اب لاک ڈاؤن کیجئے ورنہ کرفیو سے بھی فائدہ نہیں ہو گا


سندھ میں مکمل اور پنجاب و بلوچستان میں جزوی لاک ڈاؤن کے اعلانات کے دوران پاکستان میں کورونا وائرس کا شکار ہونے والے لوگوں کی تعداد 750 ہو چکی تھی۔ گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے اگرچہ لاک ڈاؤن کے طریقہ کو ’غریب دشمن‘ قرار دیتے ہوئے استعمال کرنے سے انکار کیا تھا لیکن آج ہی حکومت کو فوری طور سے تمام بین الاقوامی پروازیں بند کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔
اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی حکومت سے فوری طور پر حفاظتی اقدامات کرنے اور ملک بھر میں لاک ڈاؤن کا مطالبہ کیا ہے۔ شہباز شریف نے کورونا وائرس کی وجہ سے ملک میں بڑھتے ہوئے بحران کی وجہ سے فوری طور پر پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ لندن سے پاکستان کے لئے روانگی سے قبل انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ کسی بڑے انسانی المیہ کو روکنے اور لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ رکھنے کے لئے فوری طور سے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جائے۔ پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری نے بھی اسی قسم کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ کووڈ۔ 19 کے خلاف جنگ میں ہر گزرتا لمحہ قیمتی ہے۔ متعدد ٹوئٹر پیغامات میں انہوں نے کہا کہ ہم پہلے ہی بہت وقت ضائع کرچکے ہیں۔ اب بھی ملک بھر میں فوری لاک ڈاؤن کرکے اس مہلک وائرس کو پھیلنے سے روکاجائے۔
اس دوران وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے سندھ کے گورنر ، کور کمانڈر اور ڈی جی رینجرز کے ساتھ ملاقات کی اور صوبے میں مکمل لاک ڈاؤن کے لئے اقدامات کا جائزہ لیا۔ صوبائی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ صوبے بھر میں تمام دکانیں اور شاپنگ مالز بند کئے جائیں اور لوگوں کو اشد ضرورت سے قطع نظر گھروں میں رہنے کا پابند کیا جائے۔ سندھ کی حکومت نے گزشتہ روز ایک ایسے وقت میں صوبے کے لوگوں سے رضاکارانہ آئسولیشن اختیار کرتے ہوئے تین روز تک گھروں میں رہنے کی درخواست کی تھی، جب وزیر اعظم عمران خان اسلام آباد میں صحافیوں کے ایک گروپ سے باتیں کرتے ہوئے ملک میں لاک ڈاؤن کے خلاف دلائل دے رہے تھے۔ ان کا مؤقف تھا کہ اگر لوگ گھروں میں بند کردیے گئے تو وہ کورونا سے تو شاید بچ جائیں لیکن بھوک سے مر جائیں گے۔ انہوں نے یہ دلیل بھی دی تھی کہ غریبوں کے لئے گھروں سے نکلنا اور کام کرنا اہم ہے تاکہ وہ اپنے خاندان کے لئے روزی کما سکیں۔
عمران خان نے اس گفتگو میں دیگر باتوں کے علاوہ یہ عذر لنگ بھی پیش کیا تھا کہ لاک ڈاؤن کی صورت میں ہسپتالوں میں کام کرنے والا عملہ اور صحت کی ضروریات فراہم کرنے کے لئے سامان اور ادویات کی ترسیل بھی متاثر ہوگی۔ تاہم ان دلائل کو ابھی چوبیس گھنٹے بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف نے صحت کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرز اور نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل محمد افضال کے ہمراہ اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے اتوار سے تمام بین الاقوامی پروازوں کو معطل کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اس طرح کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش کی جائے گی۔ اسی دوران لاہور میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صوبے میں ریستوران اور شاپنگ مالز بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے لوگوں سے دو روز کے لئے گھروں میں رہنے کی اپیل کی۔ اسی قسم کا اعلان بلوچستان کی حکومت نے بھی کیا ہے۔
ان اعلانات کے باوجود ان دونوں صوبوں میں دکانیں بند رکھنے کے احکامات پر پوری طرح عمل نہیں ہوسکا۔ اگرچہ تاجروں کی تنظیمیں اتوار سے زیادہ سختی سے ان پابندیوں پر عمل کرنے کا وعدہ کررہی ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی طرف سے سہ روزہ رضاکارانہ آئسولیشن کی درخواست پر بھی جزوی عمل ہوسکا ہے۔ اسی تناظر میں اب سندھ حکومت چاہتی ہے کہ فوج اور وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر گروسری کی دکانوں اور میڈیکل اسٹورز کے علاوہ تمام کاروبار بند رکھنے کی پابندی پر حکومتی طاقت سے عمل کروایا جائے۔ پنجاب، خیبر پختون خوا یا بلوچستان میں ابھی تک ایسے اقدام پر غور شروع نہیں کیا گیا۔
بلاول بھٹو زرداری کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خلاف اس جنگ میں فوری فیصلے کرنے اور انہیں نافذ کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ عمران خان اور وفاقی حکومت اس حوالے سے مسلسل تساہل اور بے یقینی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ اس رویہ کے سبب عوام میں آگاہی کی مہم بھی بے اثر رہتی ہے۔ اگر ملک کا وزیر اعظم ہی لاک ڈاؤن کے خلاف ایسے دلائل دے گا جو حقیقت حال کے خلاف ہوں تو عام لوگوں کو عذر تراشنے اور پابندیوں سے گریز کا کوئی نہ کوئی بہانہ مل جاتا ہے۔
اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ گزشتہ چند روز کے دوران کورونا وائرس تیزی سے پھیلنے کے باوجود ابھی تک وفاقی یا صوبائی حکومتوں نے مساجد اور مدرسوں پر کوئی پابندی عائد نہیں کی ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے علاوہ ترکی سمیت متعدد ممالک مساجد کو بند کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے اکثر ملکوں کے علاوہ متعدد اسلامی ملکوں میں جمعہ کے اجتماعات منعقد نہیں ہوئے اور مساجد کو نمازیوں کے لئے بند کردیا گیا ہے۔ حتی کہ سعودی حکام نے مسجد نبوی کو مکمل طور سے بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس مقدس مسجد کی طرف جانے والے تمام راستے بلاک کردیے اور مسجد کے احاطہ تک بھی لوگوں کو آنے سے منع کردیا گیا ۔ مسجد نبوی میں ادا کی جانے والی نماز جمعہ میں صرف مسجد کا عملہ ہی شریک ہوسکا تھا۔
اس کے برعکس پاکستان میں تمام مساجد میں جمعہ کے اجتماعات منعقد ہوئے ۔ اسی طرح نمازوں کے لئے بھی مساجد کھلی رکھی جارہی ہیں۔ بعض مولوی یہ پیغام عام کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ مساجد میں بڑے اجتماعات منعقد کرکے اور مل کر دعائیں مانگنے سے کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکا جاسکتا ہے۔ حالانکہ سعودی عرب کی حکومت اور علمائے دین کے فیصلہ کے علاوہ پاکستان و دیگر ممالک کے متعدد علمائے دین واضح کرچکے ہیں کہ وبا کی موجود صورت حال میں مساجد میں اجتماعات سے زیادہ یہ اہم ہے کہ لوگ اپنی جان بچانے کے لئے حفاظتی اقدامات کریں۔ پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر قبلہ ایاز بھی چند روز پہلے ایک انٹرویو میں ایسے ہی خیالات کا اظہار کرچکے ہیں۔
پاکستان میں مذہب کے ساتھ وابستہ انتہا پسندی اور ضعیف الاعتقادی کی وجہ سے حکومت نے اس واضح رائے اور دوسرے اسلامی مماک کی مثال کے باوجود مساجد بند کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ اس کے برعکس وزیر اعظم اور ان کے مشیر تسلسل سے علمائے کرام سے دعائیں کرنے اور اس موقع پر حکومت سے تعاون کرنے کی درخواست کرتے رہے ہیں۔ اس کی سب سے افسوسناک مثال گزشتہ ہفتہ کے دوران عمران خان کی تبلیغی عالم مولانا طارق جمیل کے ساتھ وزیر اعظم ہاؤس میں ملاقات تھی۔ یہ ملاقات مولانا طارق جمیل کے اس ویڈیو پیغام کے اگلے ہی روز ہوئی تھی جس میں وہ یہ دعویٰ کررہے تھے کہ چھوت چھات کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے۔ موت برحق ہے اور اس کا وقت بھی معین ہے۔
مولانا کا یہ بیان کورونا وائرس کے حوالے سے سماجی تنہائی کے مشورہ کی روشنی میں سامنے آیا تھا۔ ملک کے وزیر اعظم ایک ایسے عالم سے ملاقات کرکے ان سے وائرس کے خلاف ’مدد‘ فراہم کرنے کی درخواست کررہے تھے۔ ملک کے علما اس حد تک حکومت کی مدد کرسکتے تھے کہ دنیا بھر میں پھیلنے والی اس وبا کی روک تھام کے لئے کی جانے والی کوششوں کا حصہ بنتے ہوئے ازخود مساجد اور مدارس بند کرنے کا اعلان کرتے۔ حکومت کی طرح ملک کے علما اور آئمہ حضرات بھی یہ اقدام کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ ملک میں اس وقت کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ کسی بھی قسم کا سماجی اجتماع اس وائرس کی شدت میں اضافہ کا سبب بنے گا۔ اس لئے صرف ریستوران، دکانیں اور شاپنگ مالز ہی بند کرنا کافی نہیں ہوگا بلکہ حکومت کو فوری طور سے ملک بھر کی مساجد کو بند کرنے کا اعلان کرنا ہوگا۔ لوگوں کو مشورہ دیا جائے کہ وہ اپنے گھروں میں پنجگانہ نماز کا اہتمام کریں۔
حکومت کی سستی اور بدانتظامی ہی کی وجہ سے ایران سے آنے والے زائرین کو پہلے تافتان میں روکا گیا ۔ اس دوران ان کا ٹیسٹ کرنے اور وائرس کے متاثرین کو علیحدہ کرنے کی بجائے انہیں تافتان کے کیمپ میں انتہائی ابتر حالات میں رکھا گیا۔ اس بات کا کافی حد تک امکان ہے کہ کیمپ میں موجود تمام لوگ اس دوران وائرس کا شکار ہوچکے تھے۔ دو ہفتے نام نہاد قرنطینہ میں رکھنے کے بعد ان لوگوں کو ان کے آبائی صوبوں میں پہنچا دیاگیا جہاں وہ کورونا وائرس پھیلانے کا سبب بنے ہیں۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا ابھی تک اپنی نگرانی میں قائم ہونے والے اس کیمپ میں رونما ہونے والے حالات اور وہاں سے زائرین کو غیر ذمہ دارانہ طور سے صوبوں میں بھیجنے کی ذمہ داری قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ بلکہ وہ اب بھی تافتان کے تجربہ کو اپنا ’کارنامہ‘ قرار دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ وزیر اعظم نے فوری طور پر ایسے نااہل اور غیر ذمہ دار شخص کی جوابدہی کرنے کی بجائے انہیں ابھی تک کورونا وائرس کی روک تھام کے لئے حکمت عملی کا مدار المہام بنایا ہؤا ہے۔ حیرت ہے جو شخص کورونا کی صورت حال کو خراب کرنے کا سبب بنا ہے ، وہ کیوں کر اس کی روک تھام کرنے کا اہل ہوسکتا ہے۔
کووڈ۔ 19 کے حوالے سے پاکستان کو اس وقت دو بنیادی خطرات کا سامناہے۔ ایک تو اس معاملہ پر افواہ سازی اور غلط معلومات پھیلانے کا چلن عام ہے۔ بدقسمتی سے سوشل میڈیا کے علاوہ ملک کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے بعض عناصر بھی اس مہم کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے دوسرا خطرہ یہ ہے کہ ان لوگوں کی تعداد کا کوئی علم نہیں ہے جو کورونا وائرس کا شکار ہوچکے ہیں لیکن معاشرہ میں نارمل زندگی گزاررہے ہیں اور سماجی ملاقاتوں سے گریز نہیں کرتے۔ نہ ان لوگوں کی تعداد کا اندازہ ہے اور نہ ہی یہ علم ہے کہ یہ کہاں کہاں موجود ہیں اور کس کس کو وائرس میں مبتلا کرسکتے ہیں۔
ان دونوں خطرات سے نمٹنے کے لئے قومی سطح پر فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو انفرادی طور سے اور میڈیا کو بطور ادارہ غیر مصدقہ اطلاعات پھیلانے سے گریز کرنا چاہئے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ درست معلومات کی باقاعدگی سے فراہمی کا شفاف اہتمام کرے۔ وائرس کے نامعلوم کیرئیرز سے پہنچنے والے نقصان سے بچنے کے لئے فوری طور سے لاک ڈاؤن کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس حوالے سے عوام کو بہتر اور فوری معلومات فراہم کی جائیں۔ ا س طریقہ پر فوری عمل شروع نہ ہؤا تو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے کرفیو نافذ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments