خشونت سنگھ کی پاکستان سے انڈیا اور پھر پاکستان واپسی کی داستان


خشونت سنگھ

خشونت سنگھ نے 1986 میں اپنے آبائی گاؤں ہڈالی کا دورہ کیا

ہڈالی پاکستان کے ضلع خوشاب کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ یہ انڈیا کے معروف صحافی، مصنف اور کالم نگار خشونت سنگھ کی جنم بھومی ہے۔ ان کی تاریخ پیدائش دو فروری سنہ 1915 بنتی ہے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم بھی اسی گاؤں کے سرکاری ہائی سکول سے حاصل کی اور اس کے بعد انڈیا کی تقسیم ہوئی تو خشونت سنگھ انڈیا چلے گئے مگر ان کی ٹرین کا رخ ہمیشہ پاکستان کی طرف ہی رہا۔

اس گاؤں میں ریل کی پرانی پٹڑی پر تو اب ٹرینوں کی آمدورفت کا نظام معطل ہے مگر خشونت سنگھ کے مرنے کے بعد ان کی ٹرین کہیں نہ کہیں سے راستے بناتے انھیں ہڈالی تک واپس لے آئی۔

اگر آج بھی آپ نے خشونت سنگھ سے ملنا ہو تو پھر آپ کو ہڈالی کے گورنمنٹ بوائز ہائی سکول جانا ہو گا، جہاں وہ کبھی طالب علم تھے۔

خشونت سنگھ

ہڈالی گاؤں کا وہ سرکاری سکول جہاں سے خشونت سنگھ نے ابتدائی تعلیم حاصل کی

سکول کی دیوار پر ان کی یاد میں ایک تختی نصب ہے۔ یہ سیمنٹ کے مصالحے میں ان کی راکھ ملا کر نصب کی گئی ہے۔ یوں درجنوں کتابوں کے مصنف خشونت سنگھ کی روح اب بھی کہیں ادھر سے ہی تعلیم کی پیاس بجھا رہی ہے۔

سکول کی دیوار پر نصب اس تختی پر ان کا تعارف انگریزی کے تین الفاظ میں درج ہے: ایک سکھ، ایک سکالر، فرزند ہڈالی۔

دلی سے انھوں نے واپس گورنمنٹ کالج لاہور کا رخ کیا تھا۔

برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی اور انر ٹیمپل میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد انھوں نے واپس لاہور جا کر ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی۔ تقسیم کے بعد وہ اپنے خاندان سمیت نئی دلی میں بس گئے۔ انڈیا جانے کے بعد وہ صحافی اور سفارتکار بھی بنے مگر ان کی شہرت ایک لکھاری اور مصنف کے طور پر نمایاں رہی۔

خشونت سنگھ نے 30 سے زیادہ ناولوں کے علاوہ درجنوں افسانے اور مضامین سمیت 80 سے زیادہ کتابیں تحریر کیں۔

خشونت سنگھ کی وصیت کے مطابق ان کے مرنے کے بعد ان کی راکھ پاکستان لائی گئی۔

اسد علی بھٹی

جس کپڑے میں دلی سے وہ راکھ لائی گئی، وہ ابھی ان کے دوست اسد علی بھٹی کے پاس نشانی کے طور پر محفوظ ہے

اسد علی بھٹی اور خشونت سنگھ میں 10 سے 15 خطوط کے تبادلے کے علاوہ بالمشافہ ملاقات اور فون پر بھی رابطہ رہتا تھا۔

آئیے اسد علی بھٹی سے مل کر جانتے ہیں کہ خشونت سنگھ مرنے کے بعد پاکستان کیسے آگئے اور وہ اپنے آبائی گاؤں سے متعلق کیا خیالات رکھتے تھے۔

ہڈالی گاؤں سے تعلق رکھنے والے اسد علی بھٹی مقامی شاعر اور ریٹائرڈ فوجی ہیں، جنھوں نے خشونت سنگھ کے نام اپنا پہلا خط سنہ 1992 میں لکھا۔

بھٹی کے پاس بھی خشونت سنگھ کے گھر کا پتہ موجود نہیں تھا تو انھوں نے لفافے پر لکھ دیا کہ، ’خشونت سنگھ، نئی دہلی، بھارت‘۔ اسد علی بھٹی کی توقع کے برعکس یہ خط نہ صرف خشونت سنگھ تک پہنچ گیا بلکہ انھوں نے ایک مہینے کے اندر اس کا جواب بھی دے ڈالا۔

یہیں سے دونوں کی دوستی گہری ہوتی چلی گئی۔

سکول

ہڈالی سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے والے خشونت سنگھ السٹریٹڈ ویکلی اور ہندوستان ٹائمز سمیت کئی جریدوں اور اخباروں کے ایڈیٹر رہے لیکن انھوں نے اپنے کریئر کا آغاز لاہور ہائی کورٹ میں ایک وکیل کی حیثیت سے کیا تھا

’خشونت سنگھ رو پڑے اور خاموش ہو گئے‘

اسد علی بھٹی کے مطابق خشونت سنگھ کی اپنی آبائی گاؤں سے گہری محبت کا اندازہ ان کے 1986 کے دورے سے لگایا جا سکتا ہے جب انھوں نے گاؤں کے سکول کے سامنے کھڑے ہو کر اشارہ کیا کہ یہ وہ سکول ہے جہاں میں نے پڑھا، اس کے بعد وہ بات نہ کرسکے، ان کے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے اور وہ خاموش ہو گئے۔

اسد علی بھٹی ڈیوٹی پر ہونے کی وجہ سے خود خشونت سنگھ سے براہ راست نہ مل سکے۔

ان کا کہنا ہے کہ خشونت سنگھ سے ان کا رابطہ ان کے مشہور ناول Train To Pakistan کے ذریعے ہوا۔ ’وہ انگریزی میں لکھتے اور ہم اردو پڑھنے والے تھے۔ میں نے ان کے اس ناول کا اردو ترجمہ پڑھا اور اور بھی ان کی تحریروں کے کئی تراجم پڑھے۔‘

اسد علی بھٹی کے مطابق خشونت سنگھ مجھے پسند تو تھے لیکن یہ پتا نہیں تھا کہ وہ کہاں کے رہنے والے ہیں۔

خشونت سنگھ سے ان کے اس غائبانہ لگاؤ کی بڑی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ وہ خود ادب سے لگاؤ رکھتے ہیں اور اردو اور پنجابی میں مختلف رسائل میں لکھتے رہتے ہیں۔

خشونت سنگھ

خشونت سنگھ کا اسد علی بھٹی کو لکھے گئے خط کا عکس

اس زمانے میں خط و کتابت رابطے کا اہم ذریعہ تھا اور اس کی ایک اپنی اہمیت بھی تھی۔ انھوں نے جو خط بغیر کسی خاص مقصد کے خشونت سنگھ کو لکھا، خشونت سنگھ نے اس کا جواب بھی دے ڈالا۔

مقامی پنجابی شاعر کو اب صرف ایک مسئلہ درپیش تھا۔ خشونت سنگھ 50 سال تک اردو نہ لکھنے کی وجہ سے خط کا جواب انگریزی میں دیتے تھے۔ تاہم اسد علی بھٹی نے اس کا حل بھی نکال ہی لیا۔

اسد علی بھٹی انگریزی نہ سمجھنے کی وجہ سے اپنے یار دوستوں کو چائے پر مدعو کرتے اور گپ شپ کے علاوہ ان سے خشونت سنگھ کے خطوط کا ترجمہ کرواتے۔

بھٹی اردو میں لکھتے اور خشونت سنگھ انگریزی میں جواب دیتے۔ بھٹی کے اردو میں خط نہ لکھنے کے سوال پر خشونت سنگھ نے لکھا کہ انھوں نے تقریباً پچھلے 50 سال سے اردو نہیں لکھی اور اب وہ صرف انگریزی ہی لکھتے ہیں۔

سنہ 2003 میں اسد علی بھٹی ایک پنجابی کانفرنس کے لیے انڈیا کے شہر چندی گڑھ گئے اور وہاں کے منتظمین سے کہا کہ وہ خشونت سنگھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ تو انھوں نے کہا کہ آپ کا ویزہ تو دلی کا نہیں ہے اور ویزہ پابندی کی وجہ سے آپ وہاں نہیں جاسکتے، تاہم خشونت سنگھ سے فون پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

اسد علی بھٹی

او بھٹی، تو کہاں آ گیا!

اسد علی بھٹی بتاتے ہیں کہ ’جب فون پر رابطہ ہوا تو میں نے کہا ’جی السلام علیکم!‘ مجھے خیال نہیں رہا کہ دوسری طرف سردار صاحب ہیں تو انھوں نے کہا ’وعلیکم السلام‘ میں نے کہا کہ جی میں اسد علی بھٹی بول رہا ہوں، یہاں ہندوستان آیا تھا اور آپ سے ملنے کا خواہش مند ہوں۔ انھوں نے کہا ’او بھٹی! تو کہاں آگیا‘ اتنا کہہ کر انھوں نے فون رکھ دیا اور میں ہیلو ہیلو ہی کرتا رہ گیا‘۔

اسد علی بھٹی خشونت سنگھ کے فون کاٹنے پر بہت مایوس اور افسردہ ہوئے۔ جن منتظمین نے بھٹی کی کال ملوائی تھی ان کے سامنے بھی شرمندگی ہوئی کیونکہ بھٹی نے منتظمین کو کہا تھا کہ خشونت سنگھ سے ان کی جان پہچان ہے۔

’مجھے افسوس ہوا، غصہ بھی تھا۔ پورا دن اسی طرح گزرا لیکن عصر کے وقت اچانک سے شور مچا کہ خشونت سنگھ آگیا۔۔۔خشونت سنگھ آگیا۔۔۔وہ آیا ملا اور کہا ’او بھٹی تو‘ میں نے کہا ’جی‘ وہ مجھ سے بغل گیر ہوئے، مجھے میرے گردن پر چوما اور رونے لگے۔

انھوں نے کہا کہ ’بھٹی میں نے فون اس لیے کاٹ دیا تھا کہ مجھ سے بات ہو ہی نہیں سکی تھی، میں نے سوچا کہ میرے وطن کا آدمی آیا ہوا ہے تو میں خود اس سے ملنے جاؤں‘۔

اسد علی بھٹی کے مطابق وہ اس وقت دلی کے بجائے شملہ میں تھے اور وہاں سے مجھ سے ملنے کے لیے آئے تھے۔

ہائے ہڈالی۔۔وہ آبائی گاؤں کی یادیں کریدتے رہے

وہ مجھ سے تین چار گھنٹے تک باتیں کرتے رہے۔ اس ملاقات میں وہ ہڈالی سے متعلق اپنی یادیں کریدتے رہے۔

ہڈالی

ہڈالی کا ریلوے سٹیشن جو اب بند پڑا ہے

’میرا شہر کیسا ہے۔۔۔وہ درخت کیسے ہیں؟ وہ چنا ایسے ہی ہوتا ہے؟ وہ ریلوے لائن ایسے ہی ہے، وہ ریل چلتی ہے یا نہیں؟ میں نے کہا نہیں جی وہ تو بند ہوگئی ہے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کہتے ہائے ہڈالی۔۔ ہڈالی یار بہت اچھا شہر تھا۔۔

انھوں نے اپنا ٹیلیفون نمبر دیا تھا اور پھر کبھی کبھار فون پر بات ہوتی۔ یوں پھر خط و کتابت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔

ریل کی پٹری اور ہڈالی کی تاریخی گلیوں سے ہوتے ہوئے اسد علی بھٹی ایک خالی پلاٹ کے سامنے رک گئے۔ انھوں نے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے اشارہ کیا کہ یہ خشونت سنگھ کا آبائی گھر ہے۔ جو اب غیر آباد ہو چکا ہے۔ اس میں یہ اینٹیں وغیرہ پڑی ہیں، یہ پرانی بیری ہے، جب خشونت سنگھ آئے تھے تو اس بیری کے پتے اٹھا کر لے گئے تھے، یہ ان کے زمانے کی لگی ہوئی ہے۔

ہڈالی

اسد علی بھٹی نے اپنے سمارٹ فون سے خشونت سنگھ کے آبائی گھر کے اس کمرے کی تصویر بھی دکھائی جہاں وہ پیدا ہوئے تھے

یہی وہی گھر ہے جس کے بارے میں اسد علی بھٹی نے خشونت سنگھ کو تصویر بھیجی تھی کہ یہاں اب ان کے نام کی تختی نصب ہے۔ خشونت سنگھ نے اس بارے میں اپنے ایک خط میں یوں اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا:

’پیارے بھٹی بھائی! آداب! میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ وہ حویلی جس میں، میں 90 سال پہلے پیدا ہوا اس کے باہر اپنے نام کی تختی دیکھ کر مجھے کس قدر خوشی ہوئی۔ یہ جان کر کہ میرے گاؤں والوں نے مجھ سے اس قدر محبت کا اظہار کیا ہے، میری آنکھیں خوشی سے نم ہیں۔ اب میں بخوشی اس دنیا سے رخصت ہو سکتا ہوں اور میری خواہش کہ میں ہڈالی کے قبرستان میں دفنایا جاؤں۔ میں نے یہ تصاویر اپنے بھائیوں، بیٹے، بیٹی اور نواسی کو بھی دکھائیں اور ان سب لوگوں کو بھی جو مجھ سے ملنے آئے۔‘

آبائی گھر خشونت سنگھ

ہڈالی میں خشونت سنگھ کا آبائی گھر جو اب غیر آباد پڑا ہے

خشونت سنگھ نے اسد علی بھٹی سے ہونے والی چندی گڑھ کی ملاقات اور اپنے خطوط میں ہڈالی میں دفن ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

20 مارچ 2014 کو خشونت سنگھ نے 99 سال کی عمر میں وفات پائی۔ ان کے مرنے کے بعد ان کی وصیت کے مطابق ان کی راکھ پاکستان میں ان کے آبائی گاؤں ہڈالی لائی گئی۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ خشونت سنگھ کے آنکھیں بند کرتے ہی ان کے آبائی گھر کے سامنے سے یہ تختی غائب کر دی گئی ہے مگر ان کی روح کہیں اب بھی دلی سے دور ہڈالی کے گلی کوچوں میں ہی گھوم پھر رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32536 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp