نئی نسل فکری ارتداد کی زد میں


مسلمانوں کے موجودہ حالات پر ایک نظر ڈالے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ملت کس طرح سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، ہر پہلو سے دیکھنے پر یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کی حالت پست ہے۔ میں جس نظریہ سے ملک کے حالات کو دیکھ رہا ہوں کاش ملی تنظیمیں ان پہلوں پر غور کریں اور امت کے آئیندہ مستقبل کے لئے مبسوط اور طویل مدتی لائحہ عمل تیار کریں جو آنے والی نسل کے لئے ثمر آور ثابت ہو سکے۔ دراصل جو بے چینی مسلمانوں میں دیکھنے مل رہی ہے وہ غیروں سے زیادہ تشویشناک ہے کہ ہر سنی سنائی بات پر یقین کر لیتے ہیں بغیر کسی تحقیق کے ان افواہوں کو پھیلانے میں بھی آج ہماری نوجوان نسل کا کردار اہم ہے۔

کرونا وائرس کی وجہ پوری دنیا میں خوف کا ماحول پیدا کیا گیا ہے جس میں سب سے اہم ہاتھ میڈیا اور سوشل میڈیا کا ہے۔ آج ہر عام انسان کے ہاتھ میں سوشل میڈیا اینڈروئیڈ موبائل کی شکل میں موجود ہے۔ اور جیسے ہی کوئی خبر یا وڈیو اس پر ملتی ہے اسے پھیلانے کے لئے ہمارے معاشرے کے افراد بے چین نظر آتے ہیں جب تک اسے ایک ڈیڑھ درجن گروپ میں فاروڈ نہیں کر دیتے۔

اس سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ میڈیا نے ہمارے ذہنوں کو اپنی مٹھی میں کیا ہوا ہے یہ ذہنی غلامی کی علامت ہے اور یہ سلسلہ ٹیلی ویژن کے دور سے شروع ہے۔ بے حیا مغربی تہذیب کو معاشرے میں دھیرے دھیرے داخل کیا گیا۔ ٹی وی سیریل کے ذریعے ذہنوں میں آزاد خیالی اور مذہب بیزاری کو پروان چڑھایا گیا‌۔ ذرا غور کیجیے ہمارے پاس ہمارے دین اسلام کا مذہبی تشخص ظاہری شکل میں کیا بچ گیا ہے صرف جمعہ کی فرض نماز، رمضان کے روزے، عید الفطر، عید الاضحی اور جاگنے کی تین راتیں، محرم کے شربت، اور چند باتیں حقیقت سے غیر آشنا یہ نئی نسل کہاں جارہی ہے۔

جو دین اسلام کے اصل تعلیمات سے قرآن و حدیث سے دور ہوتی جارہی ہے۔ اور فکری طور پر مرتد ہوچکی ہے۔ نئی نسل کی لڑکیوں پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ ممبئی، پونہ، ناگپور، اورنگ آباد، جیسے بڑے بڑے شہروں کی اعلی تعلیم یافتہ لڑکیاں غیر مذہب کے نوجوانوں کے ساتھ کورٹ میرج کر رہی ہے۔ یہ صرف مہاراشٹر کے حالات ہے اور اس کا ڈیٹا بھی بڑا افسوس ناک ہے ‌۔ دیگر ریاستوں کی بات ایک طرف، نوجوانوں کی تعداد مساجد میں کتنی بچی ہے۔ فجر میں ہماری صفوں میں کتنے نمازی ہوتے ہیں۔ مساجد میں جب ایک دو صف بھرتی ہے تو ہمارے گھروں کی خواتین بچوں کی کیا حالت ہوگی۔

آج نوجوان صرف سوشل میڈیا پر اسٹیٹس لگا کر سیلفی ڈال کر اور کسی مغربی شخصیت کے لائف سٹائل کو اپنا کر اس میں اپنی کامیابی سمجھ رہا ہے۔ فکری ارتداد اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ایک مسلم لڑکی سنت رسول ﷺ پر عمل کرتے ہوئے داڑھی رکھنے والے نوجوان کے رشتہ کو یہ کہ کر ٹھکرا دیتی ہے کہ اسے داڑھی والا شوہر نہیں چاہے۔ ایک طرف اس قدر خوف مسلمانوں پر طاری ہے کہ ہر مشکل حالات میں خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اللہ کا ڈر و خوف سے زیادہ وبائی امراض حکومت سیاست دانوں کا ڈر دلوں میں بیٹھ چکا ہے۔

یہ زبان سے کوئی نہیں کہتا ہے بلکہ عمل سے ظاہر کرتے ہیں۔ مسلمان ہونے کے باوجود مذہبی تشخص پر عمل کرنے سے ڈر لگتا ہے تو کہی شرم بھی محسوس کرتے ہیں۔ ظالموں کے خوف دلوں پر قابض ہوچکے ہیں، حکومت کے فیصلوں کو سنجیدگی سے سنا جاتا ہے لیکن پانچ وقت موذن کی آواز اللہ اکبر کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ایمان کے بعد اسلام کے پانچ اہم ارکان میں سے دوسرا رکن نماز ہے۔ جو بنیاد ہے۔ پانچ وقت کی نماز مسلمانوں پر فرض ہے۔ حدیث ہے کہ دین میں نماز کا درجہ ایسا ہے جیسے جسم میں سر کا درجہ ہے بغیر سر کا انسان زندہ نہیں رہ سکتا اسے طرح دین بغیر نماز کے مکمل نہیں ہے۔ نماز کو دین کا ستون کہا گیا ہے۔ نماز آپ ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، نماز کے تعلق سے حدیث میں آتا ہے کہ منافق پر فجر اور عشاء کی نماز بھاری ہے یعنی منافقوں کو فجر کی نماز بہت بوجھ لگتی ہیں۔ آج ہم اپنا محاسبہ کریں کہ فجر اور عشاء میں ہمارے علاقے کی مساجد کی کیا حالت ہوتی ہے۔

نماز کے بغیر دین پر چلنا بہت مشکل ہے۔ نماز کے تعلق سے اتنی سخت وعید حدیث میں آئی ہے کہ جو شخص فرض نماز چھوڑ دیں وہ ایسا ہے جیسے اس کا گھر بار لٹ گیا ہو، ایک نماز کو چھوڑنے کا گناہ دو کروڑ اٹھاسی لاکھ برس دوزخ کے آگ میں جلنا کا عذاب ہوگا، آج یہ حالات ہیں کہ ہمارے کچھ بزرگ، جنہیں ہم لوگ مسجد کے کھوٹے کہتے ہیں، وہ فجر میں پہنچ کر اذان دیتے ہیں یا امام صاحب اور موذن صاحب پہلے پہنچ جاتے ہیں لیکن آئندہ مستقبل میں کچھ سالوں کے اندر ہمارے معاشرے کی حالت کیا ہوگی اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، یہی نوجوان نسل آگے قوم کا مستقبل ہوگی۔ آج اگر یہ اپنی نیند کو اللہ کی رضا کے لئے قربان نہیں کرسکتی جس نے پیدا کیا اس کی بندگی کے لئے کھڑے نہیں ہوسکتی ہے تو کون ہوگا جو صبح کے وقت اللہ اکبر کی صدائے بلند کریں۔

اس کی فکر آج ہی کرنی ہوگی ورنہ آنے والا وقت بہت سخت ترین مصائب سے گھرا ہوگا یہ جو کرونا وائرس ہے یہ اللہ کے ناراض ہونے کی علامت ہے۔ جب گناہ معاشرے میں پھیلتے ہیں جب زنا پھیل جاتا، سود عام ہو جائے، شراب عام ہوجائے، تو پھر نئی نئی بیماریاں عذاب کی شکل میں جنم لیتی ہے۔ اور پھر اس میں بے قصور بھی مرتے ہیں ‌۔ اسے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت دین اسلام کو بنیاد بنا کر کریں، ان کی ذہن سازی کریں انہیں اپنے دین پر مضبوطی سے عمل کرنے والا بنائیں جسے وہ جان سے زیادہ اہم سمجھیں، تاکہ وہ مغربی تہذیب کے بے حیا کلچر سے محفوظ رہ سکیں ورنہ آج جو حالات ہم دیکھ رہے ہیں اس سے کئی زیادہ بدتر حالات ہوگیے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور ﷺ نے فرمایا کہ:۔

”تم لوگ نیک اعمال کی طرف جلدی کرو، ان فتنوں کے خوف سے جو سخت تاریک رات کی طرح ہیں جس میں آدمی صبح کے وقت مومن اور شام کے وقت کافر ہو گا، شام کے وقت مومن اور صبح کے وقت کافر ہو گا، دنیاوی ساز و سامان کے بدلے آدمی اپنا دین بیچ دے گا“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments