کرونا‘ شہباز شریف کی واپسی اور افواہیں


مارچ 2020کی 22تاریخ والی اتوار کی صبح یہ کالم لکھنے تک پاکستان بھر میں کرونا وائرس کی زد میں آئے افراد کی تعداد 645 ہوچکی تھی۔تازہ ترین اعداوشمار پر سرسری نگاہ ڈالتے ہوئے میں بلوچستان کے بارے میں بہت فکر مند ہوا۔آبادی کے اعتبار سے وہ ہمارے ملک کا سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔اس صوبے میں لیکن 104لوگ اس مرض میں مبتلا پائے گئے۔ پنجاب میں ایسے مریضوں کی تعداد فقط 152بتائی گئی ہے۔حالانکہ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلا یہ صوبہ آبادی کے اعتبار سے ہمارا سب سے بڑا صوبہ ہے۔

پاکستان کے آبادی کے حوالے سے سب سے بڑے اور سب سے چھوٹے صوبے سے آئے اعدادوشمار کافی کس تناسب کی بنیاد پر جائزہ لیا جائے تو ایک صحافی کا وسوسے سے بھرا دل یہ شک کرنے کو مجبور ہوجاتا ہے کہ غالباََ پنجاب میں مستعد و متحرک ٹیسٹنگ کے ذریعے کرونا کی زد میں آئے افراد کی نشاندہی سے گریز کیا جارہا ہے۔

اس شک کا نہایت خلوص وایمان داری سے اظہار مگر تحریک انصاف کی ’’سپاہ ٹرول‘‘ کو چراغ پابنادے گا۔وہ سوشل میڈیا پر مسلسل اصرار کئے جارہے ہیں کہ وطنِ عزیز کے ’’جاہل‘‘ اور لفافہ‘‘ صحافی کرونا کے حوالے سے ’’غیر ذمہ دارانہ‘‘ سوالات اٹھاتے ہوئے عوام میں دہشت پھیلارہے ہیں۔انہیں کرونا کے بارے میں ’’جھوٹی خبریں‘‘ پھیلانے سے ہر صورت روکا جائے۔صرف “Experts”کو یہ اجازت ہوکہ وہ اس موضوع پر گفتگو کریں۔

پنجاب کی وزیر صحت محترمہ یاسمین راشد صاحبہ ایک مستند ڈاکٹر کی حیثیت میں Expert بھی کہلائی جاسکتی ہیں۔سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ایک ویڈیو کے مطابق انہوں نے ایک صحافی کے ساتھ ان کی پریس کانفرنس میں ہوئے سوالات کی وجہ سے جو رویہ برتا اس کے بعد “Experts”پر انحصارسے خوف محسوس ہوتا ہے۔

22مارچ 2020 کی صبح نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف صاحب بھی ’’اچانک‘‘ وطن لوٹ آئے ہیں۔گزشتہ چار ماہ سے وہ لندن میں قیام پذیر تھے۔ اپنے بڑے بھائی کی علالت کو شہباز صاحب نے اس طویل قیام کا سبب ٹھہرایا۔ان کے سیاسی مخالفین مگر مصررہے کہ نواز شریف کی ’’مبینہ‘‘ بیماری فقط ایک بہانہ ہے۔ شریف خاندان کے سرکردہ افراد جیل اور گرفتاریوں سے بچنے کے لئے لندن میں پناہ گزین ہیں۔ان کے وطن لوٹنے کے امکانات معدوم تر ہورہے ہیں۔ان کی بنائی مسلم لیگ انتشارکا شکار ہوچکی ہے۔خواجہ آصف سے رہنمائی لیتا ’’ڈیل گروپ‘‘ نیک چال چلن کی ضمانتیں دے رہا تھا۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد مگر شاہد خاقان عباسی نے مسلم لیگ (نون) کو ایک بار پھر ’’انقلابی‘‘ بنانے کی ٹھان لی۔غالباََ ان کو ’’تھپکی‘‘ دینے محترمہ مریم نواز اپنی پُراسرار گوشہ نشینی کو وقتی طورپر بھلاتے ہوئے اسلام آباد تشریف لائیں۔ ان کی اسلام آباد آمد نے ’’قدم بڑھائو …‘‘ والا پیغام دیا۔

وطن واپسی سے قبل شہباز صاحب نے لندن میں اپنی والدہ کے قدم چھوئے۔بڑے بھائی سے گلے مل کر رخصت ہوئے۔ان کی قدم بوسی اور بھائی سے جپھی والی تصویروں نے یہ پیغام دیا کہ جیسے وہ کوئی ’’حتمی معرکہ‘‘ کے لئے وطن لوٹ رہے ہیں۔ فواد چودھری صاحب نے مگر ایک ٹویٹ لکھ کر ان کی بھداُڑائی۔ لوگوں کو ’’آگاہ‘‘ کرنے کی کوشش کی کہ شہبازصاحب ’’ڈرامہ‘‘لگارہے ہیں۔وہ خوب جانتے ہیں کہ آئندہ دو ہفتوں کے لئے پاکستان کے ایئرپورٹس بیرون ملک سے آئی پروازوں کے لئے بند کردئیے گئے ہیں۔

شہباز صاحب مگر اس پابندی کے اطلاق کے لئے طے ہوئے وقت سے پہلے جہاز میں بیٹھ گئے تو فواد صاحب نے ایک اور ٹویٹ کے ذریعے تجویز دے ڈالی کہ پنجاب کے مسلسل دس برس تک طاقت ور ترین رہے وزیر اعلیٰ کو ایئرپورٹس سے سیدھا لاہور کے میوہسپتال لے جایا جائے۔وہاں ’’قرنطینہ‘‘ میں چند دن گزارنے کے بعد وہ بالآخر دریافت کرلیں گے کہ اپنے دورِ اقتدار کے دوران انہوں نے صحت عامہ کا کیسا (ناقص) نظام متعارف کروایا تھا۔

اندھی نفرت وعقیدت کے جنون میں مبتلا شریف خاندان کے چاہنے والوں نے فواد چودھری کے برعکس مگر فرض کرلیا کہ ’’جہاں دیدہ اور تجربہ کار‘‘ شہباز شریف نے ’’کسی‘‘ کے اشارے پر وطن لوٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نون والوں کی خوش گمانی کی وجوہات سمجھی جاسکتی ہیں۔

ظفر ہلالی صاحب مگر شریف خاندان کے بدترین نقاد ہیں۔ ’’موروثی ‘‘سیاست دانوں کی طرح وہ ایک حوالے سے ’’موروثی‘‘ سفارت کار بھی ہیں۔انتہائی پڑھی لکھی ’’اشرافیہ‘‘ کے ترجمان تصور ہوتے ہیں۔سیاست دانوں کو حقارت و نفرت سے اپنے طیش کا نشانہ بنائے رکھتے ہیں۔ نام نہاد ’’دائمی اشرافیہ‘‘ کے اس خودساختہ ترجمان نے بھی لیکن ایک ٹی وی پروگرام میں اصرار کیا کہ شہبازصاحب ’’کسی‘‘ کے اشارے پر وطن لوٹے ہیں۔ یوں گماں ہوتا ہے کہ ’’کسی‘‘ کو عمران خان صاحب سے جو اُمیدیں تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔ شہباز صاحب سے منسوب ’’انتظامی صلاحیتوں‘‘ کو شاید ایک اور چانس دینے کی راہ بنائی جارہی ہے۔

ایک ’’منجھے‘‘ ہوئے سفارت کار کی شہرت والے ظفر ہلالی صاحب کی ہذیان نما گفتگو ایک ویڈیو کلپ پر سنتے ہوئے میں نے اپنا سرپکڑ لیا۔ یہ سوچتے ہوئے مگر دل کو فوراََ تسلی دی کہ ان دنوں ان جیسے کئی ’’سفارت کار‘‘ یکے بعد دیگرے کیمروں کے سامنے رونما ہوکر محض یاوہ گوئی کے ذریعے ہماری توجہ کرونا کی پھیلائی وحشت سے چسکہ بھری کہانیوں کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کررہے ہیں۔

انگریزی زبان میں ایک لفظ ہے Gallow Humor۔ آسان الفاظ میں یوں کہہ لیجئے کہ یہ وہ پھکڑپن ہے جو موت کی سزا پاکر کال کوٹھری میں بند ہوا شخص اپنا جی بہلانے کو استعمال کرتا ہے۔’’تختہ دار سے سنایا لطیفہ‘‘ شاید اس کا ترجمہ ہوسکتا ہے۔ Gallow Humor کی ایک مثال وہ لطیفہ ہے جہاں ایک ہندو ،مسلمان اور سکھ کو فرانس میں گلوٹین کے ذریعے موت کی سزا ملنا تھی۔ہندو نے گلوٹین کے چھرے تلے سررکھنے سے قبل اپنے بھگوان سے بے گناہی کی فریاد کی۔ گلوٹین کا چھرا اس کی گردن تک پہنچ نہ پایا۔ مسلمان کی باری آئی تو اس نے بھی اللہ سے انصاف کی دہائی مچائی۔گلوٹین کا چھرا اس کی صورت بھی فوراََ نیچے نہیں گرا۔ سکھ کو گلوٹین کے نیچے لے جانے لگے تو اس نے جلادوں کو پنجابی میں کہا کہ پہلے اپنی ’’مشین‘‘ تو ٹھیک کروالو تاکہ موت کی سزا پر عملدرآمد یقینی ہوسکے۔

کرونا وباء کے جاری موسم میں فواد چودھری اور ظفر ہلالی Gallow Humor فراہم کررہے ہیں۔ربّ کریم اس ضمن میں ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو مزید جلابخشے۔ ’’گھبرانا نہیں‘‘ کے حکم کے ساتھ مجھ جیسے دو ٹکے کے لکھاریوں کے لئے مگریہ حکم بھی ہے کہ لوگوں کو خو ف میں مبتلا نہ کیا جائے۔گویا ہم سب کو Gallow Humor تخلیق کرنے کو اُکسایا جارہا ہے تانکہ وباء کے موسم میں خلقِ خدا پریشان نہ ہو۔

خود کو تمام عمر ایک سنجیدہ ’’تجزیہ کار‘‘ ثابت کرنے کی لگن میں مبتلا رہاہوں۔ بوڑھا گھوڑا نئے کرتب نہیں سیکھ سکتا۔ پھکڑپن کو جی بہت مچلتا ہے۔حال ہی میں فوت ہوئے امان اللہ خان مرحوم جیسے ذرخیز ذہن سے ہمیشہ مگر محروم رہا۔ دوستوں کی محفل میں کسی اور کاسنایا لطیفہ بھی ڈھنگ سے دہرانہیں سکتا۔خود کہاں سے ایجاد کروں؟۔

مسلم لیگ (نون) کے خوش گماں افراد اور ظفر ہلالی جیسے ’’تجزیہ کاروں‘‘ سے یہ سوال کرنا مگر ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر ’’کسی‘‘ نے واقعتا شہباز صاحب سے منسوب ’’انتظامی صلاحیتوں‘‘ سے کرونا کے موسم میں استفادہ کرنے کا فیصلہ ہی کرلیا ہے تو اس خواہش کا عملی اطلاق کیسے ہوگا۔

شہباز صاحب وطن لوٹنے کے بعد عمران خان صاحب کو نہایت خلوص سے یہ پیشکش کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے تجربے کو کرونا بحران کے حل کے لئے حکومت کے ساتھ مل کربروئے کار لانے کو دل وجان سے حاضر ہیں۔وزیر اعظم شاید ان کے پیش کردہ تعاون کی ضرورت ہی محسوس نہ کریں۔بہت بڑا دل دکھائیں تو عثمان بزدار صاحب کو حکم دے سکتے ہیں کہ چند گھنٹوں کے لئے جاتی مراء چلے جائیں اور شہباز صاحب سے کرونا کے مؤثر تدارک کے لئے چند نسخے طلب کریں۔

وباء کا مقابلہ کرنے کے لئے لیکن نسخے ہی نہیں ان کے مؤثر اطلاق کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔وسیع پیمانے پر پھیلتی بیماری کے خلاف کاوشیں جنگی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ یہ زندگی یا موت جیسے معرکے ہوتے ہیں۔زندگی یا موت والی جنگ لڑنے کیلئے محض نسخے اور ان کے اطلاق کی مشینری ہی نہیں ایک حتمی کمان دار کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔

کرونا کے خلاف جنگ کی کمان قومی سطح پر فی الوقت عمران خان صاحب کے ہاتھ میں ہے۔پنجاب کے اس ضمن میں ’’سیکٹرکمانڈر‘‘ عثمان بزدار صاحب ہیں۔لوگ کہتے ہیں کہ جنگوں کے درمیان کمانڈربدلا نہیں کرتے۔ مبینہ طورپر شہباز شریف صاحب کو وطن لوٹنے پر ’’اُکسانے‘‘ والے اس اصول کی نفی کیوں کرنا چاہیں گے۔امید ہے کہ ظفر ہلالی صاحب جیسے زیرک وباخبر‘‘ سفارت کار‘‘ اس سوال کا تسلی بخش جواب فراہم کردیں گے۔وگرنہ شہباز صاحب کی بھدُاڑاتے ٹویٹس لکھ کر فواد چودھری صاحب کو رونا کی وجہ سے پھیلی اداسی کے مقابلے کو کافی ہیں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments