کورونا وائرس کو سیرئس لینے کی ضرورت ہے


کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر ابھی تک قابو نہیں پایا جا سکا۔ معلومات کے مطابق کورونا وائرس کے اثرات 15 دن کے اندرظاہر ہوتے ہیں۔ چناںچہ اگر کوئی اس کا شکار ہو جائے تو نادانستگی میں وہ اس کے ظاہر ہونے تک بہت سے افراد کو کورونا سے متاثر کر چکا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چند کیسز کے سامنے آنے کے بعد اچانک کورونا کی زد میں آئے ہوئے افراد کی تعداد بتدریج بلند ترین سطح کی طرف بڑھتی نظر آتی ہے۔

اس بنیادی حقیقت سے آگہی کے باوجود وطنِ عزیز میں عوام کی اکثریت کورونا کو سیریس لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جب حکومت نے تعلیمی اداروں میں تعطیلات کا اعلان کیا تو لوگوں نے پارکوں اور تفریحی مقامات کا رخ کر لیا۔ پھر پارکوں اور تفریحی مقامات کو بند کر دیا گیا۔ شاپنگ مالز اور بازاروں میں بھی کئی دن تک بہت زیادہ رش نظر آتا رہا۔ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز بھی گردش کر رہی ہیں جن میں لوگ کورونا کے حوالے سے حفاظتی اقدامات کا مذاق اڑاتے نظر آئے۔ ایک جگہ اکٹھے ہو کر بڑے جوش سے ہاتھ ملا کر ٹھٹھہ اڑاتے ہوئے ان لوگوں سے ہوش مندی کی توقع رکھنا فضول ہے۔

ایک ٹی وی رپورٹر لاہور کی بادامی باغ منڈی کی کوریج کرتے ہوئے بتا رہی تھیں کہ یہاں کورونا کے حوالے سے حفاظتی تدابیر دور دور تک دکھائی نہیں دیتیں۔ ویڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا تھا کہ ہزاروں افراد بغیر کسی ماسک کے گھل مل رہے تھے۔ ہاتھ دھونے کے لیے ایک جگہ تھوڑا سا پانی موجود تھا لیکن اس کی طرف کسی کا دھیان نہیں تھا۔

حکومت نے مذہبی اجتماعات پر بھی پابندی عائد کی ہے۔ اس کی مخالفت میں بھی سوشل میڈیا پر پوسٹس نظر آئیں۔ بعض افراد نے بڑے فخر سے پوسٹ کیا کہ ہم نے ہزاروں کی تعداد میں باجماعت نماز جمعہ ادا کی۔

کورونا کے حوالے سے ایسی لاپروائی کا مظاہرہ کرنا، حکومتی احکامات کی دھجیاں اڑا دینا اور یہ کہنا کہ جو رات قبر میں ہے وہ باہر نہیں آ سکتی، یہ کوئی بہادری نہیں بلکہ نادانی ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے لیکن اللہ تعالیٰ نے خود کشی کو حرام قرار دیا ہے۔ اگر کوئی شخص خود ہی موت کے منہ میں کود جائے تو اس کی ہلاکت یقینی ہو گی۔

موجودہ اعداد و شمار کے مطابق کورونا وائرس سے شدید متاثر اٹلی میں ہلاکتوں کی تعداد اب چار ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جو چین سے بھی زیادہ ہے۔ مجموعی طور پر گیارہ ہزار سے زائد افراد موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔ وائرس دنیا کے 180 سے زیادہ ملکوں میں پھیل چکا ہے۔ پاکستان میں کورونا سے متاثر افراد کی تعداد 500 سے زیادہ ہو چکی ہے۔ ابھی اس کے پھیلاؤ کی رفتار سست ہے مگر یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ہمارے ہاں جس طرح سے لوگ اس حوالے سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ اول تو ہمارے ہاں کورونا کی سکریننگ کے لیے ذرائع بھی محدود ہیں اور لوگ ٹیسٹ کروانے میں کوئی دلچسپی بھی نہیں رکھتے۔

بعض افراد چین کی مثال دیتے ہیں کہ وہاں سے یہ وائرس پھیلا لیکن انہوں نے تقریباً دو ماہ میں اس پر قابو پالیا اور اب وہاں کوئی نیا مریض رپورٹ نہیں ہو رہا ہے۔ مگر وہ ایک بہت بڑی حقیقت فراموش کر دیتے ہیں کہ چین کی حکومت نے بر وقت سخت اور غیر مقبول فیصلے کیے اور عوام نے مکمل طور پر اس کا ساتھ دیا۔ خواہ وہ ماسک پہننے کی بات ہو، خود کو آئسولیشن میں رکھنے، بار بار ہاتھ دھونے، ہاتھ ملانے سے گریز ہو یا اسی طرح کی دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا معاملہ۔ ہماری طرح نہیں کہ خود بھی حکومت کی ہدایات پر عمل نہیں کرتے اور دوسروں کا مذاق اڑاتے ہیں جو ان ہدایات پر عمل کر رہے ہوتے ہیں۔

کورونا وائرس کو بہت سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے۔ شاید اب ہمیں مکمل لاک ڈاؤن کی طرف بڑھنا چاہیے۔ کم از کم تمام بڑے شہروں میں مکمل لاک ڈاؤن ہونا چاہیے۔ خود کو دس پندرہ دن کے لیے سیلف آئسولیشن میں رکھنا چاہیے۔ کسی انتہائی ضرورت میں گھر سے باہر نکلنے میں کوئی قباحت نہیں لیکن غیر ضروری طور پر اجتماعات سے گریز کرنا چاہیے۔ حکومت کی طرف سے جاری کردہ ہدایات پر سختی سے عمل کرنا چاہیے۔ یہ وقت متحد ہونے کا ہے۔ اگر ہم ایسا کر سکیں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے کورونا کو شکست فاش دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ خدا آپ سب کا حامی و ناصر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments