو ہی ہاتھ میں لے کے چلتا ہے۔ مجھے انفرادی طور پر جب تکلیف آتی ہے تو میرے مذہب نے مجھے یہ تعلیم دی ہے کہ مجھے اس کی تدبیر تلاش کرنی ہے۔ یعنی آپ یہ دیکھتے ہیں کہ انسان کو کوئی تکلیف ہو، بیماری ہو تو دور دراز دیہات کے لوگ بھی اپنے مریض کو چارپایوں پر اٹھا کر اسپتال تلاش کرتے پھر رہے ہوتے ہیں۔ تو اس لئے مسلمانوں کو بھی اسی طرح اس کا علاج دریافت کرنے میں اپنا کام کرنا چاہیے۔ اس کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ جو چیزیں دریافت ہو جائیں ان کو ایک تدبیر کے طور پر اختیار کرنا چاہیے۔ یہ چیز خود ہمارے مذہب کی سکھائی ہوئی ہے۔ یعنی ہم کسی ایسے مذہب کے ماننے والے نہیں ہیں جو کوئی جادو منتر کی قسم کی چیزیں سکھاتا ہو۔ مجھے نہیں معلوم کہ جو لوگ اس معاملے میں اپنا نقطہ نظر مذہب کے حوالے سے بیان کرتے ہیں انھوں نے یہ چیز کہاں سے سنی اور پڑھی ہے۔ قرآن مجید رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات اس سب سے بالکل خالی ہیں۔

ہم تو بالکل سائنسی ذہن رکھنے والے لوگ ہیں۔ جب بھی کوئی تکلیف آئے گی، مصیبت آئے گی، دنیا میں کوئی معاملہ ہو گا تو سب سے پہلے جو تعلیم ہمیں دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی عقل کو استعمال کریں گے اور تدبیر کریں گے۔ بلکہ یہ تدبیریں ہم مقدما کریں گے۔ یہ ہمارا مذہب ہے جس نے ہمیں تعلیم دی، آپ سورہ یوسف میں دیکھیے کہ وہاں یہ ہدایت کی گئی کہ ایک قحط آنے والا ہے۔ ابھی آنے والا ہے۔ تو اس کے لئے خواب دکھایا گیا کہ یہ اہتمام کرنا ہے۔

خدا کے ایک پیغمبر نے وہ تدبیر دی۔ غلہ محفوظ کیا گیا۔ یہ جتنا کام ہے، اس میں کوئی دعا نہیں کی گئی محض۔ یا کوئی جنتر منتر، کوئی جادو نہیں کیا گیا۔ بلکہ وہ تدابیر بتائیں گئیں ہیں کہ یہ کرنی ہیں۔ یہ تدابیر جو ہیں وہ ہمارے مذہبی علم، ہمارے مذہبی شعور کا حصہ ہیں۔ ہمیں کہیں یہ تعلیم نہیں دی گئی کہ ایک طرف لوگ علاج کر رہے ہوں تو تم بیٹھ کے اطمینان کے ساتھ کوئی منتر پڑھ لینا۔ ہمارے ہاں ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ ہوئی پہلی چیز۔

دوسری چیز یہ ہے کہ ہم بہرحال چونکہ اللہ کو مانتے ہیں اور اللہ تعالی کو ایک ایسی ہستی کے طور پر مانتے ہیں جو فلسفیوں کا ’محرک اول‘ نہیں ہے محض۔ ایک حی و قیوم، زندہ اور بیدار ہستی ہے۔ اس کو اونگھ نہیں آتی۔ وہ ہمارے ساتھ متعلق ہے۔ تو اس کے بارے میں بھی جس طرح ہمیں سورہ یوسف میں یہ بتایا گیا ہے کہ آنے والی چیز کے لئے بھی اس طرح تدبیریں کرو۔ یعنی منصوبہ بندی کرو۔ کیونکہ یہ دنیا اسی اصول پر بنائی گئی ہے۔ اسی طریقے سے یہ سبق بھی دیا گیا ہے کہ ایک ملاح کی کشتی کے معاملے میں بھی ہمارا پروردگار براہ راست دیکھ رہا ہوتا ہے کہ اس کو بچانا ہے یا کیا کرنا ہے۔

اس لیے دونوں چیزیں ضروری ہیں۔ ہم اپنے رب سے دعائیں بھی کرتے ہیں۔ عام حالات میں بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ زکام ہو جائے تو اس میں بھی کر رہے ہوتے ہیں، کھانسی ہو جائے تب بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن علاج کر کے کر رہے ہوتے ہیں یہی تعلیم ہمیں دی گئی ہے۔ یعنی پوری طرح ہم علاج کرتے ہیں۔

اس طرح کی بیماری آتی ہے، تکلیف آتی ہے اس کے بھی دونوں پہلو ہیں۔ یعنی ایک اس کا وہ سائنسی پہلو ہے کہ یہ کن اسباب سے آئی ہے۔ ان اسباب کو پیدا کرنے میں میرا اور آپ کا کیا دخل ہے۔ غلطی کہاں ہوئی ہے۔ اس بارے میں بھی ہمارا رویہ بالکل یہ ہوتا ہے کہ ہم اس غلطی کو تلاش کریں گے۔ اس کا ازالہ کرنے کی سعی کریں گے۔

لیکن دوسری جانب ہمیں یہ تعلیم بھی دی گئی ہے کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے اس مالک کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس کے اذن سے ہوتا ہے۔ تو اس لیے ہم اس کی بارگاہ میں بھی حاضر ہوں گے اس کے سامنے گڑگڑائیں گے۔ اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ کیوں ہونے دیتا ہے، یعنی وہ ہماری غلطیوں کے باوجود، کوتاہیوں کے باوجود اس پر قدرت رکھتا ہے کہ اس کو روک دے۔ وہ اس کائنات کا خالق ہے۔ لیکن اس نے ہمیں اپنی کتاب میں یہ تعلیم دی ہے کہ یہ میرے ’نُذر‘ ہوتے ہیں۔ یہ بات میں کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ عذاب کا دروازہ تو رسول اللہ صلی اللہ و علیہ وسلم کے بعد بند ہو گیا لیکن ’نذر‘ ، مطلب تنبیہات، یعنی موت کو جمع کر کے کبھی زلزلے سے، کبھی طوفان سے، خدا تنبیہ کرتا ہے۔ اور وہ ہمارے بس میں نہیں ہوتا۔

ان دونوں چیزوں کے حسین امتزاج سے ایک بندہ مومن کی شخصیت پیدا ہوتی ہے۔ اس شخصیت کو ہم نے اپنے ساتھ لے کر چلنا ہے۔ یعنی تدبیر، علم اور اس کا صحیح شعور۔ اس میں ہم نہ توہمات میں مبتلا ہوں گے نہ اس کا شکار ہوں گے۔ نہ ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ایک جانب علاج کرنے والا معالج ہے اور تم جا کے دعا کرنا شروع کر دو۔ نہیں ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ تم علاج کرو۔ علاج کو دریافت کرو۔ تمہیں بھی اسی طریقے سے انسانیت کی خدمت کے لئے اسی طرح سرگرم ہونا چاہیے جس طرح کہ ہونے کا حق ہے۔

لیکن دوسری طرف اپنی تمام تدبیروں کی کامیابی کے لئے اپنے رب کے سامنے دعا کرو۔ یہ جو تنبیہات ہیں یہ ہر پہلو سے ہیں۔ یہ ہمیں ہمارے گناہوں کی طرف بھی متوجہ کرتی ہیں۔ یہ خدا سے بیگانگی کے معاملے میں بھی ہمیں بیدار کرتی ہیں۔ اس وقت بھی اگر آپ غور کر کے دیکھیں تو اس وبا نے ہم مسلمانوں کو خدا یاد کرایا ہے۔ بلکہ باقی دنیا کو بھی کرایا ہے۔ یعنی باقی دنیا بھی اب دعائیں کرنے لگ گئی ہے۔ یاد کرایا ہے۔ یہ وہ تنبیہ کا پہلو ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے جو چیز ہوتی ہے اس کے اندر موجود ہوتا ہے۔ لیکن اللہ نے یہ دنیا بنائی ہی اس طریقے سے ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ خدا کی تنبیہ ہے اور ہم اطمینان کے ساتھ بیٹھ جائیں۔ ہمیں وہ سب کام کرنے ہیں جو اس سے بچاؤ کے ہیں۔ اگر وہ نہیں کریں گے تو اللہ کے قانون کے مطابق یہ تنبیہ پھر ایک بہت بڑی سزا بن جائے گی۔

اس لیے کہ دنیا میں ہمیں جو علم دیا گیا ہے عقل دی گئی ہے۔ اس کا استعمال نہ کرنا بھی بڑے برے نتائج کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ تو ہمارے دین کی تعلیم یہ ہے اور یہی ایک صحیح اور متوازن تعلیم ہے۔ باقی یہ کہ اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا اس اصول پر بنی ہے کہ اس میں بیٹھ کہ ایک طرف لوگ علاج کریں اور کسی مرض کی دوا تلاش کریں اور دوسری طرف کچھ لوگ منتر پڑھتے رہیں۔ یہ ہمارا عقیدہ نہیں ہے اور نہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ یہ دعائیں اور یہ تدبیریں اور یہ سب چیزیں یہ اپنی ذات میں مؤثر ہیں۔ ہمارا رب مؤثر کرے گا تو یہ مؤثر ہو جائیں گے۔ وہ مؤثر نہیں ہونے دے گا تو بڑی سے بڑی تدبیر بھی بے بسی میں چلی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments