معصوم ماریہ بی، کرونا کک اور پنجاب پولیس


مشہور و معروف فیشن ڈیزائنر ماریہ بی کے ساتھ پنجاب پولیس نے کچھ اچھا نہیں کیا۔ چغتائی لیب والوں نے انہیں بتایا تھا کہ ماریہ بی کے گھر میں کرونا کا ایک کنفرم مریض ہے تو اس میں پریشانی کی بھلا کیا بات تھی؟ سکون سے وقت لے کر ہفتے دس دن بعد چلے جاتے اور خیر خیریت پوچھ لیتے۔ یہ کیا کہ فون پر رابطہ کیا اور ماریہ بی کے یہ بتانے پر کہ ان کا کک تو اپنے گاؤں جا چکا ہے، رات بارہ ساڑھے بارہ بجے چھاپا مار کر ان کے شوہر طاہر سعید کو ہی گرفتار کر لیا اور پرچہ کاٹ دیا کہ اس بندے نے کرونا ٹیسٹ مثبت آنے پر بیماری چھپا کر حکام کو مطلع کرنے کی بجائے اسے بذریعہ بس وہاڑی بھجوا دیا اور مزید کئی انسانی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے، اب اس ملازم کا پورا گاؤں لاک ڈاؤن ہو گا۔

ماریہ بی نے ٹویٹر پر ایک جذباتی ویڈیو ڈال کر وزیراعظم سے احتجاج کیا کہ ان کے ساتھ یہ ظلم کیوں ہوا ہے؟ بجائے ان سے ہمدردی کرنے کے ہمارے ازلی بدمعاش سوشل میڈیا نے الٹا انہیں ہی لتاڑنا شروع کر دیا کہ بی بی تم نے یہ کیا کیا ہے؟ آج ان کے شوہر طاہر سعید کی ضمانت ہو گئی ہے تو ماریہ سعید نے ایک نئی ویڈیو پوسٹ کی ہے جس سے ان کی شدید مظلومیت و معصومیت، کک کی دانش مندی اور پولیس کے ناروا سلوک کا سوشل میڈیا کے باسیوں کو مزید علم ہو گیا ہے لیکن وہ ابھی بھی ماریہ بی کے خلاف اور پولیس کے حق میں لکھ لکھ کر انہیں ستا رہے ہیں۔

ماریہ بی اور طاہر سعید نے بتایا کہ ان کا باورچی چھٹی پر گیا تھا اور وہ تو خود نہایت سمجھدار اور ذمہ دار شہری ہونے کی وجہ سے خود کو رضاکارانہ طور پر قرنطینہ میں محبوس رکھے ہوئے تھے۔

اب انہیں کسی نے بتایا ہی نہیں کہ قرنطینہ میں خود باہر نا جانے کے علاوہ باہر سے آنے والوں کو بھی روکنا ہوتا ہے تو اس میں بھلا ماریہ بی کا کیا قصور ہے؟ بعض لوگ معصوم بھی تو ہوتے ہیں اور حسین لوگ تو ہمیشہ معصوم ترین ہوتے ہیں۔

بہرحال ان کا باورچی گیارہ بارہ مارچ کو واپس آیا اور 18 کو کہنے لگا کہ سمپٹم ہو رہے ہیں، ایک دن بخار چڑھا رہا اور کھانسی ہوئی۔ ماریہ بی نے ترنت چغتائی لیب کو بلا کر اس کا ٹیسٹ کروا دیا اور دو دن بعد چغتائی نے بتایا کہ ٹیسٹ میں کرونا آیا ہے۔ ماریہ بی نے بتایا کہ بطور ماں ان کا دل دہل گیا۔ سوچا ہو گا کہ ہائے میرے بچوں کا کیا ہو گا، کہیں کک سے انہیں کرونا نا لگ جائے۔

اب انہیں چغتائی یا حکومت کسی نے بتایا ہی نہیں تھا کہ کیا کرنا ہے تو وہ بھلا اپنی فیملی کو محفوظ رکھنے کے لیے کیا کرتیں؟ ماریہ بی نے اسے کہا کہ میرے سرونٹ کوارٹر میں ایک فیملی رہتی ہے اس کے ساتھ فوراً کوارنٹین کر لو۔ وہ اس سرونٹس کی فیملی کے ساتھ منتقل ہو گیا۔

چند گھنٹے اس نے اس فیملی کے ساتھ گزارے پھر ماریہ بی کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ باجی آپ نے مجھے ایک فیملی کے ساتھ رکھا ہوا ہے انہیں کچھ لگ گیا تو کیا ہو گا؟ اب میرے کچھ سمپٹم نہیں ہیں ، بس ایک دن کے لئے مجھے بخار ہوا، اگر کوارنٹین ہی کرنا ہے تو مجھے گھر بھیج دیں۔ میرے بہن بھائی میرے ساتھ رہتے ہیں میرا خیال کر لیں گے۔

آپ نوٹ کریں کہ ماریہ بی کے ساتھ رہ رہ کر ان کا باورچی بھی کتنا سیانا ہو گیا تھا۔ جو چیز نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کلچرڈ ماریہ بی اور ان کے شوہر کے ذہن میں نا آئی وہ اسے معلوم تھی کہ سرونٹ کوارٹر میں رہنے والی فیملی کو اس سے کرونا لگ سکتا ہے۔ سچ ہی کہتے ہیں کہ قاضی کے گھر کے چوہے بھی سیانے ہوتے ہیں۔

بہرحال اب ماریہ بی اور طاہر سعید لاچار ہو گئے۔ ماریہ بی نے بتایا کہ وہ ہمارا غلام تو تھا نہیں کہ ہم اسے تالا لگا کر رکھتے۔ نیز انہوں نے کہا کہ ”انہوں (باورچی) نے مجھ سے مطالبہ کیا اور اٹ میڈ سینس ٹو می ایز آ مدر۔ میرے بھی بچے تھے۔ جب اس نے کہا مجھے کرونا ہو گیا اور یہ کرونا یہ کرونا تو میں نے کہا کہ ہاں اٹ میکس سینس تم بالکل جاؤ تمہارے بہن بھائی ہوں گے اور وہ تمہارا بہتر کیئر کریں گے اور یہ سارے بچے بھی بچ جائیں گے۔ شاید ان کو نا پھیلے اتنی دیر میں۔ “

یہ سوچ کر اسے پیسے وغیرہ دے دیے اور خوب تاکید کی کہ دیکھو اپنی گاڑی پر جانا، پبلک ٹرانسپورٹ پر نا جانا۔ اس نے بھی یقین دہانی کروا دی کہ جی میں اپنے بھائی کے ساتھ اس کی گاڑی پر اپنے گاؤں جاؤں گا۔

اب ہم جیسے مڈل کلاسیوں کو یہ بات شاید عجیب لگے لیکن ہائی سوسائٹی کے ککس، چوکیدار، مالی، ماسیاں اور خاکروب وغیرہ اتنی زیادہ تنخواہ پاتے ہیں کہ وہ اپنی اپنی ذاتی گاڑیاں رکھتے ہیں۔ بہرحال پولیس رپورٹ کے مطابق اس باورچی نے اپنا وعدہ نا نبھایا اور بس پر بیٹھ کر اپنے گاؤں چلا گیا۔

ماریہ بی نے اسے سارا کانسیپٹ بھی بتا دیا تھا کہ جیسے ہم سیلف آئسولیشن میں رہتے ہیں ویسے ہی آپ نے بھی سیلف آئسولیشن کرنی ہے، جو سارا ہم یہاں گھر پر کر رہے ہیں وہی تم نے اپنے گھر جا کر کرنا ہے۔

امید ہے وہ وہی سب کچھ کر رہا ہو گا اور گھر سے باہر نہیں نکل رہا ہو گا، محض مہمانوں کو اپنے گھر میں خوش آمدید کہہ رہا ہو گا اور خوشی میں گلے مل مل کر انہیں بتا رہا ہو گا کہ دیکھو ایک دن بعد ہی کرونا کی تمام علامات مجھ سے غائب ہو گئی ہیں۔

ماریہ بی نے یہ بھی پوچھ لیا تھا کہ تمہارے گھر میں کوئی فالتو کمرا ہے یا نہیں، آپ نے اسی کمرے میں رہنا ہے، آپ کرونا پازیٹو ہو، آپ کی وجہ سے آس پاس کے لوگوں کو کرونا ہو سکتا ہے، سو یو ہیو ٹو بی ویری ویری کیئرفل۔

نوٹ کریں کہ ماریہ بی کتنی باشعور ہیں، انہیں پتہ تھا کہ باورچی نے احتیاط نا کی تو اس کے آس پاس کے لوگوں کو کرونا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر اسے اپنے سرونٹ کوارٹر کی فیملی سے چند گھنٹے بعد ہی الگ کر کے گاؤں بھیجا تھا۔

ماریہ بی اور طاہر سعید نے احتجاج بھی کیا کہ کسی نے ان سے نہیں پوچھا کہ کک کو کہاں سے لگا وائرس، وہ خود تو قرنطینہ میں تھے، ظاہر ہے کہ وائرس اسے اس وقت لگا جب وہ پبلک ٹرانسپورٹ پر وہاڑی سے لاہور آ رہا تھا، وہ وائرس لے کر ان کے گھر آ گیا اور ایک ہفتہ وائرس کے ساتھ پھرتا رہا، انہیں (حکومت کو؟) نہیں پتہ لگا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہم نے غیر ذمہ داری کا ثبوت نہیں دیا۔ تمام احتیاطی تدابیر اختیار کر کے یہ کیا یہ جانتے ہوئے کہ حکومت کو پتہ ہے۔

حکومت کو واقعی پتہ تھا۔ ماریہ بی اور طاہر سعید کو بھی لگ پتہ گیا۔

بہرحال اس جوڑے نے وزیراعظم اور بالخصوص آرمی کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے انہیں بچا لیا۔ ویڈیو میں ان کے الفاظ یوں ہیں:

”سب سے پہلے آئی وانٹ ٹو تھینک دی پرائم منسٹر عمران خان، تھینک یو ویری مچ، آئی ڈڈنٹ تھنک کہ کوئی میرے درد کو دیکھے گا۔ ۔ ۔ پھر سیکنڈلی آرمی بیکاز دے آر دی انچارج رائٹ ناؤ۔ اگر آرمی بھی اس وقت سٹیپ ان نا کرتی تو اس وقت مجھے جو ہمارا پولیس کے ساتھ انکاؤنٹر ہے اس میں مجھے بالکل توقع نہیں تھی۔ جیسے ہم پورے پاکستانیوں کا فیتھ اٹھ گیا ہے پولیس سے تو میرا بھی یہ حال تھا۔ سو آئی وانٹ ٹو تھینک آل آف دیم فرسٹ۔ “
نتیجہ: نادان دوست سے دانا دشمن اچھے ہوتے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments