کورونا محاذ کے پیادہ اور نہتے سپاہی: عملہ صفائی


جب سے دنیا میں کرونا وبا نے تباہی سے زیادہ خوف اور دہشت کی فضا قائم کی ہے، ہر غریب، امیر، شاہ اور گدا اس سے خوف زدہ ہے۔ طبی عملہ اپنی اپنی قوم کی استطاعت کے مطابق حفاظتی انتظامات کر کے اس موذی مرض کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس سے نبرد آزما ہے۔ وطن عزیز اور دنیا بھر میں طبی عملے کی جرآت کو سراہا بھی جا رہا ہے۔ یقینا اس سے انھیں حوصلہ بھی ملتا ہے۔ پاکستان میں ڈاکٹر اسامہ اپنے فرض کی ادائیگی میں اپنی جان قربان کر چکے ہیں، ایک نرس بھی شہیدِ انسانیت کا رتبہ پا چکی ہیں۔ میری رائے میں تو ایسے میڈیکل اسٹاف کو پاکستان کے سب سے بڑے سول اعزازات سے نوازنا چایئے۔

اس بحرانی دور میں وطن عزیز میں بھی مختلف کاروباری فورم اور انجمنوں نے بھی اپنے طبقات کے لئے حکومت سے ریلیف مانگا ہے۔ مثلاً اسٹاک ایکسچینج، صنعت کار، ٹھیکدار، اور تو اور اسلامی ریاست ہوتے ہوئے لوگ سود ختم کرنے کی بجائے اس میں کمی تک مانگ رھے ہیںِ۔ غرض ہر گروہ اپنے لوگوں کی جان و مال اور ان کی بقا کے لئے کوشاں ہے اور حکومت سے جائز و ناجائز مراعات کا طلب گار ہے۔

آپ حیران ہوں گے کہ ایک طبقہ ایسا ہے جو اس جنگ میں طبی عملے کے ساتھ فرنٹ لائن پر جنگ میں شامل ہے لیکن نہ تو ان کے لئے کوئی حفاظتی انتظامات ہیں نہ مراعات کا مطالبہ۔ اور ان کی چھٹیاں بھی منسوخ ہیں۔ جی ہاں یہ ہیں اس ملک میں صفائی ستھرائی کے پیشے سے وابستہ افراد جن میں سے بدقسمتی سے زیادہ تر کا تعلق پاکستانی مسیحیوں اور ہندوؤں سے ہے۔ یہ بہادر لوگ دن رات انتہائی کم اجرت پر بغیر کسی حفاظتی انتظامات کے اپنے کام میں مصروف ہیں۔ نہ انہین حفاظتی ماسک دیے گئے ہیں اور نہ ان دیکھے جان لیوا خطرے سے کھیلنے والوں کے باقاعدہ طبی معائنے کا کوئی انتظام ہے۔ ان کے لئے کوئی آواز اٹھانے والا تک نہیں ہے۔

پچھلے کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر کچھ وڈیوز دیکھی۔ ایک طارق روڈ پر راجیش کمار کی تھی۔ جو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں مصروف تھا۔ دوسری وڈیو حیدآباد میں کسی مسیحی نوجوان کی تھی۔ تیسری وڈیو آج برصغیر کے پیرس لاہور سے تھی۔ جس میں مصوم مسیحی سینٹری ورکر کرونا سے بے خبر ہم جیسوں کا پھیلایا ہؤا گند اٹھا رھا ھے۔ اس میں حیدرآباد والے ورکر نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ملک میں سماجی انصاف کے لئے انقلاب لانے والی مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنے ورکرز کے نام لکھوا رکھے ہوئے ہیں جن کی تنخواہیں ان کے گھر پہنچ جاتی ہیں، کام ہندو اور مسیحی ورکر ہی کرتے ہیں۔

اپ نے مین اسٹریم میڈیا پر بھی وبا کے دنوںمین اپنی جان ہتھیلی پر رکھج کر کام کرنے والی سینیٹری ورکرز کے بارے میں کوئی رپورٹ نہیں دیکھی ہوگی۔ کیونکہ میڈیا تو قومی اور بین الاقوامی سطح کے مسائل میں الجھا ہؤا ہے۔ جب کہ یہ چند لاکھ دنیاوی خداؤں کی فراموش کردہ مخلوق ملک بھر میں ہم وطنوں کے لئے صھت  اور صفائی کی جنگ لڑ رھی ہے۔ یہ وہ پیادہ سپاہی ہیں جو بے حس معاشرے میں اپنے بچوں اور اپنے پاپی پیٹ کی جنگ لڑ رھے ہیں۔

ایک حیران کن بات یہ ہے کہ ان مسیحیوں اور ہندوؤں کی شناخت پر اس وقت سینٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں سینتس 37 لوگ براجمان ہیں اور سینکڑوں اقلیتی افراد حکومتی پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں میں عہدوں کے طوق گلوں میں لٹکائے گھوم رھے ہیں لیکن مجال ہے کسی نے عملہ صفائی کے لئے حفاظتی انتظامات کا مطالبہ کیا ہو۔ اور رہ گئے یہ کرموں جلے تو ان کے دماغوں میں تو ہزاروں برس سے ایسے غلامی بھر دی گئی ہے کہ ان کے لئے تو انسان ہونے کا احساس ہی جاتا رہا ہے۔ وسے تو ان کے مذہبی، سیاسی اور سماجی رہنما بھی ہزاروں کی تعداد میں ہیں، احساس تو ان کا بھی ہر طرح کا جا چکا ہے۔ ورنہ کارڈینل یا سولہ مستعد بشپ حضرات اور سینکڑوں پنڈتوں پادریوں میں سے کسی ایک کی دو مںٹ کی ویڈیو اپیل ان کی زندگیوں میں آسانی پیدا کرسکتی ہے۔

اخر میں سیاسی اور دانشور اشرفیہ سے ایک سوال ہے۔ انسانوں کے معاشرے میں اتنے اہم و فعال لاکھوں افراد پر مشتمل گروہ سے بے حسی برت کر کوئی معاشرہ کورونا جیسی ناگہانی افت سے بچ سکتا ہے یا خدا کے مزید غضب کو دعوت دیتا ہے؟

آج کی بات نہیں، ان حالوں، ہم کو صدیاں بیتی ہیں۔۔۔ اگست 1947، کرفیو میں وقفے کے دوران ایک خاکروب فساد زدہ امرتسر میں پیشہ ورانہ فرائض انجام دیتے ہوئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments