کووِڈ نائنٹین: نفسیاتی و سماجی تجزیہ


آج کل جس چیز نے پوری دنیا کو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے وہ کورونا وائرس ڈیزیز (Covid۔ 19 ) ہے جس کا آغاز گزشتہ سال دسمبر میں چائنہ کے شہر ووہان سے ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے عالمی وبائی مرض کی شکل اختیار کر گئی۔ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے معاشی تباہ کاریاں اور سازشی تھیوریاں اپنی جگہ ہیں مگر اس بظاہر کم مہلک بیماری کو جس طرح عالمی میڈیا نے اچھالا ہے اُس سے اکثر مملک جو احتیاتی تدابیر اختیار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں اس چیز نے ایک سماجی المیہ اور بہت سے نفسیاتی مسائل کو جنم دیا ہے جس کا ٹھیک سے ادراک شاید نہیں کیا جا رہا۔ ہمیں اس حوالے سے کچھ اہم پہلووں کا ریاستی اور معاشرتی طور پر سنجیدہ جائزہ لینا چاہیے۔

اکثر ماہرین نفسیات جیسے سگمنڈ فرائیڈ، ایرک ایرکسن اور جین پیاژے وغیرہ اس بات پر متفق ہیں کہ زندگی کے ابتدائی چند سال کے اہم واقعات فرد کی زندگی پر بہت دور رس نتائج مرتب کرتے ہیں اور بلوغت میں بہت سے منفی روئیے انہی کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کے شعوری پُختگی کا عمل فرد کی زندگی میں بیس بائیس سال کی عمر میں مکمل ہوتا ہے اور اس سے پہلے شخصیت کے جذباتی پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔ جس طرح سے کورونا کو گھر، آفسز، دوستوں اور میڈیا میں ڈسکس کیا جا رہا ہے اور ایک پینک (Panic) کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے تو یہ ممکن نہیں کہ بچے اور نوجوان اس صوتحال سے متاثر نہ ہوں اور غالب امکان ہے کہ لاشعوری طور اس صورتحال سے خوف و تشویش کا شکار ہوں گے۔ یہ کیفیت ایک طرف ان کی تعلیمی کارکردگی کو کم کرنے کا سبب بنے گی اور ان کی کسی صدمے سے نمٹنے کی صلاحیت یعنی resilience بھی کم ہو سکتی ہے۔

میڈیا کے ذریعے احتیاتی تدبیر کے طور پر بار بار ہاتھ دھونے کے پیغام سے جہاں لوگوں کو صحت کے حوالے سے فائدہ ہو گا وہیں اس میسج کا ایک نفسیاتی پہلو یہ بھی ہے کہ جو لوگ پہلے سے vulnerable ہیں اُن میں یہ عادت ایک جبری عمل یعنی Obsessive Compulsive Disorder کی شکل اختیار کر سکتی ہے جس سے بعد ازاں ان کی گھریلو اور معاشرتی زندگی مسائل کا شکار ہو گی۔

جو لوگ کسی آفت یا صدمے کا شکار ہوئے ہوں تو ان میں اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ مستقبل میں کسی ایسی یا ملتی جلتی صورتحال دیکھیں تو فورًا اُسی تناؤ اور خوف کا تجربہ کریں۔ ویت نام وار کے بعد واپس جانے والے بہت سے امریکی فوجی اس کیفیت کا شکار رہے ہیں۔ نفسیات کی زبان میں اس عارضے کو Post Traumatic Stress Disorder (PTSD) کہتے ہیں۔ پاکستان میں 2005 کے زلزلے بعد بھی ایسے بہت سے کیس سامنے آئے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو لوگ ڈائریکٹ کورونا وائرس کا شکار ہونے کے بعد survive کریں گے تو ان میں سے کئی PTSD کا سامنا بھی کریں گے۔

ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ کورونا سے بچاؤ کے لئے ضروری ہے کہ جو لوگ زکام کا شکار ہوں ان سے دوری رکھی جائے۔ صورتحال ابھی سے یہ ہو چُکی ہے کہ اگر کوئی کسی بھی وجہ سے چھینک لے تو اسے شک کی نظر سے دیکھا جانے لگا ہے جیسے وہ شخص کورونا کا مریض ہو۔ اگر یہ کیفیت زیادہ دن رہی تو کئی لوگوں میں تشکیکی مزاج شدت اختیار کر سکتا ہے اور وہ بعد میں پیرانائیڈ پرسنیلٹی بن کر اپنی اور اپنے حلقہ احباب کے لئے مشکلات کا سبب بنیں گے۔

انسان کیونکہ فطری طور پر معاشرتی جانور ہے تو لوگوں سے کورونا کے ڈر سماجی روابط میں گریز کچھ لوگوں میں ڈپریشن اور تشویش کے نفسیاتی امراض کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ زیادہ عرصہ کورونا کے خوف کے ردعمل کے طور پر چڑچڑاپن اور غصہ جیسے رویے شدت اختیار کر جائیں جن کا منفی اثر فیملی اور ملازمت یا کاروبار سے وابستہ لوگوں پر بھی پڑے گا۔ بچے چونکہ بڑوں سے بذریعہ تقلید سیکھتے ہیں تو ان میں بھی جارحیت بڑھ سکتی ہے۔

یہ تو تھے کچھ ممکنہ نفسیاتی مسائل جو کورونا کی موجودہ وبائی صورتحال کے نتیجے میں سامنے آسکتے ہیں اب ذرا سماجی حوالے سے بھی تھوڑا جائزہ لیتے ہیں۔

معاشرہ کے سب سے اہم پہلووں میں سماجی اور مذہبی اقدار کے علاوہ ثقافتی سرگرمیاں شامل ہوتی ہیں۔ اگر یہ پہلو متاثر ہوں تو یقینی بات ہے کہ معاشرتی ڈھانچہ وہ نہیں رہے گا جو اس وقت ہے۔ کورونا کے خوف والا ماحول ان تمام پہلووں کو متاثر کر تا نظر آرہا ہے۔ جب دو اخلاقی اقدار میں ٹکراؤ ہو تو ایک اخلاقی المیہ جنم لیتا ہے مثلا کورونا سے بچاؤ کے لئے ہاتھ نہ ملانا وبائی صورتحال میں اخلاقی طور پر جائز ہے جبکہ دوسری طرف گرم جوشی اور محبت کے اظہار کے لئے ہاتھ ملانا بڑی اہم سماجی، اخلاقی و مذہبی قدر ہے تو یہ صورتحال بعض لوگوں کے لئے اخلاقی المیہ بن کر بے چینی اور ذہنی پریشانی کا سبب بنے گی۔

کسی بھی آفت کے دنوں میں ٹونے ٹوٹکے، افواہیں پھیلانے اور غیر سائنسی طریقہ علاج بتانے والے متحرک ہو جاتے ہیں جس کے ردعمل کے طور کمزور عقائد والے لوگ توہم پرستی کی طرف یقیناً مائل ہوں گے اور معاشرتی پس ماندگی میں اضافے کا سبب بنیں گے۔

تمام سماجی سرگرمیوں میں بہت سے افراد کا میل جول ہوتا ہے جبکہ موجودہ وبائی صورتحال پر کنٹرول کے لئے تمام سماجی سرگرمیوں پر قانونی پابندیاں پوری دنیا اور اب پہلی دفعہ پاکستان میں بھی نافذ ہو رہی ہیں جسے اگرچہ ابھی لوگ آسانی سے قبول نہیں کر رہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ چیز ایک سماجی نارم بھی بن سکتی ہے کہ اپنے بچاؤ کے لئے کم سے کم سماجی میل جول رکھا جائے۔

یہ سب پہلو ہماری موجودہ معاشرتی نظام کو کافی حد تک ضرور بدلیں گے۔ ان حالات میں کُچھ اہم اقدامات بہت سے لوگوں کو نفسیاتی مسائل اور اخلاقی المیہ سے بچانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ مثلا قرنطینہ سنٹرز اور ہسپتال جہاں کورونا کے مریض موجود ہوں ان کی کونسلنگ کے لئے کوالیفائیڈ سائیکالوجسٹ کی موجودگی لازمی قرار دی جانی چاہیے۔ میڈیا کے ذریعے مختلف پروگرامز میں بھی سائیکالوجسٹ کے تجزیے اور رائے کو عوامی آگاہی کے لئے شامل کیا جانا چاہیے۔

سکولز اور کالجز کھلنے کے بعد مہینے میں کم از کم ایک دفعہ وہاں طلبہ اور ان کے والدین کے لئے سائیکاجسٹ اور سوشیالوجسٹ کے مینٹل ہیلتھ اور سماجی آگہی کے حوالے سے سیمنارز کا اہتمام ہونا چاہیے اور مستقبل میں ہر تعلیمی ادارے میں بچوں اور نوجوانوں کے کرداری و نفسیاتی مسائل کی کونسلنگ کے لئے سائیکالوجسٹ کی مستقل تعیناتی کے لئے لائحہ عمل بنایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments