کرونا وائرس، ہماری تیاری اور اداکار مُلا


شہرہ آفاق فلسفی ارسطو کا یہ ماننا ہے کہ ریاست انسانوں کی بقا اور حکومت بہترین زندگی کی ضمانت ہے۔ دنیا بھر کے دوسرے ملکوں کی طرح وطن عزیز بھی اس وقت کرونا کی بدترین وبا کو بھگت رہا ہے۔ بلاشبہ یہ ایک قدرتی آفت ہے لیکن اپنے شہریوں کو ایسی آفات سے نکالنا ریاست اور حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ گزشتہ کالم میں بھی اس طرف توجہ دلائی تھی کہ موجودہ جدید ریاست کے دور میں چین اس کی بہترین مثال بن کر ابھر اہے۔ پاکستان میں حالات کچھ مختلف ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے صوبے میں لاک ڈاؤن کا اعلان کرتے ہوئے بجلی اور سوئی گیس فراہمی کے ذمہ دار اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ عوام کو لاک ڈاؤن کے اثرات سے بچانے کے لئے ریلیف دیں۔ دیکھئے یہ امید بر آتی یا نہیں۔

صوبہ پنجاب میں کاروبار کی دو روزہ بندش نے کافی حد تک شہریوں کو تنہائی اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ شہروں میں زندگی ابھی رواں دواں ہے۔ شہریوں کی ایک بڑی تعداد حکومتی ہدایات کے باوجود کرونا سے بچاؤ کی تدابیر کی بجائے اس بیماری کا ٹھٹھہ اڑانے میں مصروف ہے۔ قومی مزاج یہ ہے کہ سب کچھ حکومت پر چھوڑ دو۔ بعض شہریوں نے کرونا وائرس کو بھی جگت بازی کا تھیٹر بنا دیا ہے۔ حالت یہ ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے بندے کو بھی ہاتھ ملانے سے منع کریں تو اس کا تھوبڑ ا سوج جاتا ہے۔ پرسوں درزی سے سوٹ اٹھانے گیا تو جواب ملا ہاتھ ملانا تو سنت ہے۔ توہین مذہب کا ڈر نہ ہوتا تو اس ”سنتی بھائی“ کی تسلی کے لئے بہت سے سوالات ذہن سے زبان تک آجاتے۔ ایسے تمام عناصر کا حل صرف یہ ہے کہ انہیں مولانا پسروری کی طرح پولیس سے ”مکمل بریفنگ“ دلائی جائے۔

اتوار کو رات گئے لاہور سے ایک اندوہناک خبر موصول ہوئی۔ سٹی فورٹی ٹو اور چینل ٹونٹی فور کے ایک پروڈیوسر میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے۔ مقامی طور پر وائرس کے پھیلاؤ کی خبر کس قدر ہولناک ہے اس کا اندازہ صرف وہ لوگ کر سکتے ہیں جو ٹیلی ویژن چینلز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ صحافتی برادری کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ٹی وی کا ایک پروڈیوسر اپنے اوقات کار میں کس قدر متحرک اور مصروف ہوتا ہے۔ اس دوران وہ اپنے دفتر ہی میں بیسیوں افراد سے میل جو ل کر چکا ہوتا ہے۔

ٹیلی فون، کمپیوٹر، دفتری دستاویزات کا استعمال عام ہوتا ہے۔ سوموار کا دن ہے اور سہہ پہر چار بجے کا وقت۔ لاہور انتظامیہ ابھی تک سوئی ہوئی ہے۔ مذکورہ چینلزکی عمارت کو فوری سیل کرنے کے بعد ڈس انفیکٹ کرنا ازحد ضروری تھا۔ کرونا وائرس کا شکارپروڈیوسر کی شفٹ میں کام کرنے والے تمام کارکنوں کو قرنطینہ میں منتقل کرنا بھی لازمی تھا۔ تاحال ان اقدامات کے بارے کوئی خبر موصول نہیں ہوئی۔ وزیر آباد میں اب تک چینل کے نمائندے کا کرونا ٹیسٹ بھی مثبت آیا ہے۔

کل تک ریلوے کے پارلیمانی سیکرٹری یہ فرما رہے تھے کہ ایران سے آنے والے زائرین کے لئے فیصل آباد میں قرنطینہ قائم کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں۔ آج کی خبر یہ ہے کہ جھنگ روڈ پر زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے ذیلی ادارے PARS میں زائرین کو منتقل کردیا گیا۔ دوسرا قرنطینہ مرکز قائم کرنے کے لئے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے ہاسٹلز کی عمارت خالی کروا لی گئی ہے۔ یہ دونوں قرنطینہ مراکز آبادی کے عین بیچ میں واقع ہیں۔

کہا یہ جاتا ہے کہ ہم پندرہ فروری سے تیاری کر رہے تھے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پانچ ہفتے سے زائد عرصے میں ہم ایرانی سرحد کے قریب ایک بھی قرنطینہ مرکز نہیں بنا پائے۔ مشتبہ مریضوں کو ملک کے مختلف شہروں میں پھیلایا جار ہا ہے۔ خدا جانے تیاری کسے کہتے ہیں۔ خاکم بدہن، مجھے اس بات میں اب کوئی شبہ نہیں رہا کہ ہم بحیثیت قوم اس مصیبت میں پوری طرح جکڑے جانے کے تمام انتظامات مکمل کر چکے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کا فیصلہ مگر یہ ہے کہ ابھی لاک ڈاؤن کی نوبت نہیں آئی۔ ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں جو محدود ہے وہی محفوظ ہے۔ قوم سے خطاب میں انہوں نے فرمایا ہے کہ لاک ڈاؤن سے ملک کی پچیس فیصد غریب آبادی کی جان کو خطرات لاحق ہیں۔ اس خدشے کا مگر کوئی حل نہیں کہ لاک ڈاؤن نہ ہونے کی صورت میں سو فیصد آبادی کی جان کو خطرات لاحق ہیں۔ چین سمیت دنیا بھر میں مختلف ملکوں کے اقدامات ہمیں چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ اس مصیبت سے چھٹکارے کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے دو سے تین ہفتے کا لاک ڈاؤن۔ پاکستان میں لیکن پچیس فیصد آبادی کو بچانے کے لئے باقی پچھتر فیصد کو بھی حالات کے رحم و کرم پر چھوڑدیا گیا ہے۔

دو سے تین ہفتے کے لاک ڈاؤن کے دوران غریبوں کے کھانے پینے کا انتظام کرنے کی تشویش بجا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ پاکستانی قوم اس قابل نہیں۔ ابھی چند منٹ پہلے خبر موصول ہوئی ہے کہ دعوت اسلامی لاک ڈاؤن کے دوران غریب اور ضرورت مند گھرانوں کو راشن تقسیم کرے گی۔ جماعت اسلامی بھی اپنے زیر انتظام ہسپتال طبی خدمات کے لئے وقف کر چکی۔

حکومت لیکن مصر ہے کہ لاک ڈاؤن کیا تو غریب کھائیں گے کہاں سے۔ ایک ایسی شخصیت جو شوکت خانم ہسپتال کے ناممکن کو ممکن کر دکھانے کی بجا طور پر دعویدار ہے۔ اس کا یہ خدشہ کچھ مناسب نہیں۔ اس ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو غربا کے لئے دو تین ہفتے کے کھانے پینے کا بندوبست کرسکیں۔ ہمارا یہ دعوی ہے کہ پاکستانی قوم دنیا میں سب سے زیادہ خیرات کرنے والی قوم ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اس دعوے کو سچ ثابت کر دکھایا جائے۔

کیا حج اور عمرے پر اربوں کھربوں سالانہ خرچ کرنا ضروری ہے یا پوری قوم کو اس آفت سے بچانا؟ کیا حکومت اس قابل بھی نہیں کہ 15 یاریسکیو 1122 کی طرز پر فوراً ایک ہیلپ لائن قائم کر سکے۔ حکومت کے زیر انتظام پٹواری، نائب تحصیلدار، تحصیلدار، اسسٹنٹ کمشنرز، پولیس اہلکار، ریسکیو کے کارکن یا فوج کی نفری کس دن کام آئے گی؟

بقول وزیراعظم اناج یا راشن کی کمی تو ہر گز نہیں اور حکومتی اہلکار ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈاؤن بھی کر رہے ہیں۔ پھر اتنی دقّت کاہے کی؟ حکومت کو صرف یہ کرنا ہے کہ غربا کی مدد کے لئے نجی تنظیموں اور مخیر حضرات کو حکومتی نظام کے ساتھ اشتراک کا ر کا ایک نظام وضع کردے۔ لاک ڈاؤن کے دوران جس گھرانے کو بھی راشن کی ضرورت ہو وہ اس ہیلپ لائن پر رابطہ کر لے۔ حکومتی اہلکاران سے رابطہ کریں اور راشن کی مطلوبہ مقداران کے گھر پہنچائیں۔

دیہات ہوں یا شہر، اس قوم کے بہت سے افراد گلی محلوں میں اپنے طور پر بھی ضرورت مندوں کے لئے کھانا فراہم کر رہے ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں میں سیلانی، چھیپا، ایدھی اور بحریہ ٹاؤن کے دستر خوان کیا اس کی سند نہیں؟ کرنا صرف یہ ہے کہ یہ کھانا عزت کے ساتھ ان غریبوں کے گھر تک پہنچا دیا جائے۔ وزیراعظم صاحب، قوم کے ان غریبوں کو عزت دیجئے۔ آپ کو عزت قوم کی دعاؤں سے ملے گی۔ شہرت کے بھوکے دین فروش ملاؤں کی اداکاری سے نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments