ہم اللہ کو کیوں آزمانا چاہتے ہیں؟



روایات میں آیا ہے کہ ایک بار شیطان نے حضرت عیسی سے کہا کہ ‘تمہیں تو اپنے اللہ پر اتنا بھروسہ ہے تو پھر تم وہ سامنے جو اونچا سا پہاڑ ہے اس پر سے چھلانگ کیوں نہیں لگا دیتے؟ اللہ تمہیں بچا لے گا۔’ حضرت عیسی نے شیطان کو جواب دیا کہ ‘دور ہو مردود، یہ میرا کام نہیں ہے کہ میں اپنے خدا کو آزماؤں بلکہ یہ اس کا کام ہے کہ وہ اپنے بندوں کو آزمائے۔’ جاوید احمد غامدی کا خیال ہے کہ جو لوگ کورونا وائرس کے خطرے کے باوجود نماز کے اجتماعات پر مصر ہیں وہ دراصل اللہ کو آزمانا چاہتے ہیں۔
اٹلی اور اسپین میں کورونا کی وجہ سے جس طرح دھڑا دھڑ اموات ہو رہی ہیں اس کو دیکھ کر ماہرین بتا رہے ہیں کہ اگر لوگوں کے جمع ہونے پر بروقت قدغن لگا دی جاتی تو ان ملکوں میں وائرس کا پھیلاؤ اتنا نہ ہوتا۔برصغیر یورپ کی غلطی سے سیکھتے ہوئے لاک ڈاؤن میں چلا گیا ہے۔ کاروبار زندگی تھم گیا ہے اور عوام پابند کئے گئے ہیں کہ وہ گھروں سے نہ نکلیں۔ یہ ساری کوشش اس نیت سے ہے کہ کسی طرح وائرس کو انہیں لوگوں تک روک دیا جائے تو اس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ یورپ کا تجربہ کہتا ہے کہ کورونا سے مقابلے کا یہی اکلوتا اور موثر ہتھیار ہے۔
ایران میں کورونا پھیلا تو ماہرین نے مشورہ دیا کہ ملک کی زیارت گاہیں بند کر دی جائیں کہ وہاں مجمع لگا رہتا ہے اور ایک کورونا متاثر سیکڑوں لوگوں کو مرض لپٹا سکتا ہے۔ یہ تجویز سن کر قم شہر کے کچھ بڑے علما نے فرمایا کہ یہ مقدس مقامات کبھی بند نہیں کئے گئے اس لئے اب بھی ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا۔ کچھ لوگ ایک قدم آگے جاکر زیارت گاہوں کی دیواریں چاٹنے لگے اور ان کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کرنے لگے کہ ذرا ہمارا عقیدہ اور توکل تو دیکھو۔ چند دن نہیں گزرے تھے کہ ایران کی گلی کوچوں میں کورونا کی وجہ سے اموات عام ہو گئیں اور اب عالم یہ ہے کہ وہاں حالات سنبھالے نہیں سنبھل رہے ہیں۔
اپنے یہاں لاک ڈاؤن ہوا تو بحث چھڑی کہ فرض نمازیں مسجد کے بجائے گھر میں پڑھی جا سکتی ہیں یا نہیں؟۔ مفتی تقی عثمانی فرماتے ہیں کہ کورونا کی وجہ سے اتنا تو کیا جا سکتا ہے کہ لوگ مستحب اور نفل نمازیں گھروں میں پڑھ لیں لیکن فرض نمازیں تو مسجد میں ہی ہوں گی۔ دارالعلوم دیوبند کی طرف سے جاری بیان میں بھی یہی لائن لی گئی ہے۔ دارالعلوم نے اپنے بیان کے آخر میں یہ بات لکھی ہے کہ ‘مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہونا چاہئے کہ کوئی مرض یا وبا اللہ کے حکم کے بغیر کسی کو نہیں لگ سکتی اور وبائی چیزیں انسانوں کے گناہوں کا اثر و نتیجہ ہوتی ہیں۔’ دارالعلوم نے یہ بات بھلے ہی ایمان تازہ کرنے کے لئے لکھی ہو لیکن برصغیر کی عام مسلمان نفسیات اس کا کچھ اور مطلب نکال سکتی ہے اور وہ یہ کہ احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا یا نہ کرنا ایک بے معنی امر ہے، اگر وائرس لگنا ہوگا تو گھر میں بند رہنے کے باوجود بھی لگ جائے گا اور اگر نہیں لگنا ہوگا تو بھیڑ میں بھی کچھ نہیں ہوگا۔ شائد یہی وجہ ہے کہ جب نمازیں بھی گھر میں پڑھنے کی بات ہو رہی ہے اس وقت بھی تبلیغی جماعت کے اجتماع جاری ہیں جن میں ہزاروں لاکھوں لوگ شرکت کر رہے ہیں۔ ان اجتماعات میں جانے والے کئی افراد کورونا وائرس کے شکار پائے گئے۔ اب انتظامیہ سر پکڑے بیٹھی ہے کہ ان لوگوں کو کہاں ڈھونڈھا جائے جو اجتماع میں ان انفیکٹیڈ لوگوں کے رابطے میں آ کر ممکنہ طور پر وائرس کے شکار ہو چکے ہیں۔
تبلیغی جماعت کی کراچی شوری کے رکن سید طارق ہاشمی سے جب پوچھا گیا کہ کورونا کے باوجود آپ لوگ اپنے اجتماع کیوں نہیں روک رہے تو انہوں نے فرمایا کہ ‘وبائی امراض قدرت کی طرف سے ہیں۔ اس پر کسی کا کوئی اختیار نہیں۔’
صرف اجتماع ہی نہیں تبلیغی جماعت کے افراد ابھی بھی اپنی اپنی گشت پر بھی نکلے ہوئے ہیں۔ اس بات کا خطرہ سامنے ہے کہ یہ لوگ خود تو وائرس کی زد میں آ ہی سکتے ہیں اور شائد ایک جگہ سے دوسری جگہ کورونا وائرس کو منتقل بھی کر دیں۔ مسلسل مطالبہ ہو رہا ہے کہ تبلیغی جماعت کی قیادت گشت پر نکلی جماعتوں کو واپس بلائے لیکن کوئی اثر نہیں۔ تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے میرے دوست نے بتایا کہ ‘حضرت جی کورونا کے خطرے کی وجہ سے جماعتیں واپس بلانے کے مطالبے کو ایمان و ایقان کی کمزوری مان رہے ہیں۔’
مندرجہ بالا تمام صورتوں پر اسی بات کا اطلاق ہوتا ہے کہ یہاں بندے اللہ کو آزمانے پر تل گئے ہیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ توکل کے نام پر جس بے احتیاطی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اس سے صرف بے احتیاطی کرنے والوں کو ہی خطرہ نہیں ہے بلکہ یہ لوگ دوسروں کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
ان سب کے درمیان اطلاع آئی ہے کہ کورونا کی وجہ سے شائد اس بار حج کا اجتماع محدود کرنا پڑے۔ سعودی حکام جنہوں نے کورونا کی وجہ سے غیر ملکیوں کے عمرے پر پہلے ہی پابندی لگا رکھی ہے۔ اب انہوں نے عندیہ دیا ہے کہ اگر وائرس کا زور کم نہیں ہوا تو شائد اس بار صرف مقامی افراد کو ہی حج کی اجازت ہوگی۔ اب اگر برصغیر کی عام مسلمان نفسیات کی مانی جائے تو اللہ پر توکل کرکے بیس لاکھ لوگوں کو حج کے لئے جمع ہونے دیا جانا چاہئے، لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ توکل کی منزل تب آتی ہے جب ضروری اسباب اختیار کر لئے گئے ہوں۔ اسباب اختیار کرنا ایمان میں کمزوری کی دلیل نہیں بلکہ اپنے حصہ کی ذمہ داری پوری کرنے کا نام ہے۔ پیغمبر اسلام کی پوری زندگی میں کوئی ایک موقع بھی ایسا نہیں ملتا جب کسی بحران سے نمٹنے کے لئے تدابیر کرنے کے بجائے صرف توکل کرکے بیٹھا گیا ہو۔ جب دشمنوں کی ایک بڑی تعداد مدینہ پر چڑھائی کرنے کو لپکی تو پیغمبر کے حکم پر شہر کے چاروں طرف خندق کھودی گئی تھی۔بس اسی عمل کو تدبیر کہا جاتا ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ انسانی جانوں کو بھی دشمن وائرس سے خطرہ آن پڑا ہے لہذا اب آپ ہی بتائیے کہ سنت کیا کہتی ہے؟ کوئی تدبیر کئے بغیر توکل کیا جائے یا پھر طبی احتیاط کی شکل میں انسانوں کے چاروں طرف حفاظتی خندق کھود لی جائے؟۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments