باسٹھ تریسٹھ اور گنڈا پور کی ڈبل بلیک


\"aliعلی امین گنڈاپور کی گاڑی سے بوتل کی برآمدگی سب سے بڑی خبر بن گئی ۔ کسی نے بھی اس بوتل کے لیبل کو بھی پورا پڑھنے کی کوشش نہیں کی بلکہ سب نے بلیک لیبل کی رٹ لگائی حالانکہ یہ بوتل ڈبل بلیک کی تھی۔ ہمارے ہاں بلیک لیبل کی شہرت اتنی زیادہ ہے کہ عام لوگ اس کے علاوہ کسی شراب کو ولایتی سمجھتے ہی نہیں۔ ۲۰۱۲؁ میں امریکہ کے ہالی وڈ کے مشہور فلمی ستاروں ڈیمی مور اور بروس ویلیس کی کم عمر بیٹی کی گاڑی سے جب پاکستانی بیئر برآمد ہوئی تو وہاں ایک ہلچل مچ گئی تھی کہ پاکستان جیسے خشک ملک کی بیئر امریکہ میں کیسے آئی وہ بھی کسی ہالی وڈ کے ستارے کے گھ ۔

امریکہ میں تو مری بریویری کو فائدہ ہوا کیونکہ امریکہ میں ہر نئی چیز کو چکھنا ایک فیشن ہے اور پاکستانی کلاسیک بیئر اب باقاعدہ وہاں درآمد کی جاتی ہے۔ لیکن یہاں جونی واکرز کو زیادہ فائدہ پہنچنے والا نہیں کیونکہ اب انیس سو ساٹھ اور ستر کی دہائی کی طرح وہ یہاں \”سمجھ دار لوگوں\” کے لئے اشتہار نہیں چھاپتے اور نہ قانونی طور پر کاروبار کرتے ہیں۔ امریکی نو عمر لڑکی سے جب مری کی بیئر برآمد ہوئی تو اس نے کہا کہ یہ بڑی مزیدار ہے اس لئے اس کو پسند ہے جس کی وجہ سے امریکی میڈیا کے ایک سیکشن نے تو اس کو مری بریویری کی مارکیٹنگ کی حکمت عملی بھی قرار دیا۔ دوسری طرف ہمارے دبنگ وزیر جن کی گاڑی سے پولیس کے مطابق بوتل برآمد ہوئی اس نے تو اس کے وجود سے ہی انکار کیا اور اس کو شہد قرار دیا ہے۔

\"murree-brewery-beer\"

پاکستان شراب بنانے اور اس کے استعمال میں میں بھی دنیا کا اٹھواں عجوبہ ہے۔ سرکاری طور پر اس ملک میں شراب پر پابندی ہونے کے باوجود شراب کے عادی لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس ملک میں ایک سماجی مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ چند سال پہلے میں نے حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ کے ایک ادارے کے لئے ایک تحقیق کی تھی جس میں گھریلو خواتین میں منشیات کے رجحان اور گھریلو تشدد کے ساتھ اس کے تعلق کو معلوم کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس دوران یہ معلوم ہوا کہ پاکستان میں یا تو اونچی سوسائٹی یا پھر غریب طبقے میں منشیات کے استعمال کا رجحان زیادہ ہے۔ چرس کو پاکستان اس حد تک قبولیت حاصل ہے کہ اس کو لوگ منشیات میں گنتے ہی نہیں ہیں۔ منشیات کے استعمال کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ شراب پر پابندی سامنے آئی ۔ کراچی میں ایک صاحب نے کہا کہ جب شراب کھلے عام ملتی تھی لوگ پیگ کے حساب سے پیتے تھے اب جب اس پر پابندی ہے تو لوگ بوتلوں کے حساب سے پیتے ہیں۔ کم آمدنی والے طبقے میں شراب کی بوتل خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے ہیں اس لئے لوگ چرس اور دیگر سستی منشیات کی طرف راغب ہوتے ہیں۔

\"police

مسلسل معاشرتی اور سماجی جبر کی وجہ سے پاکستانی معاشرہ عمومی طور پر منافقانہ طرزعمل کا عادی بنا ہوا ہے جہاں لوگ اپنی عادات اور مشاغل کے بارے میں مسلسل حالت انکار میں زندگی جیتے ہیں۔ جو لوگ اس بارے میں کھل کر اظہار کرتے ہیں ان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسا کہ بھٹو صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ایسی جسارت کی تھی اور ان کو مذہب اور معاشرے کے ٹھیکے داروں کے عتاب کا نشانہ بننا پڑا تھا۔ اسلام آباد کے ایم ان اے ہاسٹل سے نکلنے والی خالی بوتلیں لے کر جمشید دستی میڈیا میں تو چلا گیا لیکن پینے والے کا پتہ دنیا کے بہترین جاسوسی اداروں کو بھی نہ چلا۔

گنڈاپور کی جماعت اگر آئین میں کسی شق یا کسی شق کی وجہ سے آئین کو پسند کرتی ہے تو وہ شق نمبر 62 اور 63 ہے جس کے مطابق کسی بھی شخص کا لوگوں کی نیابت کے لئے ایماندار، نیکو کار اور صالح ہونا قرار پایا ہے۔ ایسا نہ ہونا ثابت ہونے پر کسی بھی شخص کو لوگوں کے حق نمائندگی سے محروم کیا جاسکتا ہے۔ گنڈاپور صاحب کے حلیف اور بازار سے دودھ کے میسر ہونے پر بھینس نہ پالنے کے دعویدار، متروکہ املاک والی لال حویلی کے مکین ر شیخ رشید بقلم خود نواز شریف کو آئین کی اس شق کے تحت گھر بٹھانے کی استدعا لے کر ابھی بھی سپریم کورٹ میں فریادی ہیں۔

\"g04\" دوسری طرف ان کے سربراہ کی پارسائی کا سارا زمانہ معترف ہے۔ گنڈا پور صاحب نے بوتل کی برآمدگی کے بعد غالباً اپنے راہنما کی نصیحت کے مطابق نوے میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ لگائی اور پکڑائی نہیں دی اور چوبیس گھنٹے بعد نمودار ہوئے جب اس کے اثرات خون سے بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ اس جماعت کا ماننا ہے جو پکڑا جائے وہی چور ہے اور احتساب صرف اسی کا ہوگا۔ چونکہ جو پکڑا نہیں گیا تو وہ چور بھی نہیں کہلائے گا اس لئے اس کا احتساب بھی نہیں ہوسکتا۔ گنڈا پورصاحب ماضی کی طرح اس بار بھی بری ہوگئے۔

اگر مردم شماری یا شماریات کے اعداد و شمار کو درست مان لیا جائے تو پاکستان میں رہنے والے غیر مسلم شراب صرف پیتے ہی نہیں بلکہ نہاتے دھوتے اور آب پاشی کے بجائے شراب پاشی کرتے ہیں۔ جب حکومت سے پوچھا گیا کہ کیا کسی شہر میں اتنے کم لوگوں کی اقلیتی آبادی کا اس قدرزیادہ شراب پینا تشویش کی بات نہیں ہے تو جواب آیا کہ اس بات کے قابل تشویش ہونے کا علم نہیں مگر اس سے سرکار کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے جو قابل ستائش ہے۔ ہماری سرکار بخوبی جانتی ہے کہ لوگوں کے گھروں میں کام کرکے اپنے دن گزارنے والے کتنی شراب پی سکتے ہیں اور ان کے نام پر کتنی بکتی ہے۔ ہمارے تھر پارکر والے دوست کپل دیو کہتے ہیں کہ ان کےمسلمان دوست ان سے شراب کی توقع رکھتے ہیں جس کے پورے نہ کیے جانے پر ان کو مایوسی ہوجاتی ہے۔

پاکستان شراب بنانے والے ممالک میں شامل ہے جس میں تین فیکٹریاں جو دن رات چلتی ہیں لیکن شراب کی طلب پوری نہیں کرسکتیں ۔ کہا جاتا ہے کہ جتنی شراب ملک کے اندر بنتی ہے اتنی ہی درآمد کی جاتی ہے ۔ جو شراب درآمد کی جاتی ہے وہ غیر ملکی معززین کے لئے ہوتی ہے جن میں سفارت کار، یو این کے ادارے اور دوسرے بین الاقوامی ادارے شامل ہیں ۔ پاکستان کسٹمز سے جاری پرمٹ اور درآمد کی جانے والی شراب میں موازنہ کیا جاے تو معلوم ہوتا ہے کہ سارے غیر ملکی ادارے یہاں شراب پینے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے ہیں۔

\"alcohold-whiskey-bottle\"

پاکستان میں جہاں دو بوتلیں لانے پر ماضی کی ایک معروف اداکارہ اور سماجی و سیاسی کارکن کے خلاف سپریم کورٹ کو بھی نوٹس لینا پڑا تھا وہاں ولایتی شراب بیچنے والوں کا کہنا ہے کہ ان کے کاروبار میں کسی بھی آمر کسی بھی حاکم کے دور میں مندا نہیں آتا۔ غیر ملکی شراب اپنی قیمت سے چار گنا زیادہ پر بکتی ہے مگر حکومت چونکہ اس کے بکنے سے انکاری ہے اس لئے جس رقم کو ٹیکس کی شکل میں سرکاری خزانے میں جانا چاہیٔے اب سمگلروں اور غیر قانونی دھندہ کرنے والوں کی جیب میں چلی جاتی ہے۔ اس غیر ملکی شراب میں ملاوٹ کی کہانی اس سے بھی زیادہ سنگین ہے جس میں لوگوں کو لاکھوں روپے کا ٹیکہ لگتا ہے مگر شکایت نہیں کرسکتے۔

جس طرح ہمارے ہاں ایک چھ فٹ کے قد کاٹھ والے گنڈا پور سے شراب براآمد ہونا ایک جرم ہے اسی طرح امریکہ میں ایک نو عمر سے شراب ملنا بھی جرم ہے۔ جس طرح ہمارے ہاں شراب کی برآمدگی کسی کے خاندان اور سیاسی جماعت کے لئے باعث شرمند ہو سکتا ہے اسی طرح امریکہ میں بھی کسی نو عمر کا شراب پینا اس کے والدین اور اس کے دوستوں کے لئے باعث ندامت ہے۔ مگر فرق صرف یہ ہے کہ امریکی سچ بولنے کا حوصلہ رکھتے ہیں کیونکہ وہاں جھوٹ بولنا بڑی اخلاقی برائی سمجھی جاتی ہے مگر ہم سچ نہیں بول سکتے کیونکہ جھوٹ ہمارے ہاں کوئی اخلاقی جرم ہے ہی نہیں۔

\"whisky-johnnie-walker-double-black-alcohol\"

شراب کی برآمدگی پر ڈیمی مور کی بیٹی نے یہ نہیں کہا کہ اس کی گاڑی میں پڑے ڈبے ساہیوال کی گائے کے خالص دیسی دودھ کے ہیں یا ان ڈبوں میں سندھ ساگر کا جل ہے جو وہ بطور دوائی استعمال کرتی ہیں۔ دن دیہاڑے پوری میڈیا کے کیمروں کی موجود گی میں اپنی گاڑی سے بوتل کی براآمدگی پر گنڈا پوربھاگ جانے اور شہد کو بد نام کرنے کے بجائے صرف یہ کہہ دیتا کہ انکھیں کھول کر دیکھو یہ بوتل بلیک لیبل کی نہیں بلکہ ڈبل بلیک کی ہے تو منافقت نہ کرنے کی وجہ سے اس کا قد میری نظروں میں بہت اونچا ہوتا ۔ اب وہ شراب ، اسلحہ اور تیتر مار نے کا ہی ملزم نہیں بلکہ اس پر جھوٹ بولنے کا بھی الزام ہے جو زیادہ سنگین ہے کیونکہ وہ آئین کی اپنی ہی پسندیدہ شق نمبر 62 اور 63 پر پورا نہیں اترتا ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments