اک عشق کا غم آفت اور۔۔۔ پھر کورونا کے خود ساختہ طبیب


روم جل رہا تھا، آگ کی لپٹیں آسمان کو پہنچ رہی تھیں اور رومن شہنشاہ نیرو کی بانسری مدھر تانیں بکھیر رہی تھی۔

اب کیا کہیے کہ ہمیں بانسری کی لے ہمیشہ رگ جاں سے بہت قریب محسوس ہوئی یوں جیسے جیون کی رمزیں کھولتی یہ کوک ہمیں کہیں اور، کہیں دور لے جاتی ہو۔ شاید یہی وہ کشش تھی جو ہمیں اسی کی دہائی میں وائی ڈبلیو سی اے  کے میوزک سکول تک لے گئی۔ گرمی کی تپتی دوپہروں میں کالج سے آنے کے بعد ہم بانس کی اس ہاتھ برابر جادو کی چھڑی میں چھپے بھید سیکھنے وہاں پہنچ جاتے۔ جانے آسمان ہمارے شوق کا بوجھ نہ سہار سکا یا ہوسٹل کے باسی ہماری مشق سے اوبھ گئے کہ ہم اپنا شوق تج کے نامور بانسری نواز بنتے بنتے رہ گئے۔

ابتلا کے اس وقت میں یہ بھولی بسری یاد یوں آئی کہ کسی یار عزیز کا ہوا کے دوش پہ لہراتا پیغام ہم تک آن پہنچا،

” یارTK ! (ہمارا کالج میں پکارا جانے والا نام )، کرونا یاد کرو اس وقت، اس پہ لکھو، عورت کی راگنی الاپنا چھوڑو”

بخدا، ہمیں نیرو نہ سمجھیے گا جو روم میں لگنے والی تباہ کن آگ سے بے نیاز اپنے محل کی کھڑکی میں بیٹھا موسیقی سے دل بہلا رہا تھا اور یہ افتاد اس کو ہراساں نہیں کرتی تھی۔ دیکھیے نہ تو بادشاہت کے کسی سلسلے سے ہمارا تعلق ہے اور نہ ہی دل ایسا پتھر کہ فضا میں تیرتے خوف و ہراس کے بادل ہم پہ اثر انداز نہ ہوتے ہوں۔

امید و بیم میں وقت گزرتا ہو تو ایک خیال دل کو چھو لیتا ہے کہ جب دن رات ایک ہی کہانی ہو، ایک ہی بات کا اوڑھنا بچھونا ہو اور یہ بھی خبر نہیں کہ کب کرونا کی نظر سے گھائل ہو جائیں تو کیا مضائقہ ہے کہ کتاب جو ہماری اولین محبتوں میں سے ایک ہے ، میں بیان کی گئی حکایتوں کی بات کی جائے۔ زندگی کی آخری سانس تک کنول پھول اور تتلیوں کے پروں کا ذکر چھیڑا جائے۔

ویسے بھی سانس کی کیا خبر کہ کرونا کے خلاف ہونے والی جنگ میں ہم صف اول کے سپاہی ہیں، کفن باندھ کے روز گھر سے نکل کے ہسپتال پہنچ جاتے ہیں۔ دنیا کے مختلف ہسپتالوں میں کچھ طب کی شاخوں میں ایسا بندوبست کیا گیا ہے کہ مریض کو انٹر نیٹ کی مدد سے دیکھ کے مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ وہ گھر ٹھہرے یا ہسپتال آئے۔ لیکن کیا کیجیے کہ ہمارے شعبے میں ایسا ممکن نہیں۔ ہمارے ناتواں کندھوں پہ ان ننھی روحوں کی ذمہ داری ہے جنہیں ماں کے ذریعے دیکھنا بھی ہے اور اس پرآشوب دنیا میں قدم رکھنے میں مدد بھی کرنی ہے۔ آج بھی بیسیوں مریضوں کا الٹرا ساؤنڈ کرتے ہوئے سوچتے رہے کہ نہ جانے کون اس موذی کا شکار بن چکا ہے اور اگلا نشانہ کون ہے؟

ہر دن مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان کی کیفیت کے بارے میں پل پل کی خبر پہنچ رہی ہے۔ ہسپتال کے عملے کے لئے خصوصی ہدایات کا اجرا ہر دم ہے۔ ہم ان افراد میں شامل ہیں جن کی اپنی جان تو خطرے میں ہے ہی، ساتھ میں افراد خانہ بھی فالٹ لائن پہ بیٹھے ہیں۔

“اماں! آپ نسیم آنٹی (ہماری ہیلپ (کو سمجھا دیجیے گا کہ آپ کا کوٹ اور کپڑے خاص احتیاط سے چھوئیں۔ دیکھیے نا، وہ بڑی عمر کی ہیں، شوگر کی مریض بھی ہیں سو کرونا کا شکار آسانی سے ہو سکتی ہیں”

حیدر، میرے کم عمر بیٹے کے منہ سے نکلنے والے یہ الفاظ تھے یا مژدہ جانفزا! یک لخت محسوس ہوا کہ عمر رائیگاں نہیں گئی، ہم نے انسانیت کے درد کی جو شمع روشن کی تھی، وہ کچھ اور دلوں کو بھی منور کر چکی ہے۔

پردیس میں جنگ تو لڑ ہی رہے ہیں لیکن دیس کا حال جان کے افسردگی کا شکار ہوئے جاتے ہیں، جہاں ہماری قوم کے افراد اس نازک گھڑی میں بھی اپنی اپنی ڈفلی بجا رہے ہیں۔ مسجد و منبر کا استعمال ان ناسمجھ نادان دوستوں کے ہاتھ آچکا ہے جن کی حالت زار اکبر الہ آبادی نے کچھ یوں بیان کی تھی

دعائیں یہ کرتے ہیں لیٹے ہوئے

کہ دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑیں

ان صاحبان علم نے شاید سائنس کی الف بے بھی نہ پڑھی ہو۔ وائرس، بیکٹیریا اور ایسی بہت سی نامراد چیزوں کے بارے میں جاننے کا کوئی اشتیاق بھی نہ رکھتے ہوں لیکن اس ناخواندگی کے باوجود انہیں اپنی دوکان چمکا کے یہ لیکچر دینے میں کوئی تامل نہیں کہ احتیاط کی ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہے۔ سو کندھے سے کندھا ملائے چلو کہ اسلام میں چھوت چھات کا کوئی حکم نہیں۔

قوم کو بھی ایک مشغلہ آیا ہے۔ مفت مشورے، ٹوٹکے اور احتیاطی تدابیر زنبیل سے ایسے برامد ہو رہی ہیں جیسے کلاشنکوف کی گولیاں۔ ہمیں حسرت ہی رہی کہ یہ غیب کے مضامین کبھی کسی پائلٹ کو جہاز اڑانے، کسی توپچی کو توپ کا گولہ پھینکنے یا کسی انجینئر کو مشینری کے پرزے کے بارے میں بھی سمجھائے جائیں۔ ایک صحت ہی ایسا شعبہ دکھائی دیتا ہے جس کے ماہر پنساری، حجام، حلوائی کے ٹھکانوں سے لے کر گلی کی نکڑ پہ براجمان فارغ البال، زندگی سے بیزار بڑی بوڑھیوں میں کثرت سے ملتے ہیں۔ کبھی یہ نسخے سینہ بہ سینہ چلا کرتے تھے اب بھلا ہو سوشل میڈیا کا کہ ہر دوسرا اپنی صحت چھوڑ، دوسرے کی فکر میں مبتلا، ہدایات جاری کر رہا ہے۔

پس ماندہ، علم کی روشنی سے محروم سے کیا ہی گلہ کریں کہ تعلیم یافتہ طبقہ بھی احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ چھٹیاں ملنے کا مقصد موج میلہ اور مستی کی چھٹی سمجھا جا رہا ہے۔ کسی کالم ہی سے معلوم ہوا کہ کہیں صحافی بھائیوں نے نہاری کی دعوت اڑائی ہے تو کہیں گپ شپ اور لطیفہ گوئی عروج پہ ہے۔ کہیں عرصے سے رکے ہوئے کام یاد آ رہے ہیں تو کہیں ویسے ہی ہرا ہرا سوجھ رہا ہے۔ وہی ہمارا روایتی انداز،

” او چھڈو جی، فیر جو قسمت وچ لکھیا اے، او تے ہووے گا ای”

کاش اپنی قسمت پہ صابر وشاکر یہ لوگ، ان لوگوں کی قسمتوں سے نہ کھیلیں جو جینے کی تمنا رکھتے ہیں۔

اپنا پیغام محبت ہے، جہاں تک پہنچے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments