تالی بھی کپتان کو اور گالی بھی کپتان کو


چین کے شہر ووہان میں حکومت اور عوام کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا بدلتے موسم میں اب کی بارکا فلو دراصل ایسی عفریت ہے جو دنیا کو ایک عالمی جنگ کی صورت حال سے دوچار کرنے والا ہے۔ پہلے دیکھا نہ سنا، نہ تجربہ نہ صلاحیت اس نئی افتاد کو سمجھنے تک بہت سارا پانی بلوں کے نیچے سے گزر چکا تھا۔

چین میں جب تک یہ معلوم ہوا کہ فلو کی شکل میں انسانوں پر حملہ آور ہونے والا کرونا وائرس ہے تب تک آبادی کا ایک بڑا حصہ اس وبا میں مبتلا ہوچکا تھا۔ جنگل میں لگی آگ کی مانند چاروں طرف پھیلتے وائرس کو قابو میں لانے کا کام چین کی حکومت کے لئے انقلاب کے بعد سب سے بڑا چیلنج تھا۔ جس ڈاکٹر نے اس وائرس کو ڈھونڈ نکالا تھا اس کی موت واقع ہو چکی تھی ہسپتالوں میں طبی عملہ خوف کا شکار تھا جن میں سے بیشتر اس وبا کا خود شکار ہوئے تھے یا ان کی موت ہو چکی تھی۔ تیزی سے اس وبا کا شکار ہوتی دو ارب کی آبادی کو بچانے کے لئے روایتی صحت کی ناکافی سہولیات اورخوف زدہ طبی عملہ کے سوا ہاتھ میں کچھ نہیں تھا۔

چین نے حفظان صحت کے آزمودہ طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے پہلے سے متاثر مریضوں کا علاج اور نئے لوگوں کو اس وائرس سے بچاؤ اور تدارک دونوں پہلؤں پر کام کیا۔ اس وائرس کا تیزی سے ایک سے دوسرے شخص خاص طور پر مریضوں سے صحت مند لوگوں کو منتقلی ہسپتالوں اور دیگر طبی عملہ اور رضا کاروں کے لئے خوفناک تھا جس کی وجہ سے اس شعبے میں کام کرنے والے لوگوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ان کی سلامتی کے لئے بہتر سہولیات کی فراہمی لازمی تھی۔ چین کے حکام جانتے تھے کہ اس نئی جنگ میں اگلے مورچوں پر لڑنے والا طبی عملہ ہی ہے۔ طبی عملہ نے اس دوران اپنی بے مثال جرات، بہادری، جانفشانی اور پیشہ ورانہ اہلیت کا مظاہرہ کیا جس کے بغیر اس وبا پر قابو پانا کسی بھی طاقتور سے طاقتور ملک یا فوج کی بس کی بات نہیں۔

دوسری طرف حکومت کو بھی اس وبا کے ایک سے دوسرے شخص، ایک سے دوسرے شہر اور ملک تک پھیلاؤ کو روکنے کے لئے چند انتہائی غیر مقبول فیصلے کرنے پڑے۔

1۔ انفرادی سطح پر لوگوں کو احتیاطی تدابیر پر عمل دراآمد کرتے ہوئے لوگوں کو ایک دوسرے سے دور رکھا گیا اور عمداً ایک دوسرے سے ملنے، قریب آنے، ہاتھ ملانے اور گلے ملنے پر سختی سے پابندی لگادی گئی۔

2۔ مقامی طور پر لاک ڈاؤن کرکے لوگوں کو اپنے گھروں تک محدود کر دیا گیا شہر، مارکیٹیں اور دیگر لوگوں کے ملنے جلنے کی جگہیں فوری طور پر بند کر دی گئیں۔

3۔ ملکی سطح پر لاک ڈاؤن کرکے شہروں کے درمیان آمد و رفت بند کردی گئی تاکہ نئے لوگ، شہر اور ملک اس کی لپیٹ میں نہ آئیں۔

لاک ڈاؤن اتنی مدت تک کر دیا گیا جس میں کسی بھی انسانی جسم میں پوشیدہ وائرس کا ظہورہوجاتا ہے یا متاثرہ مریض اس دوران ٹھیک ہوسکتا ہے۔ لوگوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنے سے یہ وائرس ایک سے دوسری جگہ منتقل بھی نہیں ہو سکتا ہے اور اس دورران بغیر افزائش کے کھلی جگہوں پر پایا جانے والا وائرس بھی ختم ہوجاتا ہے۔

چین میں لاک ڈاؤن کی حکمت عملی آسانی سے اس لئے بھی کامیاب ہوئی کہ وہاں ایک طرف حکومت کی گرفت مضبوط ہے اور دوسری طرف چینی فطرتاً حکومت کی بات ماننے والے لوگ ہیں۔ اس لاک ڈاؤن کا نتیجہ چین میں جیسا سوچا گیا تھا ویسا ہی آیا کیونکہ اس دوران حکومت نے تمام متاثرہ افراد کی نشاندہی کرکے ان کو علیحیدہ کردیا اور جو متاثر نہیں تھے ان کی نقل و حرکت مسدود کرکے خود ان کو اور ان کے ذریعے دوسرے لوگوں تک وائرس پہنچنے سے بچایا۔ مگر اس کے باوجود یہ کہنا مشکل ہے کہ چین ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوچکا ہے۔ کسی بھی وقت کہیں سے بھی کرونا وائرس کی چنگاری بھڑک کر شعلہ بن سکتی ہے۔

جب چین انسانوں کے جنگل میں پھیلی کرونا کی نظر نہ آنے والی آگ کو بجھانے کی کوشش کر رہا تھا تو امریکہ اور یورپ میں چینیوں کا مذاق اڑایا جارہا تھا۔ کسی نے چین میں پھیلی وبا کو ان کے کرموں کا نتیجہ کہا تو کسی نے چمگادڑ کا سوپ پینا اس کی وجہ قرار دیا۔ امریکہ اور یورپ میں ایسا تاثر تھا کہ کرونا وائرس کو کمیونسٹ چین سے کوئی مسئلہ ہے یا چین کی حکومت ایسی نا اہل ہے جو اس کا تدارک نہیں کرسکتی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ اول تو یہ وائرس سرمایہ دارانہ یورپ اور امریکہ کا رخ نہیں کرے گا اگر آ بھی گیا تو کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہوگا جیسا چین میں ہوا ہے لہذا پارٹی جاری رکھی جائے، چیئرز۔

چین کے بعد زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں اٹلی اور ایران ہیں جن کی اس وائرس کو قابو میں لانے کی کوئی حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے حالات بد تر ہوگئے۔ جو کام پہلے کچھ لوگوں کو علیحدہ کرکے کیا جا سکتا تھا بات شہروں تک پہنچ گئی اور اب پورا ملک اس کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ معیشت کو ناقابل تلافی نقصان سے تمام دینا کو شدید خطرات ہیں جس کی وجہ سے عالمی کساد بازاری کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔

پاکستان میں یہ وائرس چین کے راستے نہیں آیا تو اس میں حکومت پاکستان سے زیادہ چین کی حکومت کا کمال ہے جس نے وہاں موجود تمام لوگوں کو بہتر حفظان صحت کے ساتھ علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی۔ پاکستان کے پاس اس وائرس کے علاج اور تدارک کا نہ تجربہ تھا نہ سہولیات موجود تھیں لہذا ووہان میں رہنے وانے والے طلبہ اور دیگر لوگوں کو وہیں پر رہنے دیا گیا۔ وقتی طور پر حکومت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا مگر اب حالات نے یہ ثابت کیا کہ چین سے لوگوں کو نہ لانا ایک مستحسن فیصلہ تھا۔

پاکستان میں ایران سے آنے والے زائرین کو پندرہ دنوں کے لئے علیحدہ کرکے وائرس کی سکریننگ اور ٹسٹ کرنے لئے تافتان میں حکومت بلوچستان نے وفاقی حکومت کے تعاؤن سے ایک کیمپ بنایا۔ اس کیمپ میں غیر تربیت یافتہ طبی عملہ، سہولیات کی عدم فراہمی، زائرین کے عدم تعاؤن سے مطلوبہ نتائج نہیں آسکے۔ جس وائرس کا پھیلاؤ مقصود تھا وہ اور زیادہ پھیل گیا۔ جن لوگوں کو علیحدہ کرکے ان میں وائرس کی تشخیص کرنی تھی وہ لوگ کیمپوں سے نکل کر آبادیوں میں گھل مل گئے۔

جب حکومت ایران سے براہ تافتان پاکستان آنے والے زائرین کو کیمپوں میں رکھ کر بد انتظامی سے کرونا وائرس کو مزید پھیلانے کا سبب بن رہی تھی اس دوران ملک کے تمام ائیر پورٹ، سمندری اور زمینی راستے کھلے ہوئے تھے۔ سعودی عرب، عرب امارات، یورپ اور مشرق بعید سے آنے والے مسافروں کی سکریننگ نہ ہونے کی وجہ سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس دوران کتنے لوگ کہاں سے آئے اور کہاں چلے گئے۔ اب اس وائرس سے متاثر لوگوں کی اموات کی اطلاعات یہ ثابت کرتی ہیں کہ اس کا پھیلاؤ ہماری توقعات سے زیادہ ہو چکا ہے۔

چین، یورپ اور امریکہ میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ، تدارک اور علاج کا تجربہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اس وائرس کا حملہ انسان پر انسانوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس کا تدارک بھی انسانوں کی نقل و حرکت کو مسدود کرکے ہی ممکن ہے اور اس کا علاج بھی مریض کو الگ کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔ انسانوں کی نقل و حرکت کو مسدود کرنا رضاکارانہ طور پر ممکن نہیں اس کے لئے ریاست کو سختی کرنی ہوتی ہے۔ یورپ جہاں آزادی ہی معاشرت کی بنیاد ہے وہاں اٹلی میں بھی لوگوں کے بلا وجہ گھومنے پھرنے، ہاتھ ملانے، گلے ملنے پر تین مہینے کی جیل کا قانون لاگو ہوچکا ہے۔

ہماری حکومتوں کو بھی لوگوں کی نقل و حرکت کو مسدود کرنا پڑے گا اور اس میں جتنی دیر لگے گی نقصان بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ حکومت اس تذبذب کا شکار ہے کہ لوگوں کی نقل و حرکت کو مسدود کرنے کے لئے لاک ڈاؤن سے غیر مقبول ہوجائے گی اور نہ کرنے سے چاروں طرف پھیلتی آگ کو قابو میں لانا ممکن نہیں۔ دیر ہوجائے تو ہاتھوں سے لگائی گرہیں دانتوں سے ہی کھلتی ہیں۔ کھیل کے میدان کی طرح سیاست کے میدان کار زار میں بھی تالی بھی کپتان کواورگالی بھی کپتان کو ہی ملتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے کپتان کو آنے والے وقتوں میں گالی ملتی ہے یا تالی۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments