بزدل ”کرونا“ ذرا سامنے آ!


آپ ہی بتایئے ”کرونا“ سے بڑا کوئی بزدل ہو سکتا ہے جو چھپ کر وار کر رہا ہے پیٹھ پر وار کر کے پوری دنیا کو خوف میں مبتلا کر رہا ہے اچھی خاصی متحرک زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے اس نے! اتنا ڈرپوک کہ ہمت نہیں آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکے کسی خونخوار درندے کی طرح اپنے شکارکو علم ہوئے بغیر حملہ کرتا ہے اور گلا گھونٹ کر کام تمام کر دیتا ہے دو لاکھ 84 ہزار سے زائد افراد پر ”بزدل کرونا“ اپنا وار کر چکا ہے جن میں سے 17 ہزار کے قریب جان کی بازی ہار چکے ہیں، دہشت اور خوف پھیلانے کے باجود بھی اس میں ہمت نہیں کہ بہادر لوگوں کا سامنا کر سکے ورنہ اس بزدل دشمن کے لئے تو نسل تیمور کا بہادر سپوت مظہر برلاس ہی کافی تھا لیکن منافق کرونا کو علم ہے کہ جہاں دنیا بھر کے اکثر لوگ اس سے ڈر کر گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں وہاں مظہر برلاس ایسے بہادر، نڈر اور دلیر انسان بھی لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ کرونا سامنے آنے سے کترا رہا ہے ”شاطر کرونا“ کو عالم اسلام کے بہت سے دبنگ علما کا بھی ڈر ہے جو علی الاعلان اس بزدل کو چیلنچ کر رہے ہیں کہ اگر تو چیزوں کی سطوح پر نامرئی حالت میں رہ کر یا ایک کمزور انسان کے کندھے پر سوار ہو کر انسانوں کے اجتماع کو نشانہ بناتا ہے تو آ میدان میں ہم اجتماع کریں گے ہم گارنٹی دیتے ہیں کہ تو ہمارے اجتماع میں موجود کسی ایک بھی شخص کا بال بیکا نہیں کر سکتا دنیا کو جناب مظہر برلاس، مولانا منظور چنیوٹی، مولانا خادم رضوی، ڈاکٹر آصف اشرف جلالی اورمولانا فاضل موسوی، ( دنیا بھر کے جن بہادر انسانوں کے نام نہیں لکھ سکا وہ معاف فرمائیں گے ان سب کے نام تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جائیں گے ) ایسے بہادر با غیرت، جوان مردوں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ جن کے خوف سے ”کرونا“ جیسا بزدل انسانوں کے سامنے آنے سے کترا رہا ہے ورنہ تو اب تک خدانخواستہ دنیا انسانی وجود سے پاک ہو چکی ہوتی!

”کرونا“ تو بزدل تھا ہی اس ظالم نے میڈیکل سائنس کے شعبے کے لوگوں کو بھی اپنی طرح بزدل بنا دیا ہے جو دنیا بھر میں انسانوں کو کرونا بزدل سے ڈرا رہے ہیں ان کی بزدلی کی انتہا ہے کہ مختلف مذاہب کے مذہبی مقدس مقاما ت کو بھی بند کروانے پر زور دے رہے ہیں نام نہاد صحت کی وزارت سے وابستہ بزدل اور دین دشمن لوگ اب تک سعودی عرب اور ایران جیسے بڑے اسلامی ملکوں میں خانہ کعبہ سمیت مقدس مقامات کو بند کروا چکے ہیں ایران میں بھی چنیوٹی، جلالی اور موسوی بہادروں کی کمی نہیں انہوں نے بھی غیرت ایمانی اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کرونا سمیت وزارت صحت کے لوگوں اور حکمرانوں کو چیلنچ دیتے ہوئے مقدس مقامات کے دروازے توڑنے کی کوشش کی یہ ہوتی ہے مردانگی!

یہ ہوتی ہے بہادری! دوسری طرف میری طرح کے بزدل لوگ کرونا کے ڈر سے گھر میں دبک کر بیٹھے ہیں اور میں تو ہوں بھی اس ملک میں جس میں چین اور جرمنی کے بعد کرونا نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے اس لئے مذکورہ بہادر لوگوں جیسی جرات و بہادری سے محروم ہوں البتہ ان لوگوں کی بہادری کے دعووں اور قصوں سے متاثر ہو کر شعبہ طب کے کچھ بزدلوں سے بات کی جنہوں کی شہ پر دنیا بھر میں مذہبی مقامات تک کو بند کیا جا رہا ہے میرا خیال تھا کہ یہ لوگ جناب محترم مولانا منظور چنیوٹی، مغل سپوت مظہر برلاس، مولانا فاضل موسوی اور ڈاکٹر آصف جلالی جیسے بہادر لوگوں کی کرونا کے حوالے سے بہادری کے قصے سن کر عش عش کر اٹھیں گے اور کرونا کے مقابلے میں ان جری انسانوں کی خدمات حاصل کرنے کی درخواست کریں گے لیکن ان کا رد عمل دیکھ کر مایوسی ہوئی ان کا کہنا تھا کہ حماقت کو کوئی بھی با شعور انسان بہادری نہیں کہہ سکتا جو لوگ کرونا کے حوالے سے اپنی حماقت کو بہادری کا نام دے رہے ہیں یہ لوگ کرونا وائرس کے ممکنہ خطرے سے بالکل بھی آگاہ نہیں ہیں یہ لوگ طب کے ثابت شدہ نا قابل تددید شواہد کو جھٹلا کر جہالت کا ثبوت دے رہے ہیں بہادر لوگوں کی طرف سے بزدل ٹھہرائے شعبہ طب کے لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ لوگ ایسی جہالت کا مظاہرہ ہی اس لئے کر رہے ہیں کہ یہ لوگ کرونا وائرس کو دیکھ نہیں سکتے ہیں اسی لئے اپنے طور پر یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ کرونا کا کوئی خطرہ نہیں ہے ایک ڈاکٹر صاحب کہنے لگے بات بڑی سادہ سی ہے کرونا وائرس کی روک تھام کے لئے احتیاطی تدابیر کو بزدلی قرار دینے والے لوگوں کا اس وقت کیا رد عمل ہوتا جب سیلاب جیسی کوئی بلا آتی اس کا کہنا تھا کہ یہی بہادر سب سے پہلے سیلاب سے بچنے کی سبیل کرتے اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ بمباری یا فائرنگ کی صورت میں کیا یہ لوگ مساجد یا مزارات میں پناہ لیتے یا کسی اور محفوظ جگہ کا انتظام کرتے؟

ایک ڈاکٹر صاحب کہنے لگے میں بھی مسلمان ہوں خدا اور دعا پر میرا قوی ایمان ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ کرونا کا کوئی ایمان نہیں یہ ایسی بلا کا نام ہے جو کسی مقدس مقام یا مقدس شخصیت کا خیال نہیں کرتی اسی لئے ضرورت اس چیز کی ہے کہ جب تک اس کا علاج دریافت نہیں ہو جاتا تب تک احتیاطی تدابیر کے ذریعے اس کا مقابلہ کیا جائے۔

دین کی تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھنے والے ایک ڈاکٹر نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا ”امیر المومنین علی علیہ السلام کا قول ہے کہ لوگ اس چیز کے دشمن ہوتے ہیں جسے نہیں جانتے، اپنے غیر منطقی رویے کو بہادری کا نام دینے والے لوگ در حقیقت کرونا وائرس کی تباہ کاریوں سے واقف نہیں اس لئے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں اس کا کہنا تھا کہ علمی جہالت اپنی جگہ ایسے لوگ دینی جہالت کا بھی شکار ہیں یہ لوگ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پروردگار دنیا میں اپنے اوامر کو اسباب اور مسببات کے ذریعے آگے بڑھاتا ہے علت و معلول کا شمار سنن الہی میں ہوتا ہے ہر بیماری کسی نہ کسی طبعی علت کا نتیجہ ہوتی ہے اس لئے اہل ایمان اس کا مقابلہ احتیاطی تدابیر اور طبی علاج سے کرتے ہیں اس کے علاوہ کوئی راستہ ہے ہی نہیں دعا اور توکل کی اپنی اہمیت ہے لیکن یہ کسی بھی صورت علاج اور احتیاط کا نعم البدل نہیں ہو سکتے میں ڈاکٹر ہوتے ہوئے بیماری کی صورت میں سب سے پہلے طبی قواعد پر عمل کرتا ہوں اس کے بعد دعا کرتا ہوں اور توکل اختیار کرتا ہوں جس سے مجھے روحانی اور قلبی سکون محسوس ہوتا ہے۔

ہمارے استاد جن کا نام تو محمد اللہ اکبری ہے لیکن انہیں ”حکیم ترشیز“ کے لقب سے جانا جاتا ہے غیر معمولی جرات اظہار ان کی پہچان ہے وہ بھی سوشل میڈیا پر جاری ہماری گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے گویا ہوئے ”مذہبی جہالت کے شکار بہت سے افراد کے نزدیک مزارات، دربار، آستانے ہاسپٹلز اور کلینکس ہیں احتیاطی تدابیر کے تحت ان مراکز کا عارضی طور پر بند ہونا درحقیقت ان لوگو ں کے خود ساختہ عقیدہ پر کاری ضرب کے مترادف ہے اس لئے یہ لوگ احتیاطی تدابیر کی مخالفت سے خود کو بہادر اور طب کے شعبہ کے لوگوں کو بزدل قرار دے رہے ہیں ان کا کہنا تھا کہ دین کی تھوڑی بہت سمجھ رکھنے والا انسان بھی یہ بات جانتا ہے کہ اگر جان کو خطرہ درپیش ہو تو واجب حج کا سفر بھی حرام ہو جاتا ہے اور اس صورت میں حج کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے موجودہ حالات میں احتیاطی تدابیر کے تحت مذہبی مقامات کو عارضی طور پر بند کرنا شرعی، قانونی اور علمی حوالے سے احسن اقدام ہے اور خوشنودی خدا کا سبب ہے۔

اس ساری گفتگو کے دوران میں دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ خدا نہ کرے ”کرونا“ بہادر لوگوں کا چیلنچ قبول کرتے ہوئے ان کے مد مقابل آ جائے کیونکہ اب تک کا اس کا رویہ تو یہی رہا ہے کہ اس نے احتیاط کا مظاہرہ نہ کرنے والوں کو چت کیا ہے لہذا موجودہ سخت حالات میں جذباتی بھاشن دینے کی بجائے احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جائے اور کچھ عرصہ کے لئے ہر طرح کے اجتماعات کو مؤخر کر دیا جائے کہ فی الحال کرونا کو شکست دینے کا یہی طریقہ ہے ورنہ جو لوگ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے والوں کو بزدلی کے طعنے دے رہے ہیں کہیں ہمیشہ کے لئے اپنے من پسند مذہبی اجتماعات میں خطابت کے جوش دکھانے سے محروم نہ ہو جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments