درد ناک انجام سے بچیں!


الحمدللہ میرے گھرانے کے افراد صحت مند ہیں۔ ہائی سکول میں تھے جب نانی کی والدہ کا انتقال ہوا۔ دادا، دادی اور نانا نانی کی وفات کو چند سال ہوئے ہیں۔ سب نے اپنے حصے کی سانسیں اس گل رنگ زمین پر لیں۔ ان بزرگوں نے زندگی کو کسی بڑی بیماری سے پاک جیا مگر اس وقت شدت سے دکھ کا احساس ہوا جب چھوٹا بھائی 33سال کی عمر میں خالق حقیقی کے حضور پیش ہو گیا۔پھر کچھ سال ہوئے، امی دو دن سے بے ہوش تھیں۔ میں ان کے قدموں کی طرف کھڑا تھا ، ہسپتال کے بستر پر ان کی سانسیں اکھڑنے لگیں۔ انہوں نے آنکھیں کھولیں اور پوری طرح کھلنے کے بعد آنکھیں ساکت ہو گئیں۔ میرے حافظے میں یہ کرب سے چھلکتا لمحہ ہمیشہ کے لیے ٹھہر سا گیا ہے۔

کتاب پڑھ رہا ہوں۔ 1999ء کی بات ہے۔ جاپان کا ایک نیوکلیئر ورکر ریڈیائی مواد سے بری طرح متاثر ہو گیا۔ اس واقعہ پر لکھی کتاب میں بتایا گیا کہ نیوکلیئرورکر کی جلد ہڈیوں سے الگ ہو کر گر پڑی۔ اوچی نامی اس کارکن کے کروموسوم تباہ ہو گئے۔ پورا جسم اندر اور باہر سے مسخ ہو گیا۔ وہ کئی دن زندہ رہا، آخر چلا اٹھا کہ میں انسان ہوں، اس درد کو سہہ نہیں سکتا۔ڈاکٹروں کو سوچنا پڑا کہ وہ مریض جو زندہ نہیں رہے گا اسے زندہ رکھ کر اس کی اذیت میں اضافہ تو نہیں کیا جا رہا؟

جنکو فروٹا 17سالہ جاپانی لڑکی تھی۔ اسے نوجوانوں کے ایک گروپ نے اغوا کر لیا۔ اغوا کاروں نے اسے ایک ساتھی کے گھر رکھا۔ جنکو کو کھانے کے لیے صرف لال بیگ دیئے جاتے، پینے کے لیے وہ صرف اپنا ہی پیشاب استعمال کر سکتی تھی۔ اس کے جسم میں ٹیوب لائٹ، ٹوٹی بوتلیں، سگریٹ اور پٹاخے داخل کیے جاتے۔ 44روز میں اس کو 500بار جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اسے بلے سے مارا جاتا اور فرش پر پٹخا جاتا۔ اسے چھت سے لٹکا کر باکسنگ بیگ کی طرح مکے برسائے جاتے۔ آخری دن جب اس نے اغوا کاروں سے منت کی کہ اسے مار ڈالیں تو انہوں نے کئی گھنٹے تشدد کیا۔آخر اس کو اذیت ناک قید سے مر کر نجات ملی۔

راسپوٹین کا نام کس نے نہیں سنا۔ زار روس نے اسے اپنے خاندان کی خواتین کو ورغلانے اور امرا کو گمراہ کرنے پر زہر دلوا دیا۔ راسپوٹین زہر دینے والے کے پیچھے دوڑا تو اس کو چاقو گھونپ دیا گیا۔ وہ پھر بھی سخت جان نکلا اور حملہ آوروں کا تعاقب کرتا رہا۔ حملہ آوروں نے اس پر گولیاں چلائیں مگر وہ بچ گیا۔ وہ کہنیوں کے بل رینگتا رہا۔ حملہ آوروں نے اسے پیٹا، اس کو باندھ کر دریا میں پھینک دیا۔ دو روز بعدجب اس کی بوری کو باہر نکالا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ رسیاں کھولنے کے قریب ہی تھا۔

20جولائی 1981ء کو ایک امریکی نوجوان ڈیوڈ ایلن اپنے دوست اور پالتو کتے کے ساتھ ایک ایسے مقام کی سیر کو گیا جہاں زمین سے پانی کا چشمہ پھوٹتا ہے۔ اس چشمے کا درجہ حرارت 200سینٹی گریڈ سے اوپر ہے۔ ڈیوڈ چشمے کو قریب سے دیکھنے کے لیے آگے بڑھا تو اس کا کتا گرم پانی میں جا گرا۔ ڈیوڈ نے وہاں موجود لوگوں کے منع کرنے کے باوجود اس کھولتے پانی میں چھلانگ لگا دی۔ اس کے دوست نے بعد ازاں اسے باہر نکالا تو وہ اندھا ہو چکا تھا، وہ خود کو کوس رہا تھا اور اسی اذیت میں اگلے صبح انتقال کر گیا۔

آزادی کا اعلان ہوا تو برصغیر میں خون کا کھیل کھیلا گیا۔ کبھی وہ تحریریں پڑھیں جو بھارت سے آنے والے خاندانوں کے افراد سناتے ہیں۔ درد ناک موت کیا ہوتی ہے، اس کا اندازہ ہو گا۔ ہم آسودہ اور مطمئن زندگی گزارنے والے کیا جانیں کہ جب کوئی وبا پھوٹتی ہے تو اس کی لپیٹ میں آنے والا بدقسمت کیا محسوس کرتا ہے۔ ایک خاتون کا ویڈیو پیغام سوشل میڈیا پر موجود ہے۔ کسی ہسپتال میں نرس کے طور پر کام کرنے والی خاتون بتاتی ہے کہ لوگو! کرونا کی وبا کو مذاق نہ سمجھو، یہ ایک آفت ہے اس سے احتیاط کرو اور خود کو گھروں تک محدود رکھو۔

دونوں ہاتھوں پر کنولا اور نتھنوں میں ٹیوبوں کی مدد سے بمشکل سانس لیتی خاتون کہہ رہی ہے کہ وہ سانس نہیں لے پا رہیں۔ انہیں یوں محسوس ہوتا ہے گویا ان کے پھیپھڑوں میں کانچ کے باریک ٹکڑے ڈال دیئے گئے ہیں جو ہر بار سانس لینے پر پھیپھڑوں کو کاٹنے لگتے ہیں۔ ملک کے دو بڑے صوبوں پنجاب اور سندھ میں دو ہفتوں کے لیے لاک ڈائون کا اعلان کر دیا گیا ہے، سیاسی و عسکری قیادت نے اپیل کی ہے کہ عوام خود گھروں سے نکلنا بند کر دیں۔

صبح دفتر کے لیے گھر سے نکلا تو یقین تھا قریبی پارک میں بچے کرکٹ نہیں کھیل رہے ہوں گے، ذہن میں ایک خیال تھا کہ باہر سڑک پر ہو کا عالم ہو گا۔ گلی میں نکلا تو لوگ معمول کے مطابق چل پھر رہے تھے، پارک کے پاس سے گزرا تو کئی بچے اور نوجوان کرکٹ کھیلتے دکھائی دیئے۔ ایک صاحب اپنے فینسی کتے کی زنجیر تھامے چہل قدمی فرما رہے تھے۔ باہر سڑک پر پہنچا تو رکشے، گاڑیاں اور لوگوں کی آمدورفت دکھائی دی۔ کالج روڈ سے رائے ونڈ روڈ تک آتے ہوئے سڑکوں پر رش خاصا کم تھا مگر جس قدر لوگ تھے اس سے معلوم ہوتا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار لاک ڈائون کا مفہوم واضح نہیں کر پائے، یا پھر جانے کیوں ہم لوگ اس قدر غیر ذمہ دار ہیں؟

ہم سب کی زندگی میں کسی محبت کرنے والے بزرگ اور کسی عزیز از جان ہستی کی موت کا لمحہ ٹھہرا رہتا ہے۔ ہمیں اس لمحے کا درد کبھی نہیں بھولتا جب دروازے میں انگلیاں آئی تھیں، جب پائوں میں کانچ کا ٹکڑا پیوست ہو گیا تھا۔ پھر ہم کیوں نظرانداز کر رہے ہیں کہ جس کرونا کے خوف سے حکومت نے سکول، کالج، سرکاری دفاتر، کھیلوں کے میدان، ہوٹل، جم، شادی ہال اور بازار بند کرائے ہیں وہ ہمارے کسی پیارے کو لاحق ہو گیا تو اس کے پھیپھڑوں میں کتنے کانچ بھر جائیں گے۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments