سُرخ موت کا رقص


تلخیص و ترجمہ: آصف فرّخی

سارے دیس پر سُرخ موت کا سایہ تھا۔ سرخ موت، شہر شہر گلی گھوم رہی تھی۔ کوئی اس سے محفوظ نہ تھا۔ کسی قاتل کی کبھی ایسی دہشت نہ چھائی ہوگی، نہ کوئی جلاّدایسا سفّاک ہوا ہوگا۔

سرخ موت آناً فاناً وار کرتی، اچانک اور ناگہانی۔ اس کے شکار ہونے والوں کے تیز درد اُٹھتا اور چکّر آنے لگتے اور اس کے بعد پھر وہ ہولناک علامت ظاہر ہوتی جس کی وجہ سے اس وبا کا نام ’’سرخ موت‘‘ رکھا گیا تھا۔ اس کا شکار ہونے والوں کا خون رسنے لگتا۔ بڑی بھیانک کیفیت تھی۔ ایسا معلوم ہوتا کہ سارے بدن کی کھال میں سوراخ ہوگئے ہیں اور خون ایک ایک مسام سے بہا جارہا ہے۔ یہ دیکھنے کی تاب لانا بھی ممکن نہیں تھا کہ تڑپتے ہوئے لوگ فرش پر ڈھیر ہو جاتے اور اذیّت کی شدّت کے مارے چیخنے لگتے۔ آدھے گھنٹے کےا ندر ان کا سانس اُکھڑ جاتا اور اُن کا دم نکل جاتا۔ مرنے والوں کے چہرے خون سے سرخ ہو جاتے، کیوں کہ یہی سرخ موت کا نشان تھا۔

کسی کو معلوم نہ تھا کہ اس کا سبب کیا ہے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس کا علاج کیسے کیا جائے۔ اور کسی کو خبر نہ تھی کہ وہ اگلا وار کہاں اور کس پر کرے گی۔ لوگ ہر وقت اس کے خوف اور مستقل عذاب میں رہتے۔

لیکن ایک جی دار ایسا بھی تھا جس کو سرخ موت کی مطلق پروانہ تھی۔ اس کا نام تھا شہزادہ پروسپرو۔ دولت مند اور سیر و تفریح کا دلدادہ شہزادہ اپنی عیش و عشرت کی زندگی کے معمولات کو اسی طرح جاری رکھے رہا اور چاروں طرف لوگ موت کا لقمہ بنے جارہے تھے۔ شہزادے کو تو جیسے خبر ہی نہیں تھی۔

سُرخ موت لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارے چلی جارہی تھی۔ آخر کار شہزادے کو بھی اندازہ ہوگیا کہ اس کے آدھے سے زیادہ نوکر چاکر خدمت گار مر چکے ہیں اور اس کے بہت سے دوست بھی اس دنیا سے اُٹھ گئے ہیں۔

لیکن خوف یا غم کا اظہار کرنے کے بجائے، شہزادے نے اس خبر کو سُن بھی اپنے مخصوص انداز میں یوں ہی ٹال دیا۔ ’’میں بڑی بھاری دعوت رچائوں گا‘‘ اس نے کہا۔ ’’چھے مہینے جاری رہنے والی دعوت، جس میں ہم سب اس بیکار کی ’’مصیبت‘‘ کو بھول جائیں گے۔‘‘

لہٰذا شہزادے پروسپرو نے دربار کے امرا اور رئوسا اور ان کی بیگمات کو بُلاوے بھیجے۔ ’’ہم اس اداس اور سوگوار شہر سے باہر نکل جائیں گے، اس نے کہا۔ ’’گائوں میں میرا محل ہے۔ ہم وہاں کا رخ کریں گے۔‘‘

دربار کے امرا و رئوسا کے لیے اس سے زیادہ خوشی کی اور کیا بات ہوسکتی تھی کہ شہزادے کے پیچھے پیچھے اس محل میں چلے جائیں جو سب سے الگ تھلگ ایک دور اُفتادہ علاقے میں واقع تھا۔ سب کا خیال تھا وہاں پہنچ کر وہ سرخ موت کے خطرے سے محفوظ ہو جائیں گے اوراس کو بھول جائیں گے۔

شہزادے کا محل بہت شان دار تھا۔ اونچا، پُرشکوہ اور قدیم۔ لیکن آس پاس کی ویرانی کی وجہ سے بالکل سنسان معلوم ہوتا۔ اس کے چاروں طرف مضبوط اور اونچی فصیل کھنچی ہوئی تھی جس میں لوہے کے پھاٹک تھے۔ جب تمام مہمان محل کی فصیل کے اندر داخل ہوگئے تو شہزادے نے حکم دیا کہ پھاٹک بند کر دیے جائیں اور اُن پر قفل چڑھا دیے جائیں۔ اب سرخ موت یہاں داخل نہیں ہوسکتی۔ اس نے ہنس کر کہا۔ ’’باقی دنیا اس سے نمٹتی رہے!‘‘ اس کے ساتھیوں نے بھی اس کی تائید کی۔ پھاٹکوں پر قفل چڑھا دیے گئے اور فصیل کو بند کر دیا گیا۔

محل کے اندر شہزادے نے بہت دن تک رہنے کا سامان مہّیاکیا ہوا تھا۔ کھانے پینے کی چیزیں بہت افراط سے تھیں۔ نوکر چاکر بہت تھے کہ مہمانوں کی معمولی سے معمولی ضرورت کا خیال رکھیں۔ موسیقار موجود تھے کہ سبھا سجا سکیں اور ماہر کلاونت کہ روز شام کو محفل گرم رہے۔ پڑھنے کے لیے کتابیں تھیں اور مسخرے موجود تھے کہ لوگوں کو ہنساتے رہیں اور کس چیز کی کمی تھی؟ سب کا خیال تھا کہ جب تک کہ وبا کا زور ٹوٹ نہیں جاتا، وقت گزارنے کا اس سے بہتر طریقہ نہیں ہوسکتا، اور نہ اس سے بہتر کوئی جگہ ہوسکتی ہے۔ یہاں محل کی اونچی فصیل کے اندر ہر شخص خوش تھا اور مطمئن اور محفوظ تھا۔

یہ دعوت چھے مہینے تک چلتی رہی، گاہے بگاہے شہزادے کو اطلاع ملتی رہتی کہ سرخ موت سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ سرخ موت کا قہر اور بڑھ گیا ہے۔ لیکن ایسی کوئی خبر محل کے اندر مہمانوں کے رنگ میں بھنگ نہیں ڈال سکتی تھی۔ وہ کھانے پینے، مَزے اُڑانے میں دن بھر مشغول رہتے۔

ان کو تکلیف تھی تو بس اتنی کہ حد سے زیادہ تفریح سے بھی اُکتاہٹ ہونے لگتی ہے۔ ان کو بیزاری سے بچانے کے لیے شہزادے نے ایک اور دلچسپی کا ڈول ڈالا۔ اس نے اپنے مہمانوں سے کہا کہ ہم نقاب پوش رقص کا اہتمام کریں گے۔ ہم بہت بڑے پیمانے پر ایسے رقص کی محفل سجائیں گے جس میں تمام مہمان بھیس بدل کر اور بہروپ بھر کر آئیں گے اور محل کے بارے مہمان اس میں شریک ہوں گے۔

محل کے مہمانوں میں اس خبر سے خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ دربار کے امیر اور رئیس اور ان کی بیگمات بڑے جوش و خروش سے یہ طے کرنے میں جُٹ گئے کہ وہ کون سا سوانگ بھریں گے اور کس بھیس میں جائیں گے، خوب تیاریاں ہونے لگیں۔

آخر کار وہ دن بھی آگیا جب نقاب پوش رقص ہونا تھا۔ محل کے پرانے حصّے میں سات وسیع و عریض رقص گاہیں تھیں۔ شہزادے نے فیصلہ کیا کہ رقص کا اہتمام انہی میں کیا جائے۔ رقص کے لیے استعمال ہونے والے یہ سات کمرے ایک کے بعد ایک واقع تھے اور ان کی اونچی لمبی کھڑکیاں آس پاس کے دیہات کی طرف کھلتی تھیں بلکہ ایک اور راہداری پر کھلتی تھیں جس کو بند کر دیا گیا تھا۔ کمروں میں روشنی کے لیے دیوار میں مشعلیں لگی ہوئی تھیں۔ جب مشعلیں جل اُٹھتیں تو اُن کے بھڑکتے شعلوں کی وجہ سے ایک عجیب سا تاثر پیدا ہو جاتا۔

ہر کمرے کے در و دیوار ایک الگ رنگ کے تھے، اور اسی رنگ کے پردے اوردیوار گیر تصویریں مزیّن تھیں۔ پہلا کمرہ نیلا تھا، دوسرا کمرہ عُنّابی، تیسرا سبز، چوتھا نارنجی، پانچواں سفید اور چھٹا کاسنی۔ ہر کمرے کی اونچی اونچی پتلی پتلی کھڑکیوں میں رنگین شیشے جڑے ہوئے تھے جن کا رنگ دیواروں کے رنگ جیسا تھا۔

’’کمروں کو اس طرح سجانا بھی کیسی عجیب بات ہے۔‘‘ ایک خاتون نے کہا۔ ’’شہزادے کا ذوق بہت غیر معمولی ہے!‘‘

لیکن ساتواں کمرہ ایسا تھا کہ سارے مہمانوں کو سب سے زیادہ عجیب معلوم ہوتا تھا۔ اس کمرے کی دیواریں سیاہ پوش نظر آتی تھیں۔ دبیز سیاہ مخمل کی طویل، دیوار گیر تصویریں فرش تک آتی تھیں، جہاں سیاہ رنگ کاقالین بچھا ہوا تھا۔ یہ واحد کمرہ تھا جہاں کھڑکیوں کا رنگ کمرے کی دیواروں جیسا سیاہ نہیں تھا۔ سیاہ رنگ کے بجائے ساری کھڑکیوں کا رنگ سرخ تھا، اتنا سُرخ جیسے خون۔

اس ساتویں کمرے میں ایک اورعجیب چیز تھی۔ ایک دیوار کے ساتھ دیوقامت گھڑیال تھا جو آبنوس کا بنا ہوا تھا۔ اس کا پینڈولم سونے کا بنا ہوا تھا، اور آگے پیچھے حرکت کرتا ہوا لمحوں کا حساب رکھتا۔ لیکن جب گھنٹہ پورا ہو جاتا تو اس میں ایسی آواز آتی کہ رقص کرنے والے تمام لوگ تھم جاتے۔ ان کے چہرے فق ہو جاتے۔ موسیقار اپنے ہاتھوں میں وائلن تھامے رہ جاتے اور چور نظروں سے ایک دوسرے کی طرف تکنے لگتے۔ وہ دل ہی دل میں قسم کھاتے کہ اگلا گھنٹہ پورا ہوگا تو وہ خوف زدہ نہیں ہوں گے۔ لیکن ہر مرتبہ ایسا ہوتا کہ گھنٹہ بجنے کا وقت جوں جوں  قریب آنے لگتا، ان کے دل ایک بار پھر سہم جاتے۔

لیکن اس عجیب، اندھیرے ساتویں کمرے اور اس بھیانک آواز والے گجر کے باوجود، رقص گاہوں میں جیسے میلا لگا ہوا تھا۔ جشن کا سماں تھا۔ لوگ نت نئے بھیس بدل کر اور زرق برق پوشاکیں پہن کر آئے تھے، اور مشعلوں کی روشنی میں رقص گاہ کے فرش پر ایسے حرکت کر رہے تھے جیسے ہوا میں اُڑ رہے ہوں۔ خوشی سے بھرے قہقہوں اور دلچسپ گفتگو کی آوازوں سے چھے کمرےبھرے ہوئے تھے۔ مگر جو بھی مہمان ساتویں کمرے کو ایک نظر دیکھ لیتا، دوبارہ اس طرف کا رخ بھی نہ کرتا۔

شہزادہ پروسپرو اس محفل میں سب سے زیادہ لُطف اندوز ہو رہا تھا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ وہ ہر شخص سے زیادہ خوش ہے۔ اس کا تو انداز ہی یہی تھا۔ ’’سب ٹھیک تو ہے نا؟‘‘ وہ ایک ایک مہمان کے پاس جاکر پوچھتا۔ آپ کچھ کھانا پسند کریں گے؟ وہ مہمانوں کی تواضع کر رہا تھا۔ وہ ہر طرف نظر آرہا تھا۔ نقاب پوش رقص واقعی بہت کامیاب جارہا تھا۔ کئی برس سے ایسی بارونق تقریب نہ ہوئی تھی۔

خوشی کے موقعوں پر وقت تو جیسے ٹھہرتا ہی نہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پَر لگا کر اُڑ گیا۔ چنانچہ اس محفل کے مہمان بھی حیران رہ گئے۔ جب ساتویں کمرے کا عجیب و غریب گجر آدھی رات کی صدا دینے لگا۔ گجر کی آواز پہلے سے بھی زیادہ ہولناک تھی۔ ایک، دو، تین، چار ….. چوتھی آواز پر موسیقاروں نے ساز روک دیے، مہمان دم بخود کھڑے اس کی آواز سن رہے تھے …. پانچ، چھے، سات …… گجر کی آواز ساتویں کمرے سے نکل کر سارے محل میں پھیلتی جارہی تھی۔ رقص گاہوں کی دیواروں سے ٹکرا کر گونج رہی تھی۔

شاید اس لیے کہ سب لوگ ساکت کھڑے تھے یا شاید اس وجہ سے کہ چاروں طرف سنّاٹا تھا، لیکن وجہ کوئی بھی ہو، گجر پورے بارہ بجا چکا تو جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ پھر اچانک پہلے کمرے سے حیرت کی آواز بلند ہوئی اور دبی دبی سرگوشیاں پھیلنے لگیں۔ حیرت کی وجہ یہ تھی کہ رقص گاہ کے عین بیچوں بیچ، فرش پر ایک نقاب پوش موجود تھا۔ جسے اس سے پہلے کسی نے بھی نہیں دیکھا تھا اور جیسے جیسے مہمان اس کی طرف متوجّہ ہوتے گئے ان کی حیرت خوف میں بدلتی گئی جس کی بھی نظر اس پر پڑ جاتی، اس کے حلق سے خوف کی گھُٹی گھُٹی چیخ نکل جاتی۔

شہزادے نے اپنے مہمانوں سے یہ تو کہا تھا کہ نت نئے بہروپ بھر کر اور عجیب و غریب پوشاکیں پہن کر آئیں ___ جو خوب صورت ہوں یا عجیب یا مزاحیہ۔ مگر یہ ____ یہ تو حد ہوگئی! اس کا تو یقین ہی نہیں آتا تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے!۔

وہ لمبا تڑنگا نقاب پوش رقص گاہ کے فرش کے بیچوں بیچ اکیلا کھڑا تھا اور اس کے کاندھوں پر سرمئی رنگ کا لبادہ تھا۔ اس نے اپنے چہرے پر جو نقاب پہن رکھا تھا وہ کسی لاش جیسا تھا، گویا وہ اپنی قبر سےا بھی ابھی اُٹھ کر آیا ہو۔ شاید یہ لبادہ اور نقاب بھی اس محفل کے مہمان یہ سمجھ کر برداشت کر لیتے کہ جو مہمان اس نقاب کو اوڑھے ہوئے ہے اس کا مذاق ذرا سنگین ہے، مگر اس نقاب میں ایک بات بہت عجیب تھی۔ اس لاش کے نقاب پر سرخ نشان تھے __ جیتے جیتے لہو کے نشان سرخ موت کے نشان!

شہزادہ پروسپرو دوسرے کمرے میں تھا، وہ اس کمرے میں آگیا کہ اس اچانک خاموشی کا سبب معلوم کرے۔ جب اس نے نقاب پوش کر دیکھا تو وہ غصّے سے بپھر گیا۔ ’’کون گستاخ ہے جو اس طرح میری اور میرے مہمانوں کی توہین کر رہا ہے؟‘‘ وہ دھاڑا۔ ’’کون بدبخت ہے جو میرے محل میں ایسی بدشگونی کر رہا ہے؟‘‘

پھر شہزادے نے مُڑ کر مہمانوں کی طرف دیکھا ’’پکڑ لو اسے!‘‘ اس نے چیخ کر کہا۔ ’’اس کے چہرے سے نقاب نوچ ڈالو، اسے اس کے جرم کی پاداش میں پھانسی پر چڑھا دیا جائے گا!‘‘

ایک آدھ مہمان آگے بڑھا مگر وہ نقاب پوش خود دھیرے دھیرے آگے بڑھنے لگا۔ اس جانب جہاں شہزادہ کھڑا تھا۔ جو مہمان اس کو روکنے کے لیے آگے بڑھا وہ دوچار قدم آگے بڑھا کر خود ہی رُک گیا۔ اس کے قدم من من بھرکے ہوگئے او وہ خوف کے عالم میں ساکت ہوگیا۔ کسی کی ہمّت نہین ہوئی کہ اس کو روک سکے اور وہ نقاب پوش بغیر کسی روک ٹوک کے، ایک سے دوسری رقص گاہ میں گزرتا گیا اور ساتویں کمرے کے دروازے پر پہنچ کر رُک گیا۔

شہزادہ پروسپرو اب اپنی حیرت پر قابو پاچکا تھا۔ اس نے اپنا خنجر نکال لیا اور غصّے میں بھرا ہوا اس کی جانب بڑھا۔

شہزادہ جب نقاب پوش کی طرف آیا تو نقاب پوش نے اپنے چہرے کا رُخ اس کی جانب کر دیا۔ مہمانوں نے ایک چیخ سُنی …. طویل اور تکلیف دِہ چیخ۔ خنجر شہزادے کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑا اور خنجر کے ساتھ ہی شہزادہ بھی فرش پر گر پڑا۔ اس کا جسم بے جان تھا اور اس کے چہرے پر خون کے سرخ نشان تھے۔

چند لمحوں تک تو سارے مہمانوں کو جیسے سکتہ طاری ہوگیا۔ کسی نے حرکت نہ کی۔ پھر دو ایک باہمّت لوگ ذرا چونکے اور سیاہ کمرے کی طرف لپکے۔ وہ بن بلایا اور ہولناک مہمان گجر کے عین سامنے کھڑا تھا۔ ایک شخص نے اس کا لبادہ گھسیٹ لیا اور اس کا نقاب نوچ ڈالا۔

کسی کہ مُنہ سے ایک آواز نہ نکلی۔ کسی کی پلک تک نہ جھَپکی۔ اس لیے کہ اس لبادے اور اس نقاب میں کچھ بھی نہیں تھا۔ کوئی بھی نہیں۔ خالی لبادہ اور نقاب سیاہ فرش پر ڈھیر ہوگئے۔

ایک ایک کرکے مہمانوں پر حقیقت عیاں ہوئی اور وہ خوف کے مارے کچھ کہہ بھی نہ سکے۔ موسیقاروں اور ملازموں کو بھی احساس ہوگیا۔ کسی لٹیرے کی طرح دبے پائوں سرخ موت وہاں پہنچ گئی تھی۔ محل کی اونچی اونچی فصیلیں اس کو روکنے میں کامیاب نہ ہوسکتی تھیں۔ وہ اس نقاب پوش رقص میں بن بُلائے مہمان کی طرح شریک تھی۔

اور پھر موت نے اپنا رقص شروع کر دیا۔ وہ جہاں جہاں سے گزری تھی، لوگ درد کی شدّت سے چیختے ہوئے فرش پر گرنے لگے۔ آدھے گھنٹے کے اندر، رقص گاہوں کا فرش جو موسیقی اور مہمانوں کے بے فکر قہقہوں سے گونج رہا تھا، موت کا بازار بن کر لاشوں سے پٹ گیا۔ لاشوں کے چہروں سے خون بہہ رہا تھا۔

جب اس محفل کا آخری مہمان بھی موت کا شکار ہوگیا تو وہ آبنوسی گجر چلتے چلتے رُک گیا۔ محل کی دیواروں پر جلنے والی مشعلیں زور سے بھڑکیں اور بجھ گئیں۔

اب چاروں طرف اندھیرا تھا اور تباہی اور سرخ موت کا راج۔

ایڈگر ایلن پو
Latest posts by ایڈگر ایلن پو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments