کرونا وائرس، شہرِ افسوس اور وبا کے دنوں کی بِپتا


جارج برنارڈ شا کہتا تھا کہ زندگی میں سانحے صرف دو ہیں، ایک امید کا ختم ہونا اور دوسرا امید کا پیدا ہونا۔ جون ایلیا نے بھی نہ جانے درد کی کس رو میں بہہ کر لکھا تھا:

کوئی حاصل نہ تھا آرزو کا مگر، سانحہ یہ ہے کہ اب آرزو بھی نہیں

وقت کی اس مسافت میں بے آرزو تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے

میں آج کل ایک عجیب خوف کے زیر اثر جی رہا ہوں اور میرے خوف کا سبب کرونا کی تباہ کاریاں نہیں بلکہ اس کے بطن سے نمو پانے والی نئی حقیقت ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ کرونا سب کچھ تبدیل کر کے رکھ دے گا۔ زندگی کبھی اُس ڈگر پہ نہیں آ پائے گی جیسی اس وبا سے پہلے تھی۔ یہ کوئی سائنسی یا تحقیقی دعوی نہیں ہے یہ محض ایک گمان ہے اور دعا بھی یہ ہے کہ یہ گمان یکسر غلط ہو۔

یوں لگتا ہے جیسے معاشرتی اور ثقافتی اقدار سب بدل جائیں گیں۔ سماجی فاصلہ ”new normal“ ہو گا۔ ”virtual“ نیا ”real“ بن جائے گا۔ ”work from home“ نیا مروجہ طریقہ کار ہو گا۔ معشیت کی نئی حرکیات نیا عالمی منظر نامہ ترتیب دیں گیں۔ اگر یہ بحران ایک سال قائم رہا تو آزاد معشیت منہدم ہو جانے کا غالب امکان ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے مارشل پلان کے تحت یورپی معشیتوں کو نئی زندگی دی تھی اب اگر امریکی معشیت بھی کرونا کے نتیجے میں کساد بازاری کی لہر کی نذر ہوتی ہے تو بین الاقوامی سیاست کی بساط میں ”global reset“ ہو جانا بعید از قیاس نہیں جس میں عالمگیریت کو اپنی بقا کا چیلنج درپیش ہوگا۔

صرف ایک مہینے کی قلیل مدت میں میں امریکن ائیرویز اور برٹش ائیر ویز دیوالیہ ہونے کر قریب پہنچ چکی ہیں جب کہ لفتھانسا ائیر لائن دیوالیہ ہو چکی ہے۔ تیل پچیس ڈالر فی بیرل پہ آ چکا ہے۔ چین کو 300 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہو چکا ہے۔ ٹورازم انڈسٹری مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ بین الملکی سفر غیر معینہ مدت کے لئے معطل کر دیا گیا ہے۔

کرونا کی تباہ کاریوں اور خوف کے سائے میں گزرتی ہوئی زندگی میں احمد مشتاق کی غزل بھی رہ رہ کر یاد آتی ہے :

اَب کے اِس باغ میں وہ رنگِ خِزاں دیکھو گے

نہ اُڑے گا کوئی شعلہ، نہ دُھواں دیکھو گے

اب جو اوروں پہ چَمکتا ہے تو چُپ رہتے ہو

اُسی خنجر کو قریبِ رگِ جاں دیکھو گے

جیسے مُمکن ہو بَچا لو یہ اُجڑتے ہوئے شہر

پِھر نہ یہ رنگ، نہ چہرے، نہ مَکاں دیکھو گے

جانے والو! چمنِ دل کی زَیارت کر لو

اب کے لوٹو گے تو کچھ بھی نہ یہاں دیکھو گے

دیدنی ہے شفقِ شامِ الم کا منظر

پھر یہ بجھتے ہوئے چہرے بھی کہاں دیکھو گے

اپنا اور اپنے پیاروں کا خیال رکھیں کیونکہ ایک شخص کا مرنا سانحہ ہوتا ہے اور بہت سارے لوگوں کا مرنا محض اعداد و شمار۔ اس لیے تمام حفاظتی انتظامات و تدابیر پر مکمل عمل کریں اور اس پینڈیمک سے بچنے کی کوشش کریں۔

اپنی قومی حسِ مزاح کو کسی اور وقت کے لئے سنبھال رکھیں اور فی الحال فہم عامہ پہ گزارا کر لیں اور خدارا احتیاط کریں۔

اللہ پاک سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments