کیا کمال ہجوم ہیں ہم!


اب میں سمجھ سکتی ہوں کہ ہر پست اور رذیل کو یہاں حکمرانی کیسے عطا ہو جاتی ہے۔ ہر ڈھونگی، جھوٹا فراڈیا یہاں کرامات والا مقدس پیر بزرگ کیسے بن جاتا ہے اور اس غلام صفت ہجوم پر بیرونی آقا کیسے مسلط رہے ہیں۔

اس ہجوم نے اپنی ذہنی پسماندگی کے سبب کئی بار خون اور موت کی ہولی کھیلنے والوں کو اپنا جیتا جیتا لہو پیش کیا اور جب حملہ آور ان کے لہو سے سیراب ہو چکے تو بچ رہنے والوں پر جوتے کا سایہ کر کے حکمرانی اور بادشاہت کے مزے لیتے رہے۔

زیر پاپوش ہجوم آقا کی خوشنودی کی خاطر اس کی ناموجود عظمت کی داستانوں کو جہالت اور ذہنی غلامی کی سیاہی سے تحریر کرتا رہا اور یوں ہماری تاریخ کی بدبودار ہانڈی سونے چاندی کے خوانوں میں پک کر اتری۔

کبھی عرب تو کبھی مغل ہمارے ہیرو، نجات دہندہ اور بنا چرواہے کی بھیڑوں کے رکھوالے بن کر سامنے آئے۔

یہ دور بیتا تو سفید چمڑی والوں کو اس خطے کے ذہنی غلاموں کو کام میں لانے کا موقع ملا۔ برطانیہ کی سلطنت میں ہندوستان بھی ایک باجگزار کے طور پر شامل ہو گیا۔ ایک طویل عرصہ انہوں نے ان نیم مردہ لوگوں کی ذہنی حسیات سلانے کا کارنامہ انجام دیا اور چلتے بنے۔

چونکہ ہر کسی کو اس کے حصے کے احمق اس خطے سے مل جاتے تھے لہذا کھیل کو دلچسپ بنانے کے لئے تقسیم کا عمل شروع ہوا۔ ہم ادھر، تم ادھر! ہندو مسلم، اسلامی ریاست، ہند صرف ہندووں کا!

لاکھوں لٹے، ہزاروں مرے اور احمقوں کو خاردار تاروں کے ذریعے تقسیم کر دیا گیا۔ ۔

بھیڑیں سرشار تھیں کہ رکھوالا موجود ہے، بھیڑیوں سے بچا لے گا اور یہ الگ بات کہ ان کے ادھڑے نچے جسم اور لہو لہو کھالیں انہیں کسی اور ہی حقیقت کا پتہ دیتی تھیں۔

کچھ وقت اپنے اپنے باڑے میں جگہ بناتے نکل گیا اور جب ٹھنسے ہوئے ہجوم کو لاشیں دفنانے یا تلف کرنے سے ذرا فراغت نصیب ہوئی تو انہیں دوسری بھیڑوں کو لات مارنے کی طلب بے حال کرنے لگی۔

دونوں کا خیال تھا کہ یہ جگہ صرف ان کا حق ہے۔ دوسری بھیڑوں کو تلف ہو جانا چاہیے۔

دو تین بار باڑا کود پھلانگ کر اس شوق کی لو بھی مدھم ہو گئی۔

ذہنی غلاموں کا ہجوم نسل در نسل اس عظمت رفتہ کی داستانوں کو سن سن کر بڑھتا رہا جن سے ان کو دور کا واسطہ بھی نہیں تھا۔ یوں سمجھئیے! ایک غلام ابن غلام بادشاہ کی ذہانت اور شجاعت کے قصے کو خود سے جوڑ کر بیان کرتا ہو کیونکہ اسے بادشاہ نے اپنا تیروں کا اضافی تھیلا، تلوار یا زرہ بکتر تھما کر بادشاہت کے مس سے آشنا کر دیا تھا۔

ایک طویل عرصہ یہ سڑی ہوئی تاریخی ہانڈی کھانے کے بعد جو نسل تیار ہوئی وہ خصائل میں اگلوں کو بھی شرماتی تھی۔ ذہنی غلامی سانپ کے زہر کا نشہ بن کر ان کی رگوں میں سرائیت کر چکی تھی اور معاملات کو مزید دلچسپ بنانے کی خاطر ہر قبیل کے لوگ اپنے اپنے احمق چن کر مداری کا کھیل شروع کر چکے تھے۔

سیاست، عقائد، غیرت، حمیت، لسانیت، مسلک، مذہب غرضیکہ کون سا ایسا علم نہ تھا جس کے نیچے کوئی چھوٹا موٹا لشکر جمع نہ ہوا۔

پہلے پہل آقا مسلط ہوتے تھے، اب خود ہی چن لئے جاتے اور پھر وہ من پسند آقا سے اکتا کر کسی اور کو چننے کی تیاری کرنے لگتے۔

مذہب کا چورن بیچنے والوں کو تو سیاستدان بھی حسرت سے دیکھتے تھے۔ ایک اشارے پر مخالفین کو کفر کے فتوے لگا کر موت کے گھاٹ اتروانا تو بائیں ہاتھ کا کھیل تھا اور اس سلسلے میں انہوں نے شہادت کے پروانے بھی محفوظ رکھے ہوئے تھے جو اس میں کام آ جانے والے پاگلوں کے وارثوں کو تھما دیے جاتے۔

ذہنی پستی کی انتہا کو پہنچے ہوئے اس ہجوم نے اپنی بچی کچھی سوچ اور سوال کی طاقت کو عجیب و غریب اعتقادات کی بھنگ پلانا شروع کر دی۔ چونکہ سوچنا اور سوال کرنا ایک ایسی صفت ہے جو انسان پر اپنے اعمال کا بوجھ بھی ڈالتی ہے اور خود اپنا محاسبہ کرنے کی سزا بھی تجویز کرتی ہے اور وہ یہ چاہتے تھے کہ ان کے سب اعمال کی رسی کا سرا مولانا صاحب، شاہ صاحب، ملک صاحب اور چوہدری صاحب کے گلے میں بندھا ہو۔

حال مست لوگ ستر سال تک صرف اس لئے جیتے رہے کہ وہ پیدا ہو گئے تھے لہذا جینے کی سزا تو پوری کرنی ہی تھی۔ شعبدہ بازوں نے انہیں خوب استعمال کیا اور سفید آقاوں کے حسین ملکوں میں ٹھکانے بنائے۔ وہ لوہا جس سے ان کو پھاوڑے اور ہتھوڑے اور درانتیاں اورآریاں بنانی چاہئیں تھیں، اس سے توپ بنی، جہاز بنے، ٹینک بنے اور بندوق بنی۔

جس ذہنی استعداد سے شفا، حیات، ترقی، کھوج اورعلم کی راہیں روشن ہونا تھیں وہ نیوکلئیر بم بنانے میں صرف ہوتی رہی۔

اور پھر ایک جرثومہ جنم لیتا ہے!

دنیاکے مختلف حصوں میں کاروبار زندگی کو منجمند کرتا ہوا جب وہ اس انوکھے خطے میں پہنچتا ہے جہاں نہ تو باقی ممالک جیسی سہولیات ہیں، نہ بجٹ ہے، نہ انتظامی اور ہنگامی امور سنبھالنے کی صیلاحیت ہے! جہاں آبادی وسائل سے دوگنا رفتار سے بڑھ رہی ہے، جہاں معاش کی ڈوبتی نبض کو پکڑنے والا کوئی نہیں، جہاں صحت جیسے بنیادی شعبے کو ہمیشہ پس پشت ڈالا گیا وہاں COVID 19 کی تباہ کاریوں کو دوسرے ممالک میں دیکھنے کے باوجود جس طرح عوام اور حکومت نے آنکھیں بند کر رکھئی ہیں اس سے فقط یہ علم ہوتا ہے کہ اس ہجوم نے مرنے مارنے کی نفسیات سے کبھی بھی باہر نہیں آنا۔

خطرے کو محسوس کرنے کی وہ حیوانی جبلت بھی ان میں باقی نہیں رہی جو ہرن کو شیر کی بو سے خبردار کرتی ہے۔

کوئی پیر بابا کی پھونکوں سے قلعہ بند ہے، کوئی بنگالی بابوں کے تعویذوں کی پناہ میں ہے۔ کوئی قران مقدس میں بال ڈھونڈتا ہے، کوئی خوابوں میں الہام ہونے والے طریقہ علاج پر تکئہ کیے ہوئے ہے اور کوئی عالم اسباب کو یکسر رد کرتے ہوئے معجزوں کا منتظر ہے!

موت نادیدہ پنچے گاڑ رہی ہے مگر بازار روشن ہیں۔ دم گھونٹنے والا موذی شکنجہ دن بہ دن کسا جاتا ہے مگر تھڑے اور گلیاں آباد ہیں۔

کوئی گھر پہ رہنے کو تیار نہیں، کوئی اپنے پیاروں کی فکر نہیں کر رہا، کسی کو سوچنے کی زحمت نہیں کرنی!

جئیے جا رہے ہیں جب تک وائرس گلا نہ گھونٹ دے!

اور میں تھک ہار کر سوچتی ہوں کہ شاید یہ قدرت کا وہ لٹمس ٹیسٹ ہے جس کے بعد وہ ازسرنو طے کرے گی کہ آئندہ زمین کا نظام کن بنیادوں ہر کون لوگ چلائیں گے!

اورمجھے ڈر ہے!

کہ ان میں ہم شامل نہیں ہوں گے!

مریم مجید ڈار
Latest posts by مریم مجید ڈار (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments