پختون تحفظ موومنٹ


پی ٹی ایم یعنی پشتون تحفظ موومنٹ کا قیام مئی 2014 میں ہوا. جنوری 2018 ء میں کراچی میں پولیس مقابلے کے دوران نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد اس تحریک کو عروج ملا، پی ٹی ایم کے اہم کارکن منظور پشتین، محسن داوڑ اور علی وزیر شامل ہیں، اس موومنٹ کے مطالبات کے مطابق، لاپتہ افراد کی رہائی, سیکورٹی چوکیوں کا خاتمہ, تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی اور جو بھی اجتماعی ذمہ داری کے مراکز اور دیگر اسی طرح کے الزامات کے تحت گرفتار کیے جاتے ہیں۔

افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ کے سابق ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے دوران پریس کانفرنس کہا ہ پی ٹی ایم کے ساتھ ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ ان کے تین مطالبات ہیں۔ ترجمان پاک فوج نے کہا ’ان کا پہلا مطالبہ بارودی سرنگیں (مائنز) کا تھا، اس پر ہم نے کام بھی کیا اور 48 انجینئرز کی ٹیمیں تعینات کی جنھوں نے 45 فیصد علاقے کو مائنز سے کلیئر کر لیا ہے اور اس دوران فوج کے 101 جوان ہلاک ہوئے‘ ۔

انھوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کا دوسرا مطالبہ ’چیک پوسٹیں ختم کرنے کا تھا، اس پورے آپریشن کے دوران پاک فوج کے چھ ہزار جوانوں نے جانوں کا نذرانہ دیا، محسن داوڑ، منظور پشتین اور علی وزیر اس وقت کہاں تھے جب وہاں پر لوگوں کے گلے کاٹے جا رہے تھے؟ اب جب ڈیویلپمنٹ اور بحالی کا کام ہو رہا ہے تو تحفظ کی بات آ گئی، میجر جنرل آصف غفور نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ پی ٹی ایم کس کی آلہ کار ہے، اس پریس کانفرنس میں انہیں نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹس پر بننے ریاست مخالف اکاونٹس بھی دکھائے تھے اور یہ بھی کہا تھا کہ ہم یہ بھی جانتے ہیں ان کب کون اور کہاں سے آپریٹ کرتا ہے۔ بعد ازاں پی ٹی ایم کے اراکین نے اس پریس کانفرنس کا ردعمل جی ایچ کیو دہشتگردوں کا گڑھ ہے کہہ کر دیا پی ٹی ایم کا ایک اور کارکن علی وزیر پاک فوج اور عوام کے تصادم کی بات کرتا ہے یہ ناپاک ذہن فوج کو مارنے اور گھسیٹنے کا خواہشمند ہے اسی سوچ کے تحت یہ معصوم ذہنوں کو چیک پوسٹ پر حملہ کرنے کے لئے اکساتا ہے، کبھی کہتا ہے کہ فوج ہمارے علاقے سے چلی جائے ورنہ ہم ان سے نبٹ لیں گے، اس کے ساتھ پاک افغان سرحد پر لگائی جانے والی باڑ کے خلاف باتیں کی جاتی ہیں، ان کی اسی سفاک سوچ نے دو پاکستانی فوجی جوانوں کی جان تک لے لی۔

پی ٹی ایم کی قیادت اور چند کارکنان چاہتے ہیں کہ ملک میں انتشار رہے تاکہ اور وہ اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب ہوتے رہیں اور اپنے بیرونی آقاؤں سے فنڈ اور داد وصول کرتے رہیں۔ کیا حسن اتفاق ہے کہ افواج پاکستان پر انتخابات میں انجئیرنگ کا الزام عائد کرنے والے متعدد مرتبہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین رہے ہیں ماضی میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی بھی افواج پاکستان کے خلاف تنقید کر کے بھی طویل عرصے تک قومی اسمبلی میں برا جمان رہے ہیں، اسی طرح آج کل علی وزیر اور محسن داوڑ پاکستان کی نیشنل اسمبلی میں ریاست اور افواج کے خلاف تقریر کرکے اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

2018 میں پشتون تحفظ موومنٹ کے محسن داوڑ نے قبائلی شمالی ضلع وزیرستان کے حلقے این اے 48 سے بطور آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لیا اور جیت سے ہمکنار ہوئے، انہوں نے انتخابات سے ایک روز قبل اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر لکھا تھا کہ انتخابی مہم کے شروع دن سے اب تک ’ملٹری اسٹیبلشمنٹ‘ اور ’سکیورٹی فورسز‘ نے اپنی بھرپور کوشش کی تاکہ ان کے حامیوں کو روک سکیں ایک دوسری ٹوئٹ میں انھوں نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ اگر دھاندلی کی گئی تو ریاست ماضی کے دھرنے بھول جائے گی۔ یہ بھی کیا مضحکہ خیز بات ہے، ایک جگہ فوج پر انتخابی انجئیرنگ کا الزام عائد کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب اسی ایوانوں کا حصہ بھی بننے ہوتے ہیں،

اسی تناظر میں، میں کہنا چاہونگی کہ دراصل پی ٹی ایم پشتون تحفظ موومنٹ نہیں بلکہ پشتون تضحیک موومنٹ ہے کیونکہ پشتون غیور قوم ہے اور محمود خان اچکزی سمیت منظور پشتین، علی وزیر اور محسن داوڑ جیسی سوچ کے اقدامات مفاد پرستی کی تو عکاسی کرتے ہیں، مگر غیوری کی مثال قائم نہیں کرتے، دوسری جانب ہم پاکستان افواج، پولیس سمیت دیگر سیکیورٹی اداروں میں اپنے پٹھان اور پشتین بھائیوں کی بہادری کے مداح ہیں۔

محسن داوڑ سرحد پار ایجنسوں کو دعوت دے چکا ہے کہ پاکستان پر حملہ کردیں، وہ ریاست اور افواج پاکستان مخالف ہزیان بھی بکتا رہتا ہے جبکہ خود پاکستان کے ایوان کا نمائندہ ہے، علی وزیر قومی پرچم کی بے حرمتی کر چکا ہے جبکہ وہ پاکستان کے ایوان میں براجمان بھی ہے۔

 آپ کو یاد ہوگا گذشتہ سال پشاور پولیس سے منسلک ایس پی محمد طاہر داوڑ کو 26 اکتوبر کو اسلام آباد سے مبینہ طور پر اغوا کیا گیا تھا جس کے بعد 13 نومبر کو افغانستان کے صوبہ ننگرہار سے ان کی لاش ملی تھی۔ اس موقعے پر افغان حکام نے اس بات کی بھی تصدیق کی تھی کہ طاہر داوڑ کو قتل کرنے سے قبل تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ واضح رہے کہ طاہر داوڑ کی میت لینے کے لیے طورخم سرحد پر سرکاری حکام کے ساتھ سابق وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی اور ایم این اے محسن داوڑ موجود تھے۔ تاہم افغان حکام نے پاکستانی حکام کو طاہر داوڑ کی میت دینے سے انکار کردیا تھا، باوثوق ذرائع کے مطابق وہ لاش محسن داوڑ کو دینا چاہتے تھے۔ افغان حکام کی خواہش کے مطابق محسن داوڑ اور ان کے بھائی سمیت قبائلی عمائدین کی ٹیم نے میت وصول کی۔

خیال رہے، منظور پشتین اور محسن داوڑ کی گرفتاری پر افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’انہیں امید ہے کہ پی ٹی ایم کے سربراہ کی جلد رہائی ہو گی‘ اور یہ کہ ’خطے کی حکومتوں کو لازمی طور پر پرامن شہری تحریکوں کی حمایت اور ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ ‘

وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر پی ٹی ایم رہنما علی وزیر اور محسن داوڑ کے نام ای سی ایل سے نکال کر انہیں افغانستان جانے کی اجازت دی گی کیونکہ انہیں اشرف غنی کی تقریب حلف میں شرکت کرنا تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ محسن داوڑ اور علی وزیر کو افغانستان میں غیر معمولی پروٹوکول ملا جبکہ افغان صدر کی تقریب حلف برداری میں دونوں کا شدت سے انتظار کیا گیا، پی ٹی ایم رہنماؤں کی وجہ سے افغان صدر کی تقریب حلف برداری تاخیر کا شکار بھی ہوئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ این ڈی ایس ودیگر افغان ایجنسیوں نے محسن داوڑ اور علی وزیر کو خصوصی پروٹوکول دیا۔

محسن داوڑ اور علی وزیر کی این ڈی ایس کے سابق سربراہ امر اللہ صالح سے بھی ملاقات ہوئی، دونوں ارکان اسمبلی کی پاکستان کے بدترین دشمن سے خوشگوار ماحول میں گفتگو ہوئی۔ پی ٹی ایم کے آزاد امیدوار کی تصویر باوردی افغان فوجی افسر کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، غالبا یہ وہ وردی ہے جس کی وجہ سے دہشت گردی ہے۔ ریاست نے بہت ماں جیسا کردار نبھا لیا اب اس نظام کی دیمک کا خاتمہ بہت ضروری ہے بالکل ایسا خاتمہ جس کی عکاسی شہر جناح پیش کرتا ہے، پی ٹی ایم جیسی رعونت تو اس شخص کے لہجے میں بھی تھی جیسے لوگ پیر صاحب کہتے تھے اس کی آواز پر سانس روک لیتے تھے آج قائداعظم کے شہر میں اس جعلی قائد کی تصویر تک نظر نہیں آتی جبکہ در فرعون پر تالہ بھی لگا ہوا ہے، انشاء اللہ بہت جلد ہم ہر پاکستان دشمن کا ایسا ہی بھیانک انجام دیکھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments