بلوچستان رحم کا طلب گار ہے


جمہور کسے کہتے ہیں؟ جمہور کی رائے کیا ہے؟ جمہور کی حکمرانی کا مطلب کیا ہے؟ ان سب سوالوں کا اگر ایک ہی لفظ میں جواب دیا جائے تو اسے جمہوریت کہا جاتا ہے۔ جمہوریت ایک طرز حکومت ہے جسے آسان الفاظ میں عوام کی حکومت کہا جا سکتا ہے۔ آمریت کے برخلاف اس طرز حکمرانی میں تمام فیصلے عوامی نمائندے کرتے ہیں۔ جمہوری نظام حکومت میں عوام کے دلوں میں نظام ریاست کا احترام پیدا ہوتا ہے کیونکہ اس میں نظام حکومت خود عوام یا عوام کے نمائندوں کے ذریعے پائہ تکمیل تک پہنچتا ہے۔

مگر یہ جذبہ صرف اس وقت کار فرما ہوتا ہے جب عوام کی صحیح نمائندگی ہو اور اراکین مملکت کا انتخاب درست اور شفاف ہو اگر آپ فرصت کے لحمات میں بلوچستان میں رائج جمہوریت کے بارے میں سوچتے ہیں اور بلوچستان کے انتظامی معاملات کو چلانے والوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایسے صوبے میں رہتے ہیں جہاں پر حکومت کے معاملات کون چلا رہا ہے یہاں کون منتخب اور ڈمی کردار ہے ایسا کون ہے کہ جس کو عوام کی خواہشات اور رائے عامہ کے احترام کے ساتھ ان کے غم و غصے کی بھی کبھی کبھار فکر بھی لاحق رہتی ہے۔

جہاں حکمران وقت کو اس بات کا ڈر ہو کہ منتخب اسمبلی ان کو اقتدار سے باہر پھینک سکتی ہے اس لئے عوام کے ساتھ رابطے میں رہنا ہے ان کی خواہشات کا خیال رکھنا ہے بلوچستان میں وہ کون سا مسیحا ہے وہ کون ہے جس کا دامن پکڑا جائے کہ جس کے سامنے رویا جائے جس کے پاس ایک واضح ویژن ہو یہ تمام باتیں آپ کو ابہام کے ساتھ پریشانی کا شکار کرتی ہیں آپ سمجھنے سے قاصر ہوجاتے ہیں کیونکہ ہر طرف آپ کو ان سوالات کے جوابات میں ایک گہری خاموشی دکھائی دیتی ہے۔

صوبائی حکومت نے کوئٹہ کو کورونا وائرس کے پیش نظر بند کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے یہ اعلان حکومت کے دو وزراء نے ایک حکومتی ملازم چیف سیکریٹری بلوچستان کے دائیں بائیں کھڑے ہوکر پریس کانفرنس میں کیا۔ جب کہ بلوچستان حکومت کے ترجمان کو سب نے پس پشت کھڑے ہو کر خاموش تماشائی کی صورت چیف سکریڑی کا یہ اعلان سنتے ہوئے دیکھا کہ کوئٹہ میں کرونا وائرس کے کیسز کے بعد حکومتی سطح پر فیصلہ کیا گیا ہے کہ شہر میں لاک ڈاون کیا جائے۔

مجھے چیف سکریڑی بلوچستان کے اس اعلان پر قطعی طور پر کوئی حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ پورا بلوچستان تو درکنار مجھے معلوم ہے کہ انہیں کوئٹہ کے محل و وقوع کا اندازہ تک نہیں ہے سریاب، کچلاک اور کوئٹہ کے مضافاتی علاقوں میں عام آدمی کی گزربسر کوئٹہ کی آمدورفت سے جڑی ہوئی ہے۔ جبکہ ان کے ساتھ کھڑے صوبائی حکومت کے وزراء اور دیگر لوگوں پر مجھے حیرت ضرور ہوئی ہے کہ وہ کس طرح حقائق جاننے کے باوجود سرکاری ملازم کے ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں؟

کیا یہ سب جمہوریت کی بالا بیان کی گئی تشریح کے عین مطابق ہے؟ ان کی حکمرانی ٹھیک ہے ِ؟ کیا انہیں معلوم نہیں کہ بلوچستان میں بالعموم اور کوئٹہ میں بالخصوص غربت کی شرح کیا ہے یہاں عام آدمی کی فی کس ماہانہ آمدن کتنی ہے اور لوگوں کے روزگار کے ذرائع کیا ہیں اگر یہ سب کچھ انہیں معلوم ہے اور اس کے باجودکورونا وائرس کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام رہنے کے بعد اب شہر کو بندکرکے بھوک وافلاس کے شکاراور نان شبینہ کے محتاج عام لوگوں کو مارنے کا فیصلہ کرچکی ہے تو کیا کہا جاسکتا ہے اسے ایک عام آدمی کے مسائل مزید بڑھانے کی ایک حکومتی کوشش قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس بدقسمت اور حقیقی قیادت سے محروم صوبے کی مارکیٹیں اور دکانیں بند کرکے جہاں بے روزگاری میں اضافہ کیا جائے گا وہیں یہاں ایک خود ساختہ اجناس کی کمی کا بحران بھی جنم لے گا۔

اس اعلان کے بعد آج شہر میں لوگوں کی بڑی تعداد کی خریداری میں مشغولیت اس بات کی دلیل ہے کہ ذخیرہ اندوزی کا کام شروع ہوگیا ہے اور آئندہ کچھ دنوں میں مارکیٹ سے جہاں اشیاء خوردونوش غائب ہوں گی وہیں پر ان اشیاء کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرنا شروع کردیں گی اور کورونا کا مسئلہ اپنی جگہ برقرار رہیگا بلکہ بلوچستان میں غذائی اشیاء کی قلت کا ایک اور مسئلہ پیدا ہوگاکیونکہ یہاں انڈسٹریز نہیں ہییں ہم اپنے تمام روزمرہ کی ضررویات ملک کے مختلف علاقوں سے پورا کرتے ہیں مجھے اس نام کی جمہوری حکومت پر حیرت ہورہی ہے کہ عوام کو تو ان انتظامی حقائق کے استعداد کار کی نا اہلی کا علم تو نہیں لیکن حکومت کواپنی استعداد کار کا علم ضرور ہے کورونا وائرس کی خبر سوشل میڈیا پھیلتے ہی اس سے بچاؤ کا واحدذریعہ ماسک مارکیٹ سے گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوگئے اور حکومت اس کی مارکیٹ میں دسیتابی کو یقینی بنانے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے اس کے بعد کورونا وائرس کے کیسز کاکوئٹہ میں انکشاف ہونے کے بعد ہینڈواش اور جراثم کش سینیٹائزر بھی مارکیٹ سے تا دم تحریر اس طرح غائب ہیں کہ اللہ کی پناہ ہو حکومت نے پبلک ٹرانسپورٹ کو بند کرنے کا فیصلہ کرکے عوام کو اپنے مفلوک حال میں زندہ در گور کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے کیونکہ سہولیات صحت نہ ہونے کی وجہ سے مقامی لوگ دیگر صوبوں سے کم از کم پرائیویٹ صیح اپنا علاج تو کروا لیتے لیکن اب اس کے لئے الگ سے گاڑی کروانی ہوگی۔ بلوچستان جعلی حکمیوں سے رحم کا طلبگار ہے بلوچستان پر رحم کیا جائے.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments