عورتوں کے حقوق پر بات کیوں نہ کی جائے؟


آٹھ مارچ کو دنیا بھر میں یوم نسواں International Women Day کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن ترقی پذیر سماج میں عورت کی حقوق پر بحث مباحثے ہوتی ہیں، کئی ممالک میں ہونے والے کنونشنز، اِن کے ایجنڈے، زیر بحث اغراض و مقاصد سے اندازہ ہوا کہ اِس مخصوص دن کے سوا کیا ہم اُن کے حقوق جو ہماری لب پر آج ہے کی یاد ہوتی ہے؟ عورتوں سے ہونے والے المناکیوں کا ذِکر صرف آج تک کیوں محدود؟ کیا پریکٹیکلی رسموں کے لبادے میں لپٹے جرائم سے چوں و چرا تک کرتے ہیں؟

کیا مرد بحثیت انسان نے کبھی تاسف کیا ہے کہ ہم عورت پر ہونے والی دست ستم میں خامشی کی  چادر میں کیوں لپٹے ہے؟ کیا صرف خواتین کو حقوق دینے کی بات ہے؟ کیا سماجی سختیوں تک کی بات ہے؟ کیا اِن کی خواہشات جاننے تک کی بات ہے؟ اِس بار حقوق سے بڑھ کر اِس Established ذہنیت پر بات نہ کریں؟ ازمنۂ بربریت کا اِس خوفناک مظہر پر بات نہ کریں؟ پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ آپ کسی معمہ کو کس Prism سے دیکھتے ہے، مذہبی نقطہ نظر سے؟ یا سماجی نقطہ نظر سے؟ مذہب میں مغزپاشی کرنی پڑے گی کیونکہ ہم ایک ایسے سماج کا حصہ ہیں جہاں دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اِس دیش کے باسی ہیں۔ یاد رہے، مذہب میں ایک چیز گناہ ہے اور سماجی نقطہ نظر سے وہ جرم ہوسکتا ہے جس کی سزا فی الفور دینے کا قانونی جواز موجود ہوتا ہے۔

سارے مرد کہتے ہے کہ عورت کی عزت کرتے ہے، اُس کی حقوق کی بات کرتے ہیں۔ ایسے میں آپ کون ہیں خواتین کی حقوق کی بات کرنے والے؟ کیا آپ کے مذہب میں انہی اقدار کا تعین نہیں ہوا؟ کیا دستور دیس میں اِس کو گارنٹیڈ نہیں کہا گیا؟ پھر آپ کون ہے دینے والے؟ کیا عورت انسان نہیں ہے؟ جب ہے تو مرد سے کمتر پھر کیوں سمجھا جاتاہے؟ آگئے نہ اُس قائم شدہ ذہنیت کی طرف! چلیں پوزیشن چینج کرلیں مرد عورت کی جگہ اور عورت مرد کی جگہ۔

ایک لمحے کے لئے سوچ لیں۔ آپ کے شادی بیاہ میں آپ کو نہیں پوچھا جائے گا، آپ کو ساتھی کے اِنتخاب کا کوئی حق نہیں۔ آپ گھریلو طور Unpaid labour ہو۔ تعلیم کا حق نہیں یا میٹرک تک ہے۔ ہسپتال، سکول، کالج، پرائیوٹ مقامات پر آپ تشدد کا نشانہ بنتے ہیں، تشدد کی نوعیت مختلف ہوسکتی۔ وہ جسمانی ہوسکتی ہے وہ ذہنی ہوسکتی ہے۔ آپ کو اپنے وسائل بروکار لانے اور نوکری کا کوئی حق نہیں دیا جاتا۔ آپ پارک، ہوٹل تشریف نہیں لے جاسکتیں۔

آپ ڈومیسٹیک وائلنس کا شکار ہوجاتی ہیں اِس کی بھی نوعیت مختلف ہوسکتی ہے۔ ملکی باگ ڈور بھی آپ کے ہاتھ میں نہیں، حتیٰ کہ کوئی ریپریزنٹیشن بھی نہیں۔ علاقائی سطح پر دشمنیاں ہوں اُس feud کو ختم کرنے کے لئے پنچایت، ثالیثین آپ کو قربان کریں۔ تعجب کی بات ہے جنگ، دشمنیاں مرد کرتے ہے مگر قربانی کا بکھرہ کس کو بنایا جارہا ہے؟ یہ بربریت کا ایک غیر مختتم سلسلہ ہیں۔

مجھے اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا آپ ترقی پسند ہو یا تنزلی پسند، آپ بوڑھے ہو یا جوان۔ مجھ اِس سے فرق پڑتا ہے کہ آپ کے پیشِ نظر خلش پیہم میں گرفت خواتین کے معاملات کو کسی نے اُٹھالیا؟ اُس کے سدِباب کے لئے وسیع البنیاد طور کوئی مکینزم بنایا گیا؟ ریپ، چہرے پر تیزاب چھڑکنا، غیرت کے نام پہ قتل، معاشی و سماجی بندشیں، ظاہر بظاہر جو متعصبانہ برتاوۂ جیسے علتوں کی روک تھام ممکن ہوسکی؟ یاد آیا، یہ غیرت کیا ہے؟

کراچی لیاری کے علاقے سے دو جوانوں نے باہمی رضامندی سے کورٹ میریج کر لی۔ تین، چار ماں بعد میکے واپس لوٹے دونوں کو لٹکایا۔ اِس کو غیرت کہتے ہے؟ لاہور میں بھائیوں سے حق مانگنے پر بہن کے ہاتھ، پیر کاٹنے کو غیرت کہتے ہے؟ سندھ کے کئی اضلاع میں لڑکیوں کے عقیدے بدلنہ Forced conversion اور پھر بزور شمشیر شادی کروانے کو کیا کہا جائے؟ کالج، یونیورسٹی کی بس میں لڑکیوں کو حراساں کرنا تو ہر قلاش کا غلیظ و بھرشٹ مشغلہ ہے۔ کمسن بچوں کے ساتھ جنسی تشدد، Pederasty کیسیسز کس حد تک مانیٹر ہوتے ہیں؟ کیا ہر گلی گوچے میں یہ چیز عام نہیں؟ مانسہرہ مدرسے میں ایک بچے کے ساتھ سو دفعہ ریپ؟ بس آپ مرد ماتم کنائی کا کام سرنجام دیں گے؟ معصوم لڑکیوں کو خجلانہ فعلوں میں نہیں گھسٹا جارہا ہے؟

آوارہ مزاج و چشم مرد ہی ہوتے ہیں۔

عصمت فروش عورت سماج میں ذلیل و خوار ہے لیکن کبھی غور کیا کہ اِن بے وُقعت ہستیوں کے کوٹھوں پر ٹھوکریں کون کھاتے ہیں؟ کبھی اُس کو نام دیا ہے؟ گھریلو طور اٹل فرمان پردے کے بارے میں مرد جاری کرتاہے لیکن کبھی سوچ بچار کیا، کہ اِن کو حواس باختہ نظروں سے گھور کون رہے ہیں؟ مرد رشتوں کو خون کی ڈوریوں سے ناپتے ہے، اگر وہ اِس سرکل سے باہر ہے تو پھر مافوق الفطر کچھ بھی کیا جاسکتاہے؟ بیکل اور فارغ العقل نہ بنے، معمہ کی جڑ تک جائیں اور اِس کارن مرد ہی بنیں۔

عورت کی جسم پہ کس کا حق ہے اَب کے فیصلہ کیونکر ہو؟ پچھلے برس کی بات ہے کہ راولپنڈی میں تین جوان سگے بھائیوں، جس میں سے ایک دینی مدرسے کا معلم بھی تھا، نے اپنے سولا سالہ بہن کو ہوس کا نشانہ کئی سالوں تک بناتے رہے چوتھا Dismembered تھا اس لئے شریک ہونا سہل العمل نہ تھا۔ بیٹی یتیم، بیمار ہونے کے بعد والد محترم کے دوست جو ڈاکٹر ہے کو بتایا تب اُن کی آواز میڈیا تک جا پہنچی۔ بلوچستان یونیورسٹی کے ہراسمنٹ کیس آپ کے سامنے ہے۔ خواتین کمتر سمجھنے میں معاشرتی اطوار کیسے رول پلے کر رہے ہے؟ اس کو کن محرکات کی بنا پر پروان چڑھایا جارہا ہے؟ چائلڈ لیبر کی شرح کیا ہے؟ اس کیلے قوانین کس حد تک لاگو کیا گیا؟ کم عمری کی شادی کی سدِباب ہوئی؟

دیہاتی علاقوں میں جو لاقانونیت برپا ہے اُس کا کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک اندرون شہر الجھن نہ سلجھا جائے۔ ملک تقسیم ہوسکتاہے، زمین جدا ہوسکتی ہے، عقیدے الگ تھلگ ہوسکتے ہیں کئی ساری چیزیں بیگانہ ہوسکتی ہیں لیکن کسی صورت عورت اور مرد کوئی چیز دور نہیں کرسکتا۔ سعادت حسن منٹو کہتے ہیں، ”عورت روسکتی ہے، دلیلیں پیش نہیں کرسکتی۔ اس کی سب سے بڑی دلیل اُس کی آنکھوں سے ڈھلکا ہوا آنسو ہے“۔ الغرض، حالات کی نزاکت کو سمجھیں بالا متذکرہ مسائل سے کئی لوگ اپنی جان دے چکے ہیں اور ہر غلیظ اِرادہ کسی اور کے لئے جان لیوا ہوسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments