میں نے لاہور سے لندن تک کورونا والی چھینک کا مقابلہ کیسے کیا؟


میں ہفتہ کی صبح آٹھ بجے ملتان سے لاہور ائیرپورٹ کی طرف چلا۔ تقریبا چار گھنٹے میں ہم براستہ موٹروے لاہور ائیرپورٹ پہنچے …. زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ ہم اپنا روزمرہ کا تقریبا نوے فیصد کام اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں اور اب ہمیں اپنے ہاتھوں کو اس انفیکشن سے بچانا ہے- سب سے زیادہ سیریس جگہ موٹر وے پر ٹول پلازہ لگے۔ اس میں بیٹھے افراد کتنے ہزاروں لوگوں سے روزانہ کیش کی وصولی اور ادائیگی کے دوران انٹرایکشن کرتے ہوں گے؟ میں نے نوٹ کیا کہ ان کی بڑی تعداد نے ماسک تو پہنا ہوا تھا مگر دستانے نہیں …. کیوں ؟ اگرچہ اس بیماری کا سانس سے انتہائی کم مگر ہاتھوں کے چھونے اور پھر چہرے سے لگانے سے گہرا تعلق ہے۔ یہ تو بیماری کی ٹرانسمیشن کا پورا بندوبست نظر آئے۔

لاہور ائیرپورٹ پہنچا …. صرف ایک آدمی کو اجازت تھی کہ وہ آپ کے ساتھ departure گیٹ تک جا سکتا تھا- ایئرپورٹ میں داخل ہوا، عملہ خصوصا کسٹم والے جو ہر آنے والے بندے کو دور سے ہی پکڑ لیتے تھے کہ سامان چیک کراو اور یہ چیز کیوں رکھی ہوئی ہے کہاں جا رہے ہو کیوں جا رہے ہو قسم کے سوالات کرنے میں طاق ہیں آج دور ہی کھڑے رہے۔

بورڈنگ کے لئے لائن میں لگا۔ ہر دس میں سے نو افراد نے ماسک لگایا ہوا تھا …. سو میں نے بھی جلدی سے ماسک نکالا اور پہن لیا …. یہ کیا ؟ ماسک تو چھوٹا نکلا۔ میرا چھوٹا بھائی ماسک لے کر آیا تھا اس لئے فارمیسی والے نے شاید اس کے سائز کا ماسک دے دیا تھا۔ پہلی بار اپنے بڑے منہ پر غصہ آیا۔ کھینچ تان کر ماسک چہرے پر لگایا جس کا اثر یہ ہوا کہ کھنچاؤ کے سبب کان آگے کو آ گرے۔ جب چلنا شروع کیا تو ہر شخص سر کے بے ترتیب بالوں، موٹی موٹی بھنوؤں اور آگے کو نکلے ہوئے کانوں والے ایک شخص کو (یعنی مجھے) حیرت سے دیکھ رہا تھا۔

ائیرپورٹ پر کچھ دیر انتظار کرنے کے دوران نوٹ کیا کہ بین الاقوامی پرواز سے آنے والوں کی ٹھیک ٹھاک سکریننگ ہو رہی تھی، کوائف بنائے جا رہے تھے اور عملہ انتہائی مستعد لگ رہا تھا۔ مگر ایسا کوئی انتظام جانے والوں کے سلسلے میں نہیں تھا۔ امارات ایئر لائن کی اس پرواز میں تبلیغی جماعت سے منسلک بہت سے یورپ جانے والے افراد بھی ماسک لگائے سفر کر رہے تھے۔ ایک سے جب سبب پوچھا تو معلوم ہوا کہ ان کا اجتماع ہوا ہے جسے اس تبلیغی صاحب نے جوڑ بتایا۔ یا الہی رحم فرما ورنہ تو ان لوگوں نے وائرس پھیلانے کا ٹھیک ٹھاک بندوبست کر رکھا تھا۔

دبئی انٹرنیشنل ائیرپورٹ پہنچا۔ دیکھ کر دل کو ملال ہوا۔ دنیا کا انتہائی مصروف ائیرپورٹ جہاں ہر طرف چہل پہل ہوتی تھی۔ حسین و جمیل خواتین، ہنستے مسکراتے قہقہے لگاتے بچے، تیز قدموں سے چلتے اور اپنی فلائٹ تلاش کرتے مسافر اور سب سے بڑھ کر پرامید شرارتی نگاہیں ….. یہ سب کچھ کہیں بھی نہیں تھا۔ چند لوگ، مایوس چہرے، تقریبا ہر چہرے پر ماسک اور فاصلہ رکھتے مسافر … سب غیر معمولی لگا۔ میں نے سوچا کہ کرونا سے پہلے جسے ہم عام حالات سمجھتے تھے ان میں کتنی خوشی اور رونق ہوتی تھی … وہ سب اب تصور میں کتنا خوشگوار لگتا ہے جسے ہم معمولی اور بورنگ سمجھتے تھے۔

دبئی ائیرپورٹ پر تقریبا نو گھنٹے کا سٹے تھا۔ ملتان سے میرے دوست اور میرے مہربان میاں کاشف صاحب نے وٹس ایپ کیا کہ وقت پر نکل گئے، پاکستان نے انٹرنیشنل فلائٹس کی آمد کینسل کر دی ہے۔ میں واقعتا گھبرا گیا۔ اگر یو کے نے بھی ایسا کر دیا تو میرا کیا ہو گا؟ میں تو اس ائیرپورٹ پر پھنس جاؤں گا … میں تو رل (سرائیکی لفظ، مطلب برباد) جاؤں گا۔ فلائٹس کا شیڈول دیکھا تو پتا چلا کہ نیو یارک اور دیگر شہروں کی فلائٹس کینسل ہو رہی ہیں۔ الہی رحم، کسی ایک جانب تو منزل کھلی رکھ۔ ذہن سوچنے لگا کہ اگر یو کے بھی کینسل ہوا تو میں کہاں جا سکوں گا ؟ کوئی در نظر نہ آیا، دل نے کہا : پاکستان نے تو ہمیں ایک دم سے اپنانے سے انکار کر دیا ہے مگر گورے کم از کم اڑتالیس یا بہتر گھنٹے ضرور دیں گے کہ جس نے آنا ہے تو آ جائے۔ اس امید اور ناامیدی کے درمیان سات گھنٹے پورے کئے۔ فلائٹ سے دو گھنٹے بیشتر جب چیک ان شروع ہوا تو جان میں جان آئی۔

امارات کی یہ فلائٹ فل تھی۔ ہر طرف گورے ہی گورے دیکھ کر مسرت ہوئی کہ اکیلا نہیں جا رہا۔ اب ایک مشکل بھی آن پڑی۔ مجھے ڈسٹ اور تیز اے سی سے جلدی الرجی ہوتی ہے انٹی الرجی دوائی ہر بارہ گھنٹے بعد کھا رہا تھا مگر ڈر تھا کہ کہیں چھینک آ گئی تو عوام نے جہاز کی چھت پر چڑھ جانا ہے۔ خیر شال سر پر ڈالی اور اندرون شال کا ٹمپریچر نسبتا معتدل ہو گیا …. پورے سات گھنٹے کی اس فلائٹ میں میں نے اپنی چھینک اور ہلکی سی آہوں مطلب کھانسی سے لڑنا تھا، کامیابی ہوئی مگر پانچ گھنٹے کے لئے …. اور پھر ایک دم زور سے چھینک آئی کہ در و دیوار لرز اٹھے۔ شال سے منہ باہر نکال کر دیکھا سواریاں ناشتہ کر رہی تھیں اور کسی نے چھینک کا نوٹس نہ لیا …. سو میں نے بھی ناشتہ کی تیاری باندھ لی اور ناک و منہ کے حدودو اربعہ کو معتدل رکھنے کے لئے ماسک چڑھا لیا جب تک کھانا سرو نہ ہوا …. ناشتہ کر چکنے کے بعد، ناک میں پھر خراش ہوئی … الہی اب نہیں، پلیز نہیں، مگر پھر چھو کی زوردار آواز نکلی …. اردگرد دیکھا سب اپنے آپ میں مگن تھے، خدا کا شکر ادا کیا … جلدی سے اٹھا انٹی الرجی کی گولی نکال کر نگل گیا … مگر اس چھینک آنے اور نہ آنے کی کیفیت میں ہی رہا ۔

لندن کے گیٹ وک ائیرپورٹ پر اترا، سب نارمل تھا … جلدی سے امیگریشن ہوئی اور باہر نکل آیا … یہ کیا کوئی سکریننگ نہیں ہوئی، کوئی ٹیسٹ نہیں ہوا، کوئی ٹریول ہسٹری نہیں پوچھی گئی اور نہ ہی سلف isolation کی کوئی تجویز دی گئی …. باہر نکلا، گورے گوریاں اپنے منتظر افراد سے بغل گیر تھے، ایک ماں اپنی بیٹی کو گلے لگائے اسے لوو یو لوو یو کہے رو رہی تھی …. دس میں سے ایک دو افراد نے ماسک لگایا ہوا تھا۔— باہر نکلا ٹرین لی … وہی نارمل رویے، دیکھ کر مسکرا دینا یا اپنے کام میں مست رہنا …. وکٹوریا سٹیشن پہنچا اپنے گھر کی ٹرین لی …. رش کم تھا مگر لوگ سفر کر رہے تھے اگرچہ سنڈے کی صبح تھی …. گھر کے قریب پہنچا تو دیکھا کچھ لوگ جاگنگ کر رہے تھے فٹ پاتھ پر چلتے سمے فاصلہ رکھ رہے تھے ….

آج صبح جاگنگ کے لئے باہر گیا تو دیکھا کم تعداد میں لوگ سڑکوں پر تھے مگر تھے ….. ان سے خود بھی فاصلہ رکھا، تھوڑی سی دوڑ لگائی اور پھر گھر آ گیا …. کل اور آج سورج مکمل آب و تاب سے چمک رہا ہے اگر نارمل حالات ہوتے تو لوگ لطف اٹھا رہے ہوتے … مگر اکثریت اپنے گھروں میں ہے اور کرونا سے چھٹکارے کے لئے دعاگو …. انسانیت کا حسن ہے کہ ہر بڑے چیلنجز کے خلاف متحد ہو جاتی ہے …. یہ وقت بھی چلا جائے گا اور ہم دوبارہ ان نارمل حالات میں چلے جائیں گے جو آج ہمیں خوشگوار محسوس ہوتے ہیں یقینا تب ہم ان کی قدر کریں گے اور شکرگزار ہوں گے۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments