نئی بیماری، پرانے افسانے


دمشق کے شہر میں ایک بار ایسا قحط پڑا کہ یار لوگ عشق کرنا بھول گئے۔ شیخ سعدی کا یہ شعر ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرچکا ہے اور مصیبت کی انتہا کی نشان دہی کرتا ہے۔ دمشق کا شہر اور اس کی سرزمین تو اب خانہ جنگی اور خانہ ویرانی کے دہانے پر پہنچی ہوئی ہے لیکن ہمارا معاملہ اس کے برعکس ہورہا ہے۔ جوں جوں وبا پھیل رہی ہے اور اس کی زد میں آئے ہوئے لوگوں پر سختی بڑھتی جارہی ہے، مجھے قصے کہانیاں یادآئے چلے جارہے ہیں۔ مصیبت کے دنوں میں شاید ایسی مشکل پڑتی ہے کہ کہانیاں یاد آنے لگتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ہماری صورت حال کا تقاضا ہو کہ ابتدائی دنوں کے خوف اور افواہوں کے زور، بیماری کے گھیرے سے بچ نکلنے کی تڑپ، اس کے بعد قرنطینہ کا جبر اور قیدِ تنہائی کی سی کیفیت دل و دماغ کے اندر جھانکنے کا موقع دیتی ہیں جس سے بھولی بسری، کب کب کی پڑھی ہوئی کہانیاں یاد آنے لگتی ہیں۔

اس وقت پوری دنیا پر کورونا وائرس کا مہیب سایہ منڈلا رہا ہے، اس کے سائے ہماری طرف بھی گہرے ہونے لگے تو چند افسانے یاد آئے اور ان کا احوال میں نے لکھ ڈالا۔ مضمون لکھنے کے بعد قلم دوبارہ کان پر رکھا بھی نہ تھا کہ رہ رہ کے اور قصے یاد آنے لگے، بلکہ دوستوں نے ٹہو کا دیا۔ پھر وہ معاملہ ہوگیا کہ لکھتے رُقّعہ، لکھے گئے دفتر۔

وبا سے نبردآزما ہونے کے افسانوں میں بہت قابل ذکر راجندرسنگھ بیدی کا ’’کوارنٹین‘‘ ہے جو ان کے پہلے مجموعے ’’دانہ و دام‘‘ میں شامل ہے۔ اپنے قریبی معاصرین کرشن چندر، منٹو اور عصمت کے برخلاف بیدی کی شہرت آہستہ آہستہ پھیلی، شاید اس لیے کہ وہ لوگوں کو چونکانے کے بجائے دھیمے انداز میں سہج سہج چلنے کے عادی تھے۔ بیدی کی عام وضع کے برخلاف اس افسانے میں آہستہ روی نہیں ہے بلکہ ڈرامائی عمل ہے جو کہانی کے اصل ہیرو کو انسانیت کے بےمثال نمونے کے طور پر سامنے لے آتا ہے۔ افسانے کا آغاز نکیلا اور روشن ہے، مجھے اپنے شہر اور اس کی موجودہ کیفیت کی یاد دلا دیتا ہے۔

’’پلیگ اور کوارنٹین!

ہمالہ کے پائوں میں لپٹے ہوئے میدانوں پر پھیل کر ہر ایک چیز کو دھندلا بنا دینے والی کہر کی مانند پلیگ کے خوف نے چاروں چاروں طرف اپنا تسلط جما لیا تھا۔ شہر کا بچہ بچّہ اس کا نام سن کر کانپ جاتا تھا۔

پلیگ تو خوفناک تھی ہی مگر کوارنٹین اس سے بھی زیادہ خوفناک تھی۔ لوگ پلیگ سے اتنے ہراساں نہیں تھے جتنے کوارنٹین سے۔۔۔‘‘

بیماری کا وار ہونے سے پہلے خوف اس شہر کو جکڑ لیتا ہے اور افواہیں اپنا کام دکھانے لگتی ہیں۔ حفظانِ صحت اور بیماری کے تدارک کے لیے اختیار کیے جانے والے اقدامات ڈرائونے معلوم ہونے لگتے ہیں، موت کی طرح۔ بیدی اس فضا کو مشاقی کے ساتھ قائم کرلیتے ہیں اور اس کے بعد کہانی کے راوی، کوارنٹین میں کام کرنے والے ڈاکٹر کو متعارف کراتے ہیں اور اس کے ذریعے سے ولیم بھاگو خاکروب جو گلی میں صفائی کا کام کرتا ہے۔ محلے میں بیماری اور ہلاکت کی خبریں ڈاکٹر کے پاس وہی لے کر آتا ہے۔ مگر اس کردار کے اوصاف فوراً نہیں کھلتے۔ رات کے تین بجے اٹھ کر آدھ پائو شراب چڑھا لیتا ہے، اس لیے کہ:

’’اس کے تین بجے اٹھنے کا یہ بھی مطلب ہے کہ بازار میں پڑی ہوئی لاشوں کو اکٹھا کرنے اور اس محلے میں جہاں وہ کام کرتا ہے، ان لوگوں کے چھوٹے موٹے کام کاج کرے جو بیماری کے خوف سے باہر نہیں نکلتے۔۔۔‘‘

یہ اس کے عمل کا محرّک ہے مگر زیادہ گہرا محرک آگے چل کر معلوم ہوتا ہے اور اس کے عقیدے سے جُڑ جاتا ہے:

’’ایک بھاگو ہی تھا جو سب کا رشتہ دار تھا۔ سب کے لیے اس کے دل میں درد تھا۔ وہ سب کی خاطر روتا اور کڑھتا تھا۔ ایک دن اس نے خداوند یسوع مسیح کے حضور میں نہایت عجز و انکسار سے اپنے آپ کو بنی نوعِ انسان کے گناہ کے کفارے کے طور پر بھی پیش کیا۔۔۔‘‘

آخری فقرہ خاص طور پر اس میں ایک عجیب پاکیزگی اور تقدّس کا احساس دلاتا ہے۔

بھاگو رحم دلی اور ہمدردی کا مجسمہ ہے۔ ایک مریض کو بچانے کے لیے اپنا ہاتھ آگ میں جھلسا لیتا ہے۔ یہ سوچ کر میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ بیدی کے ہندوستان ہی میں نہیں، اس سے بڑھ کر آج کے پاکستان میں بھاگو کے ہم عقیدہ لوگ نفرت اور تعصب کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔

ہر بات سے بے پرواہ، بھاگو اپنا کام جاری رکھتا ہے۔ جاں توڑ خدمت کے باوجود اس کی بیوی اس بیماری کا شکار ہوجاتی ہے اور اس کا نومولود بچہ بھی مرجاتا ہے۔ گھر والوں کی بیماری اور موت کے باوجود بھاگو اپنا کام پہلے سے بھی زیادہ مستعدی سے سرانجام دیتا ہے اور اپنی جان کو جان نہیں سمجھتا۔ ڈاکٹر صاحب اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے بھی بھاگو کی تقلید میں نہایت مستعدی سے کام کیا۔

آخر بیماری چھٹ گئی اور شہر میں جشن کا اہتمام ہوا۔ جیسا کہ توقع کی جاسکتی ہے ایک بڑے عظیم الشان جلسے میں ڈاکٹر صاحب کی خدمات کا اعتراف کیا گیا__ ’’ہاروں کے بوجھ سے میری گردن جھکی جاتی تھی اور میری شخصیت بہت نمایاں معلوم ہوتی تھی۔ پُرغرور نگاہ سے میں کبھی ادھر دیکھتا کبھی اُدھر__‘‘ ان کو نقد نذرانہ بھی پیش کیا گیا۔ کہیں نام نہیں آیا تو بھاگو کا جو کہانی کے آخر میں اچانک جھاڑو اٹھائے ہوئے نمودار ہوجاتا ہے۔ صورت حال کی ستم ظریفی یوں اجاگر ہوجاتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے جذبات بدل جاتے ہیں۔ ان کو اپنا اعزاز بوجھل معلوم ہونے لگتا ہے، اور رقم سے بھرا ہوا بٹوا ایک بوجھ۔ آخری فقرے میں وہ اپنی کیفیت کو بیان کردیتے ہیں:

’’اتنے اعزاز حاصل کرنے کے باوجود میں بے توقیر ہوکر اس قدر شناس دنیا کا ماتم کرنے لگا!۔۔۔‘‘

لیکن اس سے پہلے وہ بھاگو کو یوں خراجِ تحسین پیش کرچکے ہیں: ’’دنیا تمہیں نہیں جانتی، بھاگو تو نہ جانے__ میں تو جانتا ہوں، تمہارا یسوع تو جانتا ہے__ پادری لاب کے بےمثال چیلے__ تجھ پر خدا کی رحمت ہو__!‘‘

دنیاوی تحسین و انعامات کے جشن سے علیحدہ، وہ رحم دلی اور فرض شناسی اور خدمت کی مثال ہے۔ اپنی معلومی کام کی وجہ سے کرشن چندر کے ’’کالو بھنگی‘‘ کی یاد دلاتا ہے اور ساری انسانیت کا درد اپنے کلیجے میں سمیٹ لیتا ہے۔ اس کا خاندان وبا کا شکار ہے مگر وہ خود وبا سے لڑنے والا سورما جس کی جدوجہد کو افسانے نے کامیابی کے ساتھ سمیٹ لیا ہے۔ میں اس کو جتنا قابل تحسین سمجھتا ہوں، ڈاکٹر صاحب اپنی جان توڑ محنت کے باوجود میرے دل کو نہیں لگتے۔ وبا کے خلاف کامیابی کے جشن میں تقریر کرتے وقت وہ خالی خولی الفاظ کے بازی گر اور کھوکھلے آدمی معلوم ہوتے ہیں۔

ہمالیہ کے پائوں میں لپٹے ہوئے جس شہر کا ذکر بیدی نے کہا ہے، وہ کون سا شہر ہوسکتا ہے؟ قیاس کہتا ہے جمّوں ہوگا۔ جمّوں کا ذکر بڑے واضح حوالے کے ساتھ قدرت اللہ شہاب کی خودنوشت ’شہاب نامہ‘ میں آیا ہے۔ وہ شروع ہی اس حوالے سے ہوتی ہے:

’’گرمیوں کا موقع تھا اور جمّوں شہر میں طائون کی وبا بڑی شدّت سے پھوٹی تھی۔۔۔‘‘

راوی چوتھی جماعت کا طالب علم ہے اور اسکول میں مُردہ چوہے، پھر ان کا خوف دریافت کرتا ہے، اس سے شرارت کے لیے استعمال کرتا ہے اور مولوی صاحب کی نوبیاہتا بیوی صادقہ بیگم سے ایک کچی کچی دل چسپی محسوس کرتا ہے۔ پورا باب افسانے کی طرح آگے بڑھتا اور پھیلتا ہے، پھر صادقہ بیگم کی الم ناک موت پر نقطۂ انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ اس پوری کتاب میں کئی باب ایسے ہیں جو افسانے کی طرح پڑھے جاسکتے ہیں۔ قدرت اللہ شہاب یوں بھی ایک افسانوی شخصیت کے مالک تھے جن کو ان کے بعض معتقدین نے صاحب حال ولی اللہ کے طور پر پیش کیا، جب کہ کئی لوگوں نے ان کی اس کتاب کو حقیقت سے دور قرار دیا۔ میں اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا مگر ’شہاب نامہ‘ کے پہلے باب کو ایک ناقابل فراموش افسانےکے طور پر دوبارہ پڑھ سکتا ہوں۔ دوسرے باب میں انھوں نے ذکر کیا ہے کہ ان کے گھر والے بچوں کو ’’موت کے منھ سے محفوظ رکھنے کے لیے‘‘ سری نگر بھیج دیتے ہیں۔ وہ طاعون سے محفوظ رہے لیکن کتاب میں آگے چل کر پتہ چلتا ہے کہ بڑی خوف ناک روحانی اور اخلاقی بیماریوں کا شکار رہے جن کے جراثیم پورے ملک میں پھیلاتے چلے گئے۔ اس قصے کو دوبارہ پڑھنے کے لیے مجھے قرنطینہ میں یا کال کوٹھری میں جانا پڑے گا۔ اس وقت میں وبائوں سے ہی لو لگائوں گا۔

بیدی کے افسانے کا حوالہ میرے عزیز دوست محمود الحسن نے دیا تو مجھے یاد آیا۔ اسی طرح محترم مرزا اطہر بیگ اور اسامہ صدیق نے نام لیا تو مجھے ایڈگر ایلن پو کا افسانہ یاد آیا۔ ارے، میں اسے کیسے بھول گیا۔ بہت عرصہ پہلے بچوں کے لیے تلخیص اور ترجمہ کیا تھا جو ہندوستان سے ’’سرخ موت‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔ موت کا رقص تو اب بھی جاری ہے اور یاد دلاتا رہتا ہے کہ جو موت سے بھاگتا ہے وہ موت کی طرف بھاگتا ہے۔

پو کے افسانے میں قصے سے زیادہ داستان کا رنگ ہے۔ نثر بھی شاعرانہ ہے اور مزّین جو اس کے موضوع سے زیادہ اس کے انداز نظر کی مرہونِ منت ہے۔ سُرخ موت تباہی کا دائرہ وسیع کرتی جارہی ہے اور خوش باش شہزادہ پروسپرد اپنی ہنسی خوشی میں مگن ہے یہاں تک کہ اس کی پناہ گاہ میں موت اس کی دہلیز تک پہنچ جاتی ہے۔ اسے اندازہ ہوجاتا ہے کہ رقصِ عیش و عشرت کی محل سرا میں جھانکنے والے غریب اجنبی کی طرح موت کو وہاں پہنچنے سے باز نہیں رکھا جاسکتا۔ قصے پر نصیحت اور درسِ عبرت کی تمثیل کا امکان غالب ہے مگر میں اس کو سیاسی تمثیل کے طور پر بھی تو پڑھ سکتا ہوں۔ اپنے مال میں مگن اور بڑھتی ہوئی بیماری کی طرف سے بے فکر پروسپرد آج کے کسی ملک کا سربراہ بھی تو ہوسکتا ہے جو بیماری کے لیے بروقت روک تھام کے انتظامات کرنے کے بجائے رعایا کو محفل رقص میں منہمک کیے رکھتا ہے یہاں تک کہ موت دروازے پر دستک دینے لگتی ہے۔ اس کے بعد بہت دیر ہوچکی ہے۔ کورونا وائرس کی اس بیماری میں ایسے کتنے ہی ملک ہیں جنھوں نے بہت دیر کردی۔ مجھے ایک دھڑکا سا لگا ہوا ہے کہ پروسپرد کو میں نے اپنے ملک کے ایوانِ حکومت میں دیکھا ہے۔ اب کسی بھی لمحے محل سرا کی چوکھٹ پر اس اجنبی کی چاپ نہ سنائی دے جائے جو موت کا پیامبر ہے۔

کہانیوں کے اس ریلے میں اس کتاب کا ذکر کیسے نہ کیا جائے جو بہت ساری کہانیوں کی ماں ہے، ایک انمول ذخیرہ۔ میری مراد بوکاچیو کے دیکامیرون سے ہے۔ بوکاچیو کی یہ تصنیف اٹلی کے شہر فلورینس میں پھوٹ پڑنے والی وبا سے شروع ہوتی ہے۔ بیماری کے مارے شہر میں جب ہلاکتوں کی تعداد بڑھنے لگتی ہے تب شہر سے فاصلے پر ایک گرجا میں دس لوگ اتفاق سے مل جاتے ہیں، سات عورتیں اور تین مرد۔ یہ سب بیماری سے پناہ ڈھونڈنے کے لیے اپنے اپنے گھروں کو چھوڑ آئے ہیں۔ وقت گزارنے اور جی بہلانے کے لیے وہ طے کرتے ہیں کہ قصے کہانی کہتے رہیں گے۔ ان قصوں کے موضوعات ہر قسم کے ہیں۔ ان میں حسن و عشق کی کارستانی ہے، بدکرداروں کی بدمعاشی بھی ہے اور اعلیٰ ظرف، نیک صفت کرداروں کی استقامت اور قربانی بھی۔ پھر ان کہانیوں کے بیان میں ترتیب کا سلیقہ بھی ہے۔ دس دن میں دس افراد ایک دوسرےکو دس دس کہانیاں سنا کر سو کی تعداد پوری کرلیتے ہیں۔ ہر روز کی نشست کے بعد اگلے دن کے لیے ایک مرکزی نکتہ بھی طے کر لیتے ہیں کہ آنے والے دن کی کہانیاں اس کے حساب سے ہوں گی۔ چناں چہ پہلے دن کے خاتمے پر اس مجلس کی فرماں رواں اگلے دن کے لیے ایک نئی ملکہ کا انتخاب کرتی ہے اور نئے دن کی ملکہ فلومینا اس دن کے لیے موضوع تجویز کرتی ہے کہ وہ لوگ جو بڑی مصیبتوں اور آفات سے گزرے اور آخر میں خلاف توقع ان کو خوشی مل گئی، ان کا قصّہ سنایا جائے۔ اب ایسے عمدہ موضوع پر کون کہانی سنانا نہیں چاہے گا؟

بوکا چیو کی دیکامیرون کے بارے میں، میں اعتراف کرتا چلوں کہ میں نے کبھی اسے الف سے لے کر ی تک ایک ترتیب کے ساتھ نہیں پڑھا، بلکہ جب بھی پڑھا ابتدائیے کے بعد بیچ میں سے اٹھا کر الگ الگ کہانیاں پڑھتا چلاگیا۔ ممکن ہے اس کے پیچھے یہ خیال ہوکہ اتنا ضخیم مجموعہ کبھی فرصت میں یکسوئی سے پڑھوں گا۔ نئی نئی کتابیں سامنے آتی گئیں اور یہ ہو نہ سکا۔ اب اس نئی وبا میں اپنے آپ کو علیحدہ کرکے رکھنا ہے تو پھر اس سے اچھا موقع کہاں ملے گا۔ کیوں نہ اپنے دن بھی ان لوگوں کی طرح ان کہانیوں کے ساتھ گزار لوں جب تک کہ اس عجیب قید سے رہائی نہ مل جائے۔ کتاب ختم ہوجائے یا قید میں زندگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments