وبا پر سیاست کرنے والے عمران خان قوم کا ’اعتماد‘ چاہتے ہیں


ایک ایسے وقت میں جبکہ پاکستان کے ہر صوبے میں کووڈ۔19 کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، ملک کا وزیراعظم فیصلہ کن اقدامات کرنے اور نقل و حمل کی مناسب پابندیاں عائد کرنے میں صوبائی حکومتوں کا ساتھ دینے میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ عمران خان نے آج قوم سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر اصرار کیا کہ حکومت لاک ڈاؤن نہیں کرسکتی کیوں کہ اس کے پاس وسائل نہیں ہیں اور غریبوں کو گھروں میں بند کرکے ان کے روزگار سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
گزشتہ روز ملک کی دونوں بڑی اپوزیشن پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا تھا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے فوری طور سے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کیاجائے تاکہ ایک بار اس وائرس کو روکا جاسکے ۔ کورونا وائرس پھیلنے کا جو پیٹرن اب تک سامنے آیا ہے، اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ جب معاشرے میں ایسے نامعلوم لوگ موجود ہوں جن کی وجہ سے وائرس دوسرے لوگوں کو منتقل ہورہا ہو تو فوری طور سے لاک ڈاؤن کے ذریعے لوگوں کو گھروں میں محدود رکھ کر اس کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ چین، جنوبی کوریا ، سنگاپور اور جاپان نے اس طریقہ کو کامیابی سے آزمایا ہے اور اٹلی، سپین ، فرانس کے بعد اب یورپ کے اکثر ملکوں میں جزوی یا مکمل لاک ڈاؤن کے ذریعے کووڈ۔ 19 کا مقابلہ کیا جارہا ہے۔ امریکہ نے گزشتہ روز تین ریاستوں کیلی فورنیا، الینائز اور نیویارک میں مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ۔ اس طرح بیس فیصد امریکی شہری اس وقت عملی طور سے اپنے گھروں میں بند ہیں۔
امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک چین کی بجائے اٹلی کے المناک تجربہ کی وجہ سے شہریوں کی آمد ورفت روکنے اور انہیں گھروں میں بند رکھنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اٹلی میں یہ مرض تیزی سے خطرناک طور سے پھیلا ہے اور وہاں مرنے والوں کی تعداد ساڑھے پانچ ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ اٹلی کی حکومت ، ماہرین اور عوام یکساں طور سے یہ واضح کررہے ہیں کہ دوسرے ملک ان سے سبق سیکھیں اور اس غلطی کو نہ دہرائیں جس کی وجہ سے اس وقت اٹلی میں کورونا وائرس وحشتناک آفت کی صورت اختیار کرچکا ہے اور ابھی تک یہ اندازہ کرنا ممکن نہیں ہے کہ اس پر کیسے قابو پایا جائے گا۔ اٹلی میں شروع میں لاپرواہی کی سب سے بڑی وجہ وہاں کا سماجی رکھ رکھاؤ ہے۔ وہاں لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہوئے گرمجوشی سے معانقہ کرتے ہیں اور اہل خاندان شام کے کھانے پر اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریستورانوں، شراب خانوں اور کلبوں میں جمع ہونے اور بھرپور سماجی زندگی گزارنے کا شوق بھی بہت زیادہ ہے۔ ان سماجی عادات کی وجہ سے کورونا وائرس کے ابتدائی کیسز سامنے آنے پر احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی جاسکیں۔ اموات کی کثیر تعداد کی ایک وجہ وہاں معمر آبادی کی کثرت کے علاوہ ہسپتالوں میں گنجائش کی کمی بھی ہے۔ اٹلی کا بہتر نظام صحت بھی مریضوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے مرتے ہوئے لوگوں کو مناسب دیکھ بھال فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہورہا۔
وزیر اعظم عمران خان نے آج قوم سے خطاب کرتے ہوئے ان عوامل پر غور کرنے کی بجائے دنیا بھر میں کورونا کے حوالے سے سامنے آنے والے تجربات کو نظر انداز کیا ہے۔ ان کی تقریر سطحی جذباتیت اور غلط معلومات کا ملغوبہ تھی۔ انہوں نے 2005 کے زلزلے اور 2010 کے سیلاب کا حوالہ دیتے ہوئے قوم کی ہمت و حوصلہ کا ذکر کیا اور کہا کہ یہ باہمت اور بلندحوصلہ قوم کسی بھی آفت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ حالانکہ ملک کے وزیر اعظم کے طور پر انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ایک ایسی وبا سے مقابلہ کا تعلق ہمت و حوصلہ سے نہیں ہوتا جو تیزی سے پھیل رہی ہو اور جس کی ہلاکت خیزی اور انسانی صحت پر اثرات کے بارے میں ابھی تک مکمل معلومات بھی سامنے نہ ہوں۔ مکان گرنے یا سیلاب میں دیہات زیر آب آنے کے بعد انسان محنت و مشقت سے دوبارہ تعمیر اور آباد کاری کا کام کرسکتے ہیں۔ لیکن اگر شہری ایسی وبا کا شکار ہوجائیں جس کا نہ تو کوئی علاج موجود ہو اور نہ ہی ملک کے نظام صحت کے پاس مریضوں کی دیکھ بھال کے وسائل ہوں تو سانس گھٹنے سے اذیت ناک موت کے سوا کسی کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا۔
عمران خان نے قوم سے خطاب میں اپیل کی ہے لوگ ان پر ’پورا بھروسہ ‘ کریں۔ لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ کس بنیاد پر کوئی بھی پاکستانی ایک ایسے وزیر اعظم پر اعتبار کرسکتا ہے جو وبا کا مقابلہ دستیاب معلومات اور طریقہ کار کی بنیاد پر کرنے کی بجائے جذباتی نعروں سے کرنا چاہتا ہے۔ وہ گھمنڈ میں مبتلا اور ’میں نہ مانوں‘ کی رٹ لگاتے ہوئے پاکستان کو انتہائی خوفناک صورت حال کی طرف دھکیلنے کا سبب بن رہا ہے۔ اس مقصد سے وہ ایسے دلائل دے رہے ہیں جو دنیا میں کئے جانے والے تجربہ کی روشنی میں بے معنی اور فضول ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک کی سب سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر لینے کی ضرورت ہے، وزیر اعظم نے چوبیس گھنٹے کے اندر ، اپوزیشن لیڈروں کی طرف سے سامنے آنے والا لاک ڈاؤن کا مطالبہ مسترد کیا ہے ۔
حکومت نے کسی پارٹی کو اعتماد میں لینے اور مشترکہ حکمت عملی تیار کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ البتہ وزیر اعظم نے لاک ڈاؤن کو کرفیو قرار دیتے ہوئے لوگوں کے سامنے خود کو ’جمہوریت پسند‘ لیڈر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ اپوزیشن لیڈروں کے مقابلے میں عوام دوست کہلا سکیں۔ اسی طرح غریبوں کی ’ہمدردی ‘ میں لاک ڈاؤن سے انکار کرکے دراصل عمران خان نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ لاک ڈاؤن کی حمایت کرنے والے دراصل اس ملک کے غریبوں کے دشمن اور وہ خود ان کے سب سے بڑے ہمدرد ہیں۔ اس طرح وبا کے موسم میں سیاست کرنے کی افسوسناک مثال قائم کی گئی ہے۔
لاک ڈاؤن کے خلاف غریبوں کے روزگار کے حوالے سے عمران خان کی دلیل کو پرکھا جائے تو کورونا وائرس کی صورت حال سے پیدا ہونے والے حالات میں اس کا بودا پن ثابت ہوجاتا ہے۔ ایسے وقت میں جب کاروبار بند، سفر مفقود اور کارخانوں پر تالا پڑا ہو تو غریب آدمی گھر سے نکل کر کون سے روزگار کی تلاش میں جائے گا۔ دیہاڑی دار کو کون سا سیٹھ کام پر لگائے گا۔ روزگار کے مواقع معاشی تحرک سے پیدا ہوتے ہیں۔ کورونا کی وجہ سے زندگی معطل ہونے سے معاشی سرگرمیاں محدود ہوچکی ہیں۔ ایسے حالات میں باقاعدہ ملازمت کرنے والوں پر بھی روزگار کے دروازے بند ہورہے ہیں۔ ایسے ہی موقع پر حکومتیں خاص طور سے عوام کی مدد کرتی ہیں یا معاشرے کے مخیر لوگ کم وسیلہ لوگوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں تاکہ سب مل کر اس بحران سے نجات پاسکیں۔
کورونا وائرس کا بحران اپنی نوعیت میں بالکل جدا ہے۔ اس میں انسانوں کو انسانوں سے فاصلہ رکھنے پر مجبور ہونا پڑا ہے تاکہ یہ ایک سے دوسرے کو منتقل نہ ہوسکے۔ اسی لئے لاک ڈاؤن کا طریقہ اختیار کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں بھی سماجی تعلقات بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ لوگ بنیادی معلومات ہونے کے باوجود وہ احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے جو کووڈ۔ 19 کو پھیلنے سے روکنے کے لئے ضروی ہیں۔ اب بھی پاکستان میں تقریبات، دعوتوں کا اہتمام، میل جول اور دیگر سماجی سرگرمیوں سے گریز کی مکمل کیفیت دیکھنے میں نہیں آئی۔ ایسے موقع پر ہی ملک کے قائدین مثال بن کر سامنے آسکتے ہیں۔ لیکن ایک طرف حکومت کا قائد غریبوں کا وکیل بن کر لاک ڈاؤن سے انکار کررہا ہے تو دوسری طرف اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اگرچہ کورونا بحران کے دوران عوام کے درمیان رہنے کے لئے لندن سے واپس آئے ہیں لیکن ان کے استقبال کے لئے پارٹی کارکن کسی احتیاطی تدبیر کے بغیر ائیرپورٹ پہنچے ہوئے تھے۔ حالانکہ کورونا سے روک تھام کا بنیادی اصول ہرقسم کا انسانی میل جول بند کرنا ہے۔
عمران خان کی طرف سے لاک ڈاؤن سے انکار کے فوری بعد سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے صوبے میں آج رات سے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے۔ اس فیصلہ کے مطابق اشد ضرورت سے قطع نظر کسی کو گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ صرف کھانے پینے کا سامان فروخت کرنے والی دکانیں اور میڈیکل اسٹورز کھلیں گے ۔ سودا سلف خریدنے کے لئے باہر جانے والوں کو تنہا نکلنے اور دوسرے لوگوں سے فاصلہ رکھنے کا پابند کیا گیا ہے۔ غریب شہریوں کی سہولت کے لئے بجلی اور سوئی گیس کے بل مؤخر کرنے کی سہولت دی گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے مخیر لوگوں کے تعاون سے غریب گھرانوں کی ضروریات پوری کرنے کا منصوبہ بھی بنایا ہے۔ پنجاب ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں بھی اپنے اپنے طور پر لاک ڈاؤن کرنے ، اجتماعات کو روکنے اور لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی کے فیصلے کئے گئے ہیں۔ لیکن وزیر اعظم کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ابھی تک کورونا وائرس کے خلاف کوئی قومی منصوبہ نہیں بن سکا ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس پھیلنے سے آبادی کا بڑا حصہ متاثر ہوسکتا ہے۔ سماجی رویوں، معلومات کی کمی اور غیر مؤثر ، بے حوصلہ اور تنگ نظر قیادت کی وجہ سے وائرس کے پھیلاؤ کو ر وکنا روز بروز مشکل ہوجائے گا۔ وبا سے بچنے کے لئے قبل از وقت اقدامات کرنا اہم ہے۔ وقت گزرنے کے بعد لاک ڈاؤن کا فیصلہ موت کے اس وحشیانہ رقص کو نہیں روک سکے گا جو اس وقت اٹلی کے شہریوں کا مقدر بنا ہؤا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments