پنجاب میں ’لاک ڈاؤن‘: ’کس کو شوق ہے باہر نکل کر مرنے کا، بچوں کے دودھ کے لیے نکلنا پڑتا ہے‘


کورونا

صوبائی دارالحکومت لاہور کی سڑکیں سنسان ہیں، ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے۔ بہت کم لوگ گھروں سے باہر صرف ضروری اشیا خریدنے نکلے ہیں اور وہ بھی بھی اکیلے۔ چلتے ہیں تو دو اشخاص کے درمیان مناسب فاصلے کی طبی ہدایت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے۔ ایک موٹر سائیکل پر ایک ہی سوار نظر آ رہا ہے۔

بہت سوں کے لیے شاید لاک ڈاؤن کا تصور کچھ ایسا ہی ہے۔ اور اگر آپ کے ذہن میں بھی یہی ہے کہ لاہور میں لاک ڈاؤن کے نفاذ کے بعد شاید اوپر بیان کیے گئے مناظر نظر آ رہے ہوں گے تو آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ لاہور میں ایسا کچھ نہیں ہے۔

لکشمی چوک شہر کے پْررونق علاقوں میں سے ایک ہے۔ یہاں سے ایک سمت گوالمنڈی تو دوسری طرف گڑھی شاہو کا علاقہ ہے اور ان علاقوں میں کھانے پینے کی مشہور و معروف دکانیں موجود ہیں۔

روزانہ ہزاروں افراد ان آبادیوں کی درمیان سفر کرتے ہیں۔ ان مسافروں کی پسندیدہ سواری زیادہ تر موٹر سائیکل، رکشہ اور چاند گاڑی یا ’چنگچی‘ ہوتی ہے۔

کورونا بینر

کورونا وائرس پر بی بی سی اردو کی خصوصی کوریج

کورونا: دنیا میں کیا ہو رہا ہے، لائیو

کورونا: پاکستان میں کیا ہو رہا ہے: لائیو کوریج

کورونا کے بارے میں آپ کے سوال اور ان کے جواب

کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟

کورونا وائرس: سماجی دوری اور خود ساختہ تنہائی کا مطلب کیا ہے؟


لکشمی کے علاقے میں ’چنگچیوں‘ کی سواری منگل کے روز صبح نو بجے کے بعد لاک ڈاؤن لاگو ہونے کے بعد بھی رْک نہ پائی۔ ایک، ایک چنگچی پر پانچ یا چھ افراد سوار ہو کر محوِ سفر نظر آئے۔

حکومتی احکامات پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے پولیس کو دخل اندازی کرنا پڑی۔ ایک موقع پر پولیس اہلکار نے ایک چنگچی کو روکا، پانچ عدد سواریوں کو اتار دیا گیا جبکہ چنگچی اور اس کے ڈرائیور کو تھانے میں بند کرنے کا فیصلہ ہوا۔ ڈرائیور نے پولیس اہلکار کی سامنے ہاتھ جوڑ دیے۔

بی بی سی کو موصول ہونے والی ایک ویڈیو میں ایک رکشہ ڈرائیور نے بتایا کہ دن بھر پولیس والے ان کو روک روک کر چالان کرتے رہے ہیں۔

https://www.facebook.com/bbcurdu/videos/541404796507092/

’یہ کہاں کا انصاف ہے۔ غریب آدمی بچوں کے لیے روزی کمانے نکلا ہے۔ پولیس والے روک کر سواریاں اتار کر بھاری چالان کر رہے ہیں۔ کورونا وائرس نے یہ کہا ہے کہ غریب بندہ باہر نہیں نکلے گا۔ تو کیا کرے گا؟‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ اگر دن میں رکشہ نہیں چلائیں گے تو کمائی نہیں ہو گی اور ان کی بچے بھوکے رہیں گے۔

’یا تو حکومت غریب کے گھر میں راشن پہنچائے، اس کے بل معاف کرے اور اس کو خرچہ دے ورنہ یہ کوئی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ کس کو شوق ہے باہر نکل کر مرنے کا، بچوں کے دودھ کے لیے نکلنا پڑتا ہے۔‘

ان کے آس پاس بہت سے ایسے موٹر سائیکل سوار گزر رہے تھے جو کم از کم دو اور کہیں کہیں چار، چار بھی ایک موٹر سائیکل پر سوار تھے۔ یہ نظارہ لاہور میں کئی مقامات پر دیکھنے میں آیا۔ بھٹہ چوک کے علاقے میں پولیس جگہ جگہ تعینات رہی اور موٹر سائیکل پر ڈبل سواری پر پابندی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے لوگ ان کے پاس سے گزرتے رہے۔

بی بی سی کو موصول ہونے والی ایک ویڈیو میں ایک موٹر سائیکل سوار نے بتایا کہ وہ ایک نجی کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ ’اپنے آپ کو بچانا تو ضروری ہے مگر کیا کریں بچوں کے لیے روٹی کمانے کے لیے نکلنا پڑتا ہے۔‘

کورونا

ڈبل سواری کی خلاف ورزی کرنے والوں میں اکثریت نوجوان لڑکوں کی تھی۔ لاہور پولیس کے ترجمان کے مطابق شہر میں کورونا ایمرجنسی کی خلاف ورزی پر 233 مقدمات درج ہوئے اور خلاف ورزی کرنے والے 548 افراد کو گرفتار کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر 23 مارچ کو 48 جبکہ مجموعی طور پر 201 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔‘ تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ لاک ڈاؤن کے پہلی روز خلاف ورزی کرنے والے کتنے افراد کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔

لاہور کی مخلتف علاقوں میں مسجدیں بھی معمول کی مطابق کھلی رہیں جہاں لوگ باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے آتے رہے۔ تاہم لاہور ہی کے ایک حصے میں پولیس اور پاکستانی فوج کے اہلکار باہر نکلنے والے افراد کو روک کر باہر نکلنے کی وجہ پوچھتے رہے۔

چند علاقوں سے ایسی معلومات بھی موصول ہوئی جہاں لوگوں واپس گھروں میں جانے کا کہا گیا۔ لاہور کا یہ حصہ ان علاقوں پر مشتمل تھا جو کنٹونمنٹ اور ڈیفنس کے زیرِ انتظام ہیں۔ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے مختلف علاقوں میں داخلی اور خارجی راستوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں نظر آئیں۔

تاہم غیر ضروری اشیا کی مارکیٹیں اور دکانیں شہر کی زیادہ تر علاقوں میں بند رہیں۔ ریڑھیوں اور چھوٹی دکانوں میں ضروری اشیا بیچنے والوں کی شہر کے اندرون کے علاقوں میں جگہ جگہ بہتات نظر آئی اور ان کی پاس خریدار معمول سے کافی کم مگر نظر ضرور آئے۔

کورونا

اس سوال کے جواب میں کہ پنجاب میں لاک ڈاؤن پر مکمل طور پر عملدرآمد نہیں کروایا جا رہا وزیرِاعلٰی پنجاب عثمان بزدار نے مقامی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ ’بہت سے لوگ سمجھ رہے ہیں کہ یہ شاید کوئی کرفیو کے صورتحال ہے۔ اگر آپ لاک ڈاؤن کا مراسلہ پڑھیں تو اس میں بھی ایسا ہی لکھا ہے۔ ہمیں غریب اور مزدور طبقے کا بھی خیال رکھنا ہے۔‘

انھوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ لاک ڈاؤن کی دوران مساجد کو بند نہیں کیا گیا تاہم ان کی لیے حفاظتی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کی احکامات پر عملدرآمد کروایا جائے گا۔

لاہور پولیس کے ترجمان کے مطابق پولیس نے ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں جو لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کریں گی اور اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ لوگ بلاجواز گھروں سے نہ نکلیں۔

منگل ہی کے روز حکومتِ پنجاب کی کابینہ نے ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا جس میں جو فیصلے کیے گئے ان میں کورونا آرڈیننس 2020 کے مسودے کی منظوری بھی شامل تھی۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس آرڈیننس کے تحت کسی وبائی مرض کی صورت میں لوگوں کی نقل و حرکت اور انھیں ہسپتال منتقل کرنے یا گھر ہی میں رکھنے کے انتظامات قانونی طور پر کیے جا سکیں گے۔

تاہم وزیرِاعلٰی پنجاب نے اس حوالے سے زیادہ تفصیلات نہیں بتائیں۔ یہ بھی دیکھنا باقی ہے کہ کیا حکومتِ پنجاب مجوزہ قانون کا اطلاق حالیہ لاک ڈاؤن کے دوران بھی کرے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp