سندھ کی سوتیلی اور سگی ماں اور ایک مسافر


مجھے اچھا لگ رہا ہے کہ PDMA Sindh کی طرف سے روزانہ دو میسج آتے ہیں۔ ایک اردو میں اور ایک انگریزی میں کہ آپ خود کو آئسولیشن میں رکھیے، کیونکہ آپ باہر کا سفر کرکے آئی ہیں۔

اب کچھ دنوں سے فون آنا شروع ہوگئے ہیں۔

آپ کی طبیعت کیسی ہے؟

کرونا کا کوئی آثار تو نہیں؟

پلیز اپنا خیال رکھیے۔

ہمارے نمبر محفوظ رکھیے۔ ضرورت پڑنے پر فون کیجیے۔ ہم حاضر ہوجائیں گے۔

دل خوش ہوتا ہے کہ چلو مرکزی ریاست سندھ کی سوتیلی سہی مگر سندھ کی حکومت ماں کی طرح میرا خیال رکھ رہی ہے۔ میری طبیعت پوچھ رہی ہے۔ اپنے ہونے کا یقین دلا رہی ہے کہ بیٹا پریشان نہ ہونا۔ میں تمہارا خیال رکھنے کے لیے موجود ہوں نا۔

ورنہ اسی سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی سے میں بھی ناراض ہی رہتی ہوں۔ ہزار شکوے ہیں جن پر ہمارا جھگڑا چلتا رہتا ہے۔ عموماً سمجھا یہ جاتا ہے کہ کیونکہ میں سندھی ہوں اس لیے پیپلز پارٹی کی مداح ہوں۔ تعصب سے بھرے کمنٹس بھی آتے ہیں، جن سے صرف اس لیے مسکرا کر گزر جاتی ہوں کہ میں نے تعصب کا گلا اپنے ہاتھوں سے گھونٹ دیا ہے اور سکون جیسی نعمت سمیٹ لی ہے۔

ہم پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کے وزراء سے ان کے منہ پر جس طرح لڑتے ہیں، شاید کوئی اور حکومت ہو تو طاقت کے نشے میں ہمارے پیچھے ننگی گالیاں دینے والی ٹیم لگا دے۔ اور تو اور، ہم ہجوم کے سامنے اسٹیج پر کھڑے ہوکر انہیں جو منہ میں آتا ہے سنا دیتے ہیں۔

ہمیں ان کی اچھائیوں کا بھی پتہ ہے اور برائیوں کا بھی۔

انہوں نے کبھی ہم پر غداری کا الزام نہیں لگایا۔ کافر نہیں کہا۔ چپ رہے۔ آگے بڑھ کر وضاحت پیش کی۔

ابھی دو تین دن قبل ہی میں فون پر بلاول کے بے حد قریبی ساتھی پر اونچی آواز میں چیخ پڑی کہ کہاں ہے بلاول؟ اسے کہو باہر نکلے۔ چہرہ دکھائے۔ جو منہ میں آیا کہتی چلی گئی۔

اگلے دن بلاول کو پریس کانفرنس کرتا دیکھ کر میری آنکھیں نم ہوگئیں۔

جذباتی ہوکر اسی شخص کو وائس میسج بھیجا کہ یہ ہوئی نا بات۔ لیڈر وہی بنے گا جو مقتل میں مقتولوں کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ یہ تو ہے ہی مقتولوں کی نسل۔

جواب آیا کہ میں نے آپ کا میسج بھیج دیا ہے۔

آج پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت سندھ میں رہنے والوں کی ماں بنی کھڑی ہے۔ میں تو خیر، مگر یہ ماں جس طرح سندھ کے ناسمجھ اور بپھرے ہوئے ہجوم کو سمیٹ سمیٹ کر زندگیاں بچانے کی جدوجہد کر رہی ہے، یہ کوئی آسان کام نہیں۔

حقیقت میں بھی یہ صرف ماں کر سکتی ہے کہ اپنے بدتمیز، من چلے، غصیلے اور ناسمجھ بچوں کو مصیبت میں سمیٹ سمیٹ کر سینے سے لگائے۔ صرف ماں موت کے منہ میں کود سکتی ہے۔

آج سندھ حکومت کی اس جان توڑ اور جان لیوا جدوجہد کا تمغہ بے شک سوتیلی ریاست اپنے سینے پر سجانے کے لیے اور ہمارے حصے کے نوالوں سے اپنا حلق تر کرنے کے لیے اب آ کھڑی ہو بنے بنائے اسٹیج پر، لیکن ہمیں بہرحال پتہ ہے کہ ہماری سگی ماں کون ہے اور سوتیلا کون ہے!

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments