جب مجھے بیماری کے باعث تنہائی میں رکھا گیا


میں 2011 میں ملتان میں ہوسٹل میں پڑھتا تھا۔ میرا روم میٹ سندھ سے تھا۔ مئی میں فائنل کے امتحانات سے قبل 5 دن کی چھٹیاں ہوئیں۔ میں کراچی آنے کی بجائے، ملتان سے اپنے گاؤں، لیہ چلا گیا۔ جبکہ میرا روم میٹ اپنے گھر سند ہ واپس آگیا۔ چھٹیوں کے بعد میں واپس آگیا جبکہ میرا دوست مزید چند دن تاخیر سے آیا۔ اُس نے دیر سے آنے کی وجہ اپنی گھریلو مصروفیات بتائیں۔ ایک دن اُس کے ساتھ رہنے سے مجھے رات کو تیز بخار ہو گیا، کیونکہ میرا قوت مدافعت (Immune System) کمزور تھا۔

اور صبح تک میرے چہرے پر سر خ رنگ کے داغ نمایاں ہونے لگے۔ میں کلاس میں گیا تو میرے ٹیچر نے مجھے کلاس سے باہر بلا کر کہا تمہیں (Chickenpox) ہو گیاہے۔ میں نے انکار کیا تو اُنہوں نے میرے روم میٹ کو بھی باہر بلایا اور پوچھا کہ تمہیں چکن پاکس ہو ئے تھے۔ اُس نے کہا جی بالکل میں اسی لئے گھر سے لیٹ آیا تھا۔ خیر ٹیچر نے مجھے فوراً چھٹیاں دیں اور کہا کہ واپس گھر جاؤ کہیں تمہاری وجہ سے دوسرے سٹودنٹس بیمار نہ ہو جائیں۔

ایک ہفتے بعد فائنل امتحان تھے۔ مجھے یوں ایک دم واپس گھر بھیجنے پر ٹیچر کا رویہ بہت عجیب لگ رہا تھا۔ میں کراچی آنے کی بجائے واپس گاؤں چلا گیا۔ ایک ہفتے گھر میں تنہائی میں گزارنے کے بعد میں نے ٹیچر کو فون کیا، اور اُن سے امتحان دینے کی اجازت مانگی۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم آپ کوبغیر امتحان دیے ہی پاس کر دیں گے۔ مگر مجھے اپنی اول پوزیشن ہاتھ سے جاتی ہوئی نظر آرہی تھی۔ میرے ُپرزور اصرار پر ڈائریکٹر نے مجھے الگ کمرے میں امتحان دینے اور کمرے میں ہی رہنے کی اجازت دے دی اور کسی بھی فرد سے ملنے کی سختی سے ممانعمت کی۔

پیپر کے دن عین وقت پر ایک ڈومیسٹک اسٹاف کا ممبر میرے کمرے کے دروازے پر دستک دیتا اور پیپر دے کر چلا جاتا۔ مقررہ وقت پر پیپر واپس لے جاتا۔ اسی طر ح مجھے ایک ہفتے تک اسی طرح پیپراور کھانا دیا جاتا۔ مجھے یہ سب بہت عجیب اور مایوس کن لگتا، بیماری نے جسمانی طور پر کمزور کر دیا تھا لیکن تنہائی نے ذہنی اور روحانی طور پر بھی لاغر کر دیا تھا۔ رزلٹ آیا تو میری غالباً دوسری پوزیشن آئی تھی۔ مجھے بہت مایوسی تھی لیکن خیر سب کے کہنے پر میں نے دل کو تسلی دی۔

آج جب 9 سال بعد یہ بات سوچتا ہوں کہ میرا رویہ اور غصہ غلط تھا۔ اگر ٹیچر اور انتظامیہ مجھے زبردستی گھر نہ بھیجتے اور سختی سے تنہائی میں نہ رکھتے تو شاید میں اپنے روم میٹ کی طرح کئی دوسرے طالب علموں کو بیمار کر کے اُن کا سال اور پیسے ضائع کرتا۔ لیکن سوچتا ہوں، شعور اورآگہی کی کمی تھی یا شاید اپنی انا پرستی! کہ اپنی پوزیشن کے لئے اپنے ہی ساتھیوں کا کیرئیر داؤ پر لگانے کوتیار تھا۔

آج 2020 میں کورونا وائر س سے پیدا صورتحال کو دیکھتا ہوں تو اپنی خود غرضی، ہٹ دھرمی اور بیوقوفی یاد آتی ہے۔ ہمیں وقتی کامیابی، تسکین اور فائدہ نظر آتا ہے، ہمارے لئے زندگی اور خاص طور پر دوسروں کی زندگی کی کوئی قدر نہیں۔ ہم خود، تنہائی اور تکلیف برداشت کرکے دوسروں کو محفوظ نہیں رکھنا چاہتے۔ میرے اُس وقت کے ٹیچرز اور انتظامیہ کی طرح موجودہ حکومت کو بھی ہماری مرضی، تربیت، لاعملی اور بے عقلی کے برخلاف سختی سے اقدامات کرنے چاہئیں۔ لاک ڈاؤن کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔ کیونکہ ہمیں بروقت پرہیز اور احتیاط کی عادت ہی نہیں۔ Social Distance ہمارے بس کی بات نہیں۔ Quarantine جیسی اصطلاح ہمارے پلے نہیں پڑے گی۔

ہم کرفیو کے عادی ہیں کئیر فور یو ہمیں سمجھ نہیں آئے گا۔ خُداکے واسطے آپ ہم پرسختی کر کے ہمیں بچا لیں۔ ہم آپ کے مشکور ہوں گے کیونکہ ہماری مصیبت یہ ہے کہ، ہم مصیبت کے وقت ہی اکٹھے ہوتے ہیں۔ لیکن اب مصیبت یہ ہے کہ اگر اکٹھے ہوئے تو نئی مصیبت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments