پاکستان ایک یرغمال ریاست ہے؟


یرغمال کا کیا مطلب ہے؟ کسی کواپنے اشارے پر چلانا، اپنے طور طریقے پر چلانا، نہ کہ اس کے راستے پر خود چلنا۔ ایسی ریاست جسے چند لوگ آسانی سے بلیک میل کر لیں، ایسی ریاست جو چند لوگوں کے دباؤ میں آ کر اپنے کام کو ان کے لوگوں کے مطابق ڈھال لے جو غلط اور ناجائز مطالبات منوانے پر یقین رکھتے ہوں۔ ایک حاکم اور اس کے اداروں کا چند لوگوں کے آگے گھٹنے ٹیک دینا، یہ ہے یرغمال ریاست۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان ایک آزاد ریاست ہے یا یر غمال ریاست؟

پاکستان وہ ملک ہے جہاں آزادی سب کو سب کچھ کرنے کی ہے، اگر نہیں ہے کسی کو کچھ آزادی سے کرنے کی، تو وہ حکمران کو نہیں ہے، اداروں کو نہیں ہے۔ کیونکہ یہا ں اگر ایک حکمران یا ادارہ کسی با اثر سے اس کے آمد ن سے زائد آثاثوں کا پوچھ لے، تو سمجھو اس کی آزادی چھین لی گئی، اس کے ساتھ انتقامی کارروائی برتی جا رہی ہے، اس سے کسی بات کا بدلہ لیا جا ریا ہے، اس کو بد نام کیا جا رہا ہے، اس کا حق چھینا جا رہا ہے، کچھ لوگوں کے بقول, ایک جج سے ان کی آمدن سے زائد آثاثے پوچھ لیں، اس کی عد لیہ خطرے میں پڑ جاتی ہے، کسی صحا فی سے یا ان کے میڈیا مالک سے ان کے نا جائز آمد ن کے ذرائع پو چھ لیں، تو ان کے نزدیک آزادی اظہار رائے خطرے میں پڑ جائے گی، کسی سیاست دان سے اس کے آمدن سے زائد آثاثون کا پوچھیں گے تو اس کی جمہوریت خطرے میں پڑ جائے گی، پاکستان ایسی ریاست ہے جہاں آمدن سے زائد آثاثوں کا پوچھنا، کسی بڑے انسان کو ہتھکڑی لگنا، کسی بڑے انسان کی تصویر لیک ہونا تذلیل میں شمار ہوتا ہے، لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں تذلیل کا معیار یہ نہیں ہے کہ اس ملک کے حکمران پر باہر کے ملک کے صحافی نے زلزلہ زد گان کی امداد کھانے کا الزام لگایا، اس ملک کے ایک طبقے کے لیے یہ تذلیل کا مقام نہیں ہے کہ باہر کے ملک کے ایک اخبار نے اس کے حکمران کے بارے میں کہا ”مسٹر ٹین پر سینٹ سے ہاتھ ملانے کے بعد اپنی انگلیاں گن لیں، اس قوم کے ایک طبقے کے لیے یہ تذلیل کا مقام نہیں ہے کہ ان کے ایک حکمران کو باہر کے ملک کے اخبار نے پینٹ ہاؤس پائریٹ کہا ہے، جس ملک کے پڑھے لکھے طبقے کے نزدیک عزت اور ذ لت کا معیار یہ ہو، اس ملک کے ترقی کرنے کی خواہش تو کسی کو بھی نہہں کرنی چاہیے۔

سوال یہ ہے کیا ترقی یا فتہ ممالک میں بھی عزت اور ذ لت کا یہی معیار ہے جو ہمارے ہاں ہے؟ کیا باہر کے ملک میں بھی سنگین الزامات لگے با اثر لوگوں کے لیے ان کا ایک ادارہ ان کی آواز بن کر ان کے ساتھ مل کر وہاں کے حکمران کو آمد ن سے زائد اثا ثے پو چھنے پر ظالم، فاشسٹ کہتے ہیں، کیا وہاں کے اداروں کو ایسے سنگین الزامات لگے لوگوں کو لائم لائٹ میں رکھنے کی اجازت ہے؟

کیا کسی تر قی یا فتہ ملک میں بھی حکمران اور اداروں کی ایسے ہی تذلیل ہوتی ہے جیسے ہمارے ہاں سر عام با اثر لوگ احتساب کے ادارے کو ٹارگٹ کرتے ہیں؟ اس ادارے کو بند کرنے کا کہتے ہیں؟ کیا اسلام میں احتساب کا عمل گناہ ہے؟ احتساب کا عمل ظلم و ستم کا نشان ہے؟ کیا اسلام میں قوم کا حق مارنا یا کھانا حلال ہے؟ کیا اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کسی با اثر انسان کو ہتھکڑی نہیں لگنی چاہیے؟ اس کی تصویر وائرل ہونے پر سخت گناہ ہو گا؟ کیا اسلام یہ کہتا ہے کہ با اثر لوگ کسی کی بھی یکطرفہ تذلیل کرتے رہیں، لیکن کسی دوسرے کو اپنی صفائی پیش کرنے کا کوئی حق نہیں؟

خود مختار ریاست، ایک ایسی ریاست جس کے ادارے فعال ہوں، جس کے ادارے اپنے اپنے کام اپنی ذ مہ داری سے ادا کرتے ہوں۔ جس کا حکمران اور تمام لوگ اداروں کی عزت اور حاکمیت پر یقین رکھتے ہوں۔ ایسی ریاست جہاں کسی کے آمدن سے زائد آثاثوں کے حساب کتاب کرنے پر باقی لوگ اور دوسرے ادارے اس ادارے اور اس کے چئرمین کی تضحیک نہ کرتے ہوں، ایسی ریاست جہاں سب جواب دہ ہوں، ایسی ریاست جہاں اصول و ضوابط اور اخلاقیات مقدم رکھے جائیں، نہ کہ کوئی شخصیت مقدم ہو، ایسی ریاست جہاں کوئی کسی بڑے مجرم کے لیے آواز بلند نہ کرتا ہو، اس کے لیے مرثیے نہ پڑھتا ہو۔

ایسی ریاست جہاں کسی کو یہ کہہ کر اعلی مرتبہ نہ بنا یا جاتا ہو کہ 3 بار کا وزیر اعظم ہے یا کوئی صد ر ہے یا کوئی جج ہے ہا کوئی اعلی عہدار ہے، یا کوئی صحافی ہے یا کوئی میڈیا مالک ہے، ایسی ریاست جہاں مجر م کو مجرم سمجھا جاتا ہو، اس مجرم کو یہ کہہ کر اس کے حماتیوں کو اسے ہیرو بنا کے پیش کرنے کی اجازت نہ ہو، کہ وہ صدر، وزیر اعظم، جنرل، جج، بیو رو کریٹ، میڈیا مالک، یا صحافی رہا ہے۔ ایسی ریاست جہاں کسی ایسے انسان کو اپنی گواہی کے لیے ایسا فورم نہ پیش کیا جاتا ہو، جہاں وہ اداروں کی تزہیک کر پائے، ایسی ریاست جہاں انسان کو پیسے میں تول کو اس کے جرم یا بے گناہی کو ثابت نہ کیا جائے، بلکہ مجرم کو مجرم کہا جائے یہ ہوتی ہے ایک با اختیار ریاست۔

پاکستان اور اس کی سیاست تو کبھی با اختیار تھی ہی نہیں۔ میرے نزدیک پاکستان میں نواز شریف اور زرداری ان دو حکمرانوں کے علاوہ شاید ہی کوئئی خود مختار حکمران اس قوم کو ملا ہو، اور جن حکمرانوں نے با اختیار ہو کر غلط لوگوں کے خلاف کوئی ایکشن لینے کی کوشش کی، اسے ناپاک عزائم کے تحت سازیشیں کر کے اتروا دیا گیا۔ عمران خان جن کو میں ایک با اختیار حکمران تو بلکل نہیں سمجھتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ جس ملک کے حکمران کی حیثیت یہ ہو، کہ کوئئی بھی ادارہ اور با اثر انسان جب چاہے اٹھے اور اپنے ناپاک عزائم کو بچانے کے لیے اس حکمران کو ٹارگٹ کرنا شروع کر دے، اس کے خلاف محاذ کھڑا کر دے اور سب لوگ بجائے اس ملک کے لوگوں کو یہ کہنے کے، کہ اگر کسی پر الزام لگا ہے تو اس پر واویلا کرنے کے بجائے اداروں میں ان لوگوں کو اپنے پر لگے الزامات کا جواب دے کرخود کو سرخرو کرنا چاہیے، یہ کہتے ہیں، کہ ایک حکمران سیاسی انتقام لے رہا ہے، ایک حکمران اپنے پر ہونے والی تنقید سے بچنے کے لیے صحافت کو نشانہ بنا رہا ہے، عدلیہ کو نشانہ بنا رہا ہے، جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔

ایک حکمران جج کے آمد ن سے زائد آثاثوں کا پوچھ لے تو حکمران پر الزام لگا کر یہ کہا جاتا ہے کہ عدلیہ اور انصاف کے ادارے کو حکمران اپنے کنٹرول میں کرنے کی کوشش کر رہا ہے سیاست دان سے ان کے آمدن سے زائد آثاثوں کا پوچھا جائے تو ان کی جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ نواز شریف اور زرداری اس ملک کے با اختیار حکمران اس لیے مانے جاتے ہیں کیونکہ انہوں نے سب ادارے کے لوگوں کو ہنسی خوشی رکھا، پاکستان پیپلز پارٹی کے نزدیک ”کرپشن کبھی مسئلہ رہا ہی نہیں، کرپشن کا کیا مطلب ہے عوام کو لوٹنا یا کسی کا ناجائز حق کھانا، اور ہمارے دانشوروں کو چاہیے تھا اس پر احتجاج کرتے، اس پارٹی کو آڑے ہاتھوں لیتے، کیونکہ اسلام میں کسی کا حق کھانا بہت بڑا گناہ ہے اور اس کا حساب تو قبر میں بھی ہوگا، اللہ پوچھے گا ’انسان سے بتاؤ، میری مخلوق کا حق کیوں مارا؟ مگر دانشوری کا اور اخلاقیات کا معیار یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے دانشور، صحافی اور ادارے ان کے خلاف کبھی اس طرح میدان میں آئے ہی نہیں، جیسے پہلے دن سے میں پی ٹی آئی حکومت کے خلاف میڈیا کو متحرک میں دیکھ رہی ہوں۔ (محترمہ ، عمران خان خود تسلیم کرتے ہیں کہ وہ میڈیا کی مدد سے اقتدار میں آئے۔ )

نواز شریف جنہوں نے تمام اداروں میں اپنے لوگ لگا کر تمام اداروں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھا، سب کو ساتھ لے کر چلنے والی پالیسی اپنائے رکھی، اسی لیے آج تک ان پر اننقامی کارروائی کا الزام نہیں لگا اور دانشور انہیں اچھے لفظوں میں یاد کرتے نہیں تھکتے۔ عمران خان جن کا مین منشور ہی کرپشن یعنی عوام کو لوٹنے والوں کے خلاف کارروائی کرنا تھا۔ اپنے اسی منشور کے تحت انہوں نے میڈیا کو کہا، جس پر کرپشن کے الزامات ہیں، انہیں میڈیا تک رسائی نہ دی جائے، لیکن ہمارے میڈیا اور کچھ دانشور حضرات نے اسے آزادی صحافت پر قدغن کا بیانیہ بنا کر حکمران کے خلاف محاز کھول دیا، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ایک حکمران کا یہ حق نہیں، کہ وہ اپنے اداروں کو اپنے طریقے سے چلائے؟ (محترمہ حکمران کی مرضی دستور کے تابع ہے۔ مدیر)

 کیا ایک با اخلاق سیاست اور صحافت کا یہ تقاضا نہیں، کہ ایسے لوگوں کو میڈیا تک رسائی نہ دی جائے جن پر سنگین الزامات کسی بھی جرم کے ہوں؟ کیا دنیا کی بااخلاق ریاستوں میں سنگین کرپشن اور سنگین جرائم لگے الزامات کے سیاستدانوں کو وہ اپنی قومی اسمبلیوں میں یہ کہہ کے بلاتے ہیں کہ ”جی یہ تو عوام کے کروڑوں ووٹ لے کے آئے ہیں، انہیں پروڈکشن آرڈر ملنے چاہیں، اگر نہ دیے گئے تو ہم احتجاج کریں گے؟ سوال یہ ہے چائنا میں جن سیاستدانوں کو کرپشن کے جرم میں موت کے گھاٹ اتارا گیا، کیا وہ عوام کے کروڑوں ووٹ لے کے نہیں آئے تھے؟ (محترمہ، چین میں انتخابات نہیں ہوتے۔ مدیر)

 پھر کیوں وہاں کی حکومت نے ان کے ساتھ یہ زیا د تی کی؟ سوال یہ ہے سعودی عرب میں جن شہزادوں کو کمرے میں بند کر کے ان کے حکمران نے الٹا لٹکا کے ان سے کرپشن کے پیسے نکلوانے سے پہلے ان شہزادوں کو میڈیا پر بلایا جاتا تھا؟ اپنی مظلومیت اور اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے؟ انہیں اسمبلی میں پروڈ کشن آرڈر حکومت سے زبردستی لے کے بلایا جاتا تھا؟ تا کہ وہ عوامی مسائل پر بات کریں؟ یقیناً نہیں بلاتے ہوں گے سنگین جرائم لگے الزامات کے سیاست دانوں کو۔ (سعودی عرب ایک مطلق العنان بادشاہت ہے جہاں قانون نام کی کوئی چیز نہیں۔ ہمارے دستور کی شق 10-الف میں فیئر ٹرائل کی ضمانت دہ گئی ہے۔ سعودی عرب والوں نے اس مہذب اصول کا نام کبھی نہیں سنا۔ ان کے ہاں کوئی پارلیمنٹ نہیں، انتقال اقتدار موت یا سازش سے ہوتا ہے۔ مدیر)

 کسی بھی انسان کو بااخلاق میڈیا اور حکمران ایسے فورم فراہم نہیں کرتے، جن سے ان کے ملک کی ساکھ متاثر ہوتی ہو، عزت متاثر ہوتی ہو، آخلاقیات متا ثر ہوتی ہو۔ پاکستان وہ ملک کے جہاں اخلاقیات کا جنازہ نکالنے والے ادارے اور دانشور خود ہیں۔ جو اپنے ملک کو اخلاقی طرز پر لانے کی تو بات کرتے ہیں، لیکن جس سیاستدان، میڈیا کے صحافی اور میڈیا مالکان، جج، بیوروکریٹس پر کوئی بھی الزام لگے تو سب اس کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں، نہ کہ ایک حکمران کے ساتھ۔ جبکہ ان کو حکمران کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، میڈیا کو حکمران کے انڈر ہونا چاہیے نہ کہ اپوزیشن کے انڈر اور نہ اپنی من مانی کا اختیار ہونا چاہیے، میڈیا پر حکمران کی حاکمیت ہونی چاہیے نہ کہ میڈیا کی حکمران پر حاکمیت، آج بھی اس ملک میں میڈیا طاقتور ہے نہ کہ ادارے، یہی اس ملک اور قوم کی اخلاقی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ (محترمہ میڈیا کے منصب اور فرائض کے بارے مین یہ اصول کہ ” میڈیا کو حکمران کے انڈر ہونا چاہیے” ، آپ نے کس یونیورسٹی سے پڑھا ہے؟ مدیر)

ہمارے دانشوروں کو عوام کی آواز بن کر اداروں اور ملک میں قانون کی حکمرانی کا علم بلند کر کے حکمران کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے نہ کہ ان ساتھ کھڑے ہونا چاہیے، جن پر کوئی سنگین الزام لگے ہوں۔ سوال یہ ہے کسی بھی بڑے انسان، چاہے اس کا تعلق سیاست سے ہو، صحافت سے ہو، بیوروکریسی سے ہو، میڈیا مالک ہو، جج ہو، اس کی تصویر وائرل ہوجائے یا اس کو ہتھکڑی لگ جائے تو ہمارے دانشوروں، سیاستدانوں اور میڈیا کو اخلاقیات بس یہاں ہی کیوں نظر آ جاتی ہے تصویر وائرل ہونے اور ہتھکڑی لگنے پر؟

 کون سی کتاب، حدیث یا قرآن پاک کی کس آیت میں لکھا ہے کہ چھوٹے مجرم کو ہتھکڑی بھی لگا دیں، انہیں نشان عبرت بھی بنا دیں، انہیں جیل میں مار پیٹ کر ان سے ان کے جرم بھی قبول کروا لیے جائیں۔ وہ جائز اور حلال عمل ہے، مگر جب بات بڑے انسان کی آجائے تو ادارے کے لوگوں کے ساتھ ساتھ ہمارے دانشور بھی ان کے لیے بولنے لگ جائیں، ان کے لیے لکھنے لگ جائیں، ان کو مظلوم ترین انسان بنا کے پیش کرنے لگ جائیں؟ ہمارے نبی پاکؐ نے فرمایا ”چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے اور میری بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہ بھی چوری کریں گیں، تو انہیں بھی یہی سزا دی جائے گی“ پھر ہمارے خلفائے راشیدین نے بھی خود کو احتساب کے لیے باخوشی پیش کیا، کبھی یہ نہیں کہا کہ میں تو خلیفہ ہوں، میں احتساب سے مبرا ہوں، کبھی صحابہ کرام علہہ اسلام نے ان کے لیے خود سے آوازیں اٹھا کر خود سے ان کی بے گناہی کے لیے ماحول بنانا شروع نہیں کیا۔ کبھی کسی دانشور نے خود سے ان کی نیک نامی ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ خلفائے راشد ین اداروں میں پیش ہو کر خود اپنے پر لگے الزامات کا سامنا کرتے تھے اور خود کو باعزت بری کرواتے تھے۔ اور اپنے وزراء کو بھی احتساب کے لیے پیش کرتے تھے، انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ جمہوریت خطرے میں آ گئی ہے یا میں احتساب کا ادارہ ہی بند کر دوں گا۔

آج ہمارے ملک میں اخلاقیات کا عالم یہ ہے، الزام کسی بھی بڑے پر لگتا ہے، ملزم اپنی بے گناہی ثابت کرے یا نہ کرے عیسی کے گواہ موسیٰ سب کے لیے موجود ہیں، جو اپنے ملزمان کے لیے بول کر قانون اور اخلاقیات کی دھجیاں اڑاتے ہیں اور حکمران کو ہی تذلیل کا نشانہ بنانے والے ہزاروں ہیں۔ اس ملک کا کوئی ادارہ اور کوئی بڑا انسان نہ قانون کی پاسداری چاہتا ہے اور نہ اداروں کی بالادستی چاہتا ہے، لیکن ہاں بات سب کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں قانون اور اداروں کی بالادستی ہونی چاہیے اور ان کے نزدیک قانون اور اداروں کی بالادستی یہ ہے کہ نہ کسی جمہوری سیاستدان پر ہاتھ ڈالا جائے، نہ کسی بیوروکریٹ پر ہاتھ ڈالا جائے، نہ کسی صحافی پر ہاتھ ڈالا جائے، نہ کسی میڈیا کے مالک پر ہاتھ ڈالا جائے۔ اگر ان لوگوں پر ہاتھ نہ ڈالا جائے تو سب اچھا ہوگا ان کے نزدیک۔ ہاں جب بات کسی آرمی جنرل کی ہو گی تو ان سب کے نزدیک، اس جنرل کو چاہے ناحق بھی پھانسی دینی پڑے، موجودہ حکمران کو تو، اس جنرل کو اور عام انسان کو فورا ”نشان عبرت بنا دینے کے لیے سب ایک پیج پر ہوں گے۔ جس ملک کی دانشوری، سیاست، صحافت اور عدلیہ کا معیار یہ ہو، کہ مرضی کے لوگ نشان عبرت بنیں اور پسند کے لوگوں کو پوچھا بھی نہ جائے۔ وہ ملک کبھی اوپر نہیں جاتے۔

جس ملک میں ایک حکمران اور ادارے با اختیار نہ ہو، اس ملک کو اوپر کوئی نہیں لے جا سکتا، جس ملک میں تمام اداروں میں حکمرانی کی خواہش ہو، اس ملک کو نقصان سے کوئی نہیں بچا سکتا، جس ملک کی اسمبلیوں میں ایسے سیاستدانوں کی تقریروں کو سنایا جائے، جن پر خود عوام کو لوٹنے کے الزامات ہوں، منشیات فروشی کے الزامات ہوں، اربوں کے گھپلوں کے الزامات ہوں، اس ملک کی اخلاقیات کا جنازہ نکالنے کے لیے یہی کافی ہے کہ جن پر لوٹ مار کے الزامات ہیں، وہی عوامی درد کی بات کریں اور ہمارے دانشوروں اور اداروں کو اس میں اخلاقیات کا جنازہ نکلتا نظر نہ آئے اور تصویر لیک ہونے پر اخلاقیات فوراً نظر آ جائے اس ملک کی تعلیم کا معیار کیا ہو گا، وہ یہیں سے دیکھ لیں۔

ہمارے ملک میں احتساب کا عمل کیوں آگے نہیں بڑھتا؟ اس لیے کہ جن پر لوٹ مار، منشیات فروشی کے الزامات لگے ہیں، وہ سب با اختیار ہیں اور ٹی وی پر بیٹھ کر اداروں اور حکمران وقت کی ہی اننی تذلیل اور تضحیک کر دیتے ہیں کہ ادارے بھی اس انسان کے خلاف یہ سوچ کر کچھ نہیں کرتے کہ اگر آج ان کے خلاف کچھ کر دیا تو کل کو یہ لوگ پھر سے بڑے عہدوں پر آگئے تو ہمیں نشان عبرت بنا دیں گے، اگر ہمارے ملک میں با اثر ملزموں کو میڈیا فورم اپنی بے گناہی اور اپنی مظلومیت کے لیے فراہم کیا جا سکتا ہے تو غریب ملزموں کا کیا قصور ہے؟ انہیں میڈیا کا فورم کیوں استعمال کرنے کا حق نہیں دیا جاتا؟ اگر اس ملک کے با اثر لوگوں کو اداروں کی تضحیک اور تذلیل کا کھلا لائسنس دیا گیا ہے تو عوام اور غریب انسان کو قانون کی حکمرانی کا درس کیوں دیا جاتا ہے؟ اگر اس ملک میں دانشوری اور اداروں کا عالم یہ ہے کہ با اثر ملزموں کے حق میں لکھ اور بول کر حکمران وقت کو انتقامی کارروائی کرنے والا حکمران کہہ سکتے ہیں، تو پھر غریب ملزموں اور غریب مجرموں کے ساتھ جو جیلوں میں ہو رہا ہے ان کے حق میں بھی آوازیں اٹھا لیں سب اور حکمران وقت کو بول دیں کہ سب کو چھوڑ دیں اور آپ ہمارے اشاروں پر چلیں، آپ ہمارے کہنے پر چلیں، نہ کہ ہمیں بتائیں کہ قانون کی پاسداری کیا ہوتی ہے یا اداروں کی حکمرانی اور عزت کیا ہوتی ہے ہمیں نہ سکھائیں۔

 آپ ہم سے سیکھیں۔ کون کہتا ہے پاکستان ایک آزاد ریاست ہے، یہ ایک یرغمال ریاست ہے اور اسے یرغمال بنانے والے اس کے اپنے ادارے اور پڑھے لکھے با اختیار لوگ ہیں نہ کہ کوئی اور۔ جب تک اس ملک میں ایک انسان، ایک حکمران کی حاکمیت قائم نہیں ہوتی، یہ ملک کبھی اگے نہیں بڑھ سکتا۔ پاکستان آج جس حال میں ہے، یہاں قائداعظم، طیب اردوان یا مہا تیر محمد جیسے حکمران بھی آجائیں تو وہ بھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ کیونکہ جس ملک میں ہر ادارے کی حاکمیت قائم ہو اور بس قائم نہ ہو تو ایک حکمران کی حاکمیت قائم نہ ہو، تو وہ ریاستیں برباد تو ہو سکتی ہیں، کم از کم کامیاب نہیں ہو سکتیں۔

ایک گھر میں بھی گھر کا سربراہ باپ ہوتا ہے اور ان کی ہر بات اٹل ہوتی ہے اور ان کے بچوں پر کوئی بھی سنگین الزام لگے گا، تو وہ اپنے بچے سے پوچھیں گے ضرور کہ آپ پر یہ الزام لگا ہے تو کیسے اور کیوں لگا ہے، اور بچہ باپ کو یا ماں کو جوابدہ ہوتا ہے یہ نہیں کہتا کہ آپ کون ہوتے ہیں مجھ سے اس الزام کا پوچھنے والے یا آپ بتائیں کہ مجھ پر یہ الزام لگا تو کیسے، کیوں اور کس نے لگایا یا آپ مجھ سے یہ سوال کر کے میری آزادی اظہار پر قدغن لگا رہے ہیں۔ انتقامی کارروائی کر رہے ہیں۔ جس گھر میں بچوں کی الگ حکمرانی قائم ہو اور ماں باپ کی الگ، تو سوچیں اس گھر کا کیا حال ہو گا؟ یہ تو پھر ریاست ہے۔ دنیا میں وہی گھر اور ریاستیں کامیاب ہوتی ہیں، جہاں کا حاکم ایک انسان ہوتا ہے نہ کہ سب انسان اور ادارے۔ جس ملک اور گھر میں باپ یعنی حکمران کی عزت و تقریم نہ ہو وہ ملک اور گھر کبھی آگے نہیں بڑھتے، باپ یا حاکم کو غلطی پر غلط کہنا اولاد یا رعایا کا فرض ہے مگر باپ کو غلط لوگوں کی پشت پناہی کرنے کا کہنا اولاد اور رعایا کو فرض نہیں۔

معذرت کے ساتھ ہمارا میڈیا غلط لوگوں کی پشت پناہی کرتا ہے، اپنی پسند کے لوگوں کی آواز بنتا ہے نہ کہ ملک میں قانون اور اداروں کی پاسداری کرنے والوں کی آواز بنتا ہے۔ احتساب تبھی ممکن ہے جب ہماری صحافت حکمران سے ملک کے مجرموں کو انجام پر پہچانے کی ڈیمانڈ کرے نہ کہ اس ملک کے با اثر لوگوں کی آواز بن کر احتساب جیسے ادارے ہی کو متنازع بنا دے، اور نہ اس ملک کے با اثر لوگوں سے اس ملک کے اداروں کی تذلیل کروائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments