خود سے ملنے کے دن!


چھوت کی بیماری کووڈ 19 پاکستان میں آ چکی ہے اور پھیل رہی ہے۔ روز سینکڑوں نئے مریضوں کی تشخیص ہو رہی ہے ان میں ابھی زیادہ تر وہ ہیں جو حال ہی میں کسی دوسرے ملک سے آئے ہیں۔

ایران سے آئے ہوئے زائرین میں بھی بڑی تعداد میں متاثرین شامل ہیں۔ ملک کے کچھ حصوں میں فی الحال منگل تک لاک ڈاون ہے اور بین الاقوامی پروازیں معطل کی جا چکی ہیں مگر بیماری ملک میں آ چکی ہے۔

وبائیں، جنگیں، قحط اور خشک سالی، یہ سب انسان نے بارہا دیکھیں اور ہر بار انسان اس ابتلا سے پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر نکلا۔

انسانی جسم کا دفاعی نظام، وائرس کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کووڈ 19 سے بھی زیادہ تر کمزور دفاعی نظام کے افراد فوت ہوئے۔ باقی اسے شکست دے کر صحت یاب ہوئے۔

چین نے مبینہ طور پر ووہان سے، جہاں سے یہ وبا پھوٹی، اسے ختم کر دیا ہے مگر باقی دنیا کے سر پر ابھی یہ وبا مسلط ہے۔ پاکستان پر بھی اس کے مہیب اور منحوس سائے منڈلا رہے ہیں۔

مشکلات انسان کو بہت کچھ سکھا کر جاتی ہیں۔ آزمائش کی اس گھڑی میں بہت سی باتیں سامنے آئی ہیں۔ ہمارا معاشرتی ڈھانچہ ایسا ہے کہ غریب طبقے کو ریاست سے زیادہ، متوسط اور اوپری متوسط طبقہ سنبھالے ہوئے ہے۔

اس وقت میں بھی بہت سے لوگوں نے اپنے ملازمین کو تنخواہ کے ساتھ چھٹیاں دے دی ہیں تاکہ وہ اپنے گھروں میں رہیں۔ راشن بھی دلوایا ہے کیونکہ ان گھروں کے کھانے کا بہت سا بوجھ بھی متوسط طبقہ اٹھائے ہوئے ہوتا ہے۔

مزدوروں اور یومیہ اجرت والوں کی بھی جس قدر ممکن ہو مدد کی جا رہی ہے۔ اپنی مدد آپ، رضاکار اور سماجی تنظیمیں بھی فعال ہیں۔ ہر متوسط گھرانے کے ساتھ دو، تین یا کم سے کم ایک غریب گھرانہ، بطور گھر کی ماسی، باورچی یا ڈرائیور کے منسلک ہے۔

یہ گھرانے ہمیشہ سے ان غریب گھروں کا بہت سا بوجھ بانٹے ہوئے ہیں۔ آج بھی جب ارباب حل و عقد جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی انتہائی بیگانگی سے ہاتھ جوڑ جوڑ کر کہہ رہے ہیں کہ خدا کے لیے بیمار ہو تو ہمارے پاس نہ دوڑے چلے آنا تو یہ غریب لوگ، ڈرے ہوئے، ’باجی‘ یا ’بھائی صاحب‘ کے پاس بیٹھے سوال کر رہے ہیں کہ یہ بیماری ہے کیا؟ اور اب ہمارا کیا ہو گا کالیا؟

گھریلو ملازمین کو تسلی بھی مل رہی ہے اور کچھ نہ کچھ امداد بھی مگر روزانہ اجرت پر کام کرنے والا مزدور طبقہ سہما ہوا ہے۔ لاک ڈاون کے دنوں میں یہ ہی طبقہ پسے گا۔ یہ طبقہ کسی کی ’رعیت‘ نہیں اور ریاست پہلے ہی ہاتھ جوڑ چکی ہے۔

خدا ان لوگوں کو بھی اپنی امان میں رکھے۔ آنے والے دن نجانے کتنے سخت ہوں گے؟ افواہوں سے گریز کیجیے۔ فساد جوتنے سے باز رہیے اور خوف و ہراس مت پھیلایے۔

جیسے اچھے دن پلک جھپکتے میں گزر جاتے ہیں، برے دن بھی گزر جائیں گے۔ قدرت کا اپنا نظام ہے۔ اس کا نظام چل رہا ہے۔ ہمارے اختیار میں فقط صبر اور احتیاط ہے۔

احتیاط کیجیے، زندگی آج بھی خوبصورت ہے، اس کی خوب صورتیوں پر نظر کیجیے۔ گھر ہماری پناہ گاہ ہے، اس پناہ گاہ کی قدر کیجیے۔ چند روز کو جو یہ موقع ملا ہے اس کا فائدہ اٹھائیں، اپنے گھر میں رہیے۔ لوگوں سے ملنا جلنا ترک کیجیے اور غور کیجیے کہ خود سے ملے کتنا عرصہ گزر چکا ہے؟

بے مقصد دوڑتی بھاگتی زندگی، ذرا دیر کو ٹھہری ہے۔ آپ بھی ٹھہریے اور خود سے ملیے۔ آپ بہت سے لوگوں سے اچھے ہیں خود سے مل کر یقیناً بہت خوشی ہو گی، ذرا مل کر تو دیکھیے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).