پاکستان کے پاس ونٹی لیٹر زیادہ ہیں یا ٹینک؟


اس وقت پوری دنیا میں کرونا وائرس کی تباہی عروج پر ہے۔ سوا چار لاکھ سے زائد افراد اس بیماری میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ بیس ہزارکے قریب ہلاک ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایک ہزار سے زائد افراد اس مرض میں مبتلا ہوئے اور آٹھ اموات بھی ہوئی ہیں گو کہ شکر کا مقام ہے کہ صورت حال اب تک ایران اور اٹلی کی طرح کی انتہا تک نہیں پہنچی۔

اس بیماری کا سب سے زیادہ اثر پھیپڑوں پر ہوتا ہے۔ اور اس وائرس کی وجہ سے مریض کو نمونیا ہو جاتا ہے۔ اور ممکن ہے کہ پھیپڑوں کا کام اتنا کم ہوجائے کہ وہ جسم اور جان کا رشتہ قائم رکھنے کے لئے کافی نہ ہو۔ ایسی صورت میں اگر مصنوعی سانس کی مشین یا ونٹیلیٹر (Ventilator) کے ذریعہ پھیپھڑوں کو سہارا نہ دیا جائے تو مریض زندگی کی بازی بھی ہار سکتا ہے۔ خوش قسمتی سے کورونا کے اکثر مریضوں کو داخلے کی ضرورت نہیں پڑتی اور جو داخل بھی ہوتے ہیں ان میں سے بہت کم تعداد کو مصنوعی سانس کی مشین یا ونٹیلیٹر کی ضرورت پڑتی ہے۔

لیکن جو مریض موت کے منہ میں جا رہے ہوں، اور اب ہزاروں مریض دنیا بھر میں موت کے منہ میں جا رہے ہیں، ان کی زندگی بچانے کے لئے یہ مفید ترین ذریعہ ہے۔ یہ مشین اُس وقت تک جسم اور جان کا رشتہ برقرار رکھ سکتی ہے جب تک جسم کی قوت مدافعت اس وائرس کو ختم کر دے یا پھر کوئی دوائی اپنا کرشمہ دکھا کر مرض کا خاتمہ کرے۔

اس وجہ سے اس وقت پوری دنیا کے ممالک میں اس مشین کے حصول کے لئے ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ چین اب اس وبا پر قابو پا چکا ہے اور اس مشین کو بنانے کی صنعتی صلاحیت سب سے زیادہ چین میں ہے۔ اس لئے اس وقت پوری دنیا چین سے ان مشینوں کی فراہمی کے لئے رجوع کر رہی ہے۔ جن ممالک میں کسی حد تک ان کو بنانے کی صلاحیت موجود ہے وہ ان کمپنیوں پر پورا زور ڈال رہے ہیں کہ وہ ونٹیلیٹر بنانے کی رفتار تیز کریں۔ اٹلی کی حکومت کوشش کر رہی ہے کہ جو کمپنی وہاں پر ان کو بنا رہی ہے وہ مہینے میں 125 ونٹیلٹر بنانے کی صلاحیت کو فوری طور پر 500 تک لے جائے۔

اس بحران سے نکلنے کے لئے ایک اور طریقہ یہ استعمال کیا جا رہا ہے جو فیکٹریاں ان مشینوں کو نہیں بناتیں لیکن یہ صلاحیت رکھتی ہیں کہ کچھ کوشش کر کے ان کی پیداوار شروع کر دیں وہ ہنگامی بنیاد پر ان کو بنانا شروع کریں۔ مثال کے طور پربرطانوی وزیر اعظم بورس جانسن صاحب نے گاڑیاں بنانے والی کمپنی جیگوار تک کو ہدایت کی ہے کہ وہ ونٹیلیٹر (Ventilators) کی پیداوار شروع کرنے کی کوشش کرے۔ اس پہلو سے تیاری کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کل نیویارک کے گورنر نے اپنے ملک کی مرکزی حکومت اور صدر ٹرمپ کو اس بات پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ ہمیں ہزاروں کی تعداد میں ونٹیلیٹروں کی ضرورت تھی اور اس کی نسبت بہت کم تعداد مہیا کی گئی۔

یہ قابل تحسین بات تھی کہ اس موضوع کی ا ہمیت کے پیش نظر 24 مارچ کو و زیر اعظم صاحب کی پریس کانفرنس میں وزیر اعظم صاحب اور این ڈی ایم اے کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل افضل صاحب نے ان مشینوں کی دستیابی کے بارے میں قوم کو اعتماد میں لیا۔ بہتر ہوتا اگر اس پریس کانفرنس سے قبل دونوں کو اپنے پاس موجود اعداد و شمار کا موازنہ کر لیتے۔ کیونکہ جنرل افضل صاحب فرما رہے تھے کہ پہلے ہمارا اندازہ تھا اور میں نے اس کا ذکر بھی کیا تھا کہ ملک کے پبلک سیکٹر میں 2200 کی تعداد میں ونٹیلیٹر موجود ہیں اور وزیر اعظم صاحب کا کہنا تھا کہ پہلے ہمارا خیال تھا کہ ملک میں 1500 کی تعداد میں یہ مشینیں موجود ہیں۔ ایسے بحران میں اس قسم کے حساس معاملے میں حکومت کے پاس معین اعداد و شمار ہونے چاہییں۔

اس کے بعد جنرل صاحب نے بتایا کہ پبلک سیکٹر میں جتنی تعداد میں یہ مشینیں موجود تھیں ان میں سے نصف اس وقت کام نہیں کر رہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت ملک میں صرف آٹھ سو سے بارہ سو ونٹیلیٹر موجود ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ پوری دنیا کئی ہفتے سے اس بحران کا شکار ہے۔ اور کم از کم پبلک سیکٹر میں کتنے ونٹیلیٹر کام کر رہے ہیں اور کتنے بیکار پڑے ہیں یہ اعداد و شمار تو چند روز میں جمع ہوجانے چاہیے تھے لیکن صوبائی اور مرکزی حکومتیں مل کر کئی ہفتے تک یہ اعداد و شمار ہی جمع نہیں کر سکیں۔

یہ تو ٹھیک ہے کہ جب کوئی مشینری استعمال ہو رہی ہو تو اس کی ایک شرح ضرور خراب ہوتی ہے لیکن ونٹیلیٹر جیسی حساس مشینوں میں سے آدھی خراب پڑی ہوں یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس پر ویسی ہی تحقیق ہونی چاہیے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اور جنرل صاحب نے اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ جب نئے ونٹیلیٹر میسر نہیں ہو رہے تو ان کو مرمت کرانے کا کیا انتظام کیا گیا ہے؟ اور پرائیویٹ سیکٹر میں ان کی فراہمی کی کیا صورت حال ہے، ان اعداد و شمار کا بھی ذکر نہیں کیا گیا۔

سب کو معلوم ہے کہ ونٹیلیٹر ایک مہنگی مشین ہے اور یہ ریوڑیوں کی طرح نہیں خریدے جا سکتے۔ ایک ونٹیلیٹر خریدنے پر بیس لاکھ روپِے سے زائد خرچ ہو سکتا ہے۔ ایک موازنہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں کتنے ونٹیلیٹر ہیں اور کتنے ٹینک ہیں؟ اور دنیا کے مختلف ممالک میں کتنے ونٹیلیٹر اور کتنے ٹینک ہیں؟ یہ تو سب جانتے ہیں کہ ایک ٹینک خریدنے پر تو کروڑوں روپے خرچ آتے ہیں۔ کئی پڑھنے سوچیں گے کہ کیا ہو گیا ہے؟ یہ کیا اوٹ پٹانگ موازنہ ہوا۔ میری گزارش ہے کہ اس سے کم از ہماری ترجیحات کا اندازہ ہو جاتا ہے۔

روس کے پاس بیالیس ہزار ونٹیلیٹر ہیں اور ان کی فوج کے پاس تیرہ ہزار ٹینک ہیں۔ امریکہ کے پاس 62 ہزار ونٹیلیٹر اور چھ ہزار تین سو ٹینک ہیں۔ بھارت کے پاس بیالیس ہزار ونٹیلیٹر اور چار ہزار تین سو ٹینک ہیں، چین کے پاس 2011 میں ساٹھ ہزار ونٹیلیٹر تھے اور اب ان کی تعداد بہت زیادہ ہو چکی ہے۔ اور چین کی فوج کے پاس ساڑھے تین ہزار ٹینک ہیں۔ جرمنی کے پاس پچیس ہزار ونٹیلیٹر اور صرف 245 ٹینک ہیں۔ برطانیہ کے پاس نو ہزار سے زاید ونٹیلیٹر اور صرف 227 ٹینک ہیں۔

فرانس کے پاس پانچ ہزار ونٹیلیٹر اور 530 ٹینک ہیں۔ اور اب وطن عزیز پاکستان کا جائزہ لیتے ہیں شکر ہے کہ ہمارے پاس 2200 ٹینک موجود ہیں۔ اور اگر آپ بھول گئے ہیں تو یاد کرا دوں کہ ہمارے پاس صرف ایک ہزار یا اس سے بھی کم ونٹیلیٹر کام کر رہے ہیں۔ کیا محسوس فرمایا؟ اتنی طویل فہرست میں جس میں امیر ترین ممالک بھی شامل ہیں صرف پاکستان ہی ایسا ملک ہے جس کے پاس موجود ٹینکوں کی تعداد ونٹیلیٹروں کے تعداد سے زیادہ ہے اکثر ممالک نے ٹینک تو خریدے لیکن وہ اپنے مریضوں کے لئے کئی گنا ونٹیلیٹر بھی خریدتے رہے۔

یہ صورت حال صرف اس حکومت میں پیدا نہیں ہوئی۔ اب جب کہ بحران شروع چکا ہے یہ صورت حال کئی مہینوں میں بھی درست نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ دنیا بھر میں اس مشین کی ایک سال کی پیداوار پہلے ہی خریدی جا چکی ہے۔ ہماری تمنا ہے کہ یہ بحران ٹل جائے اور ہمارے ملک میں تباہی نہ پھیلائے۔ لیکن کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم کچھ غلطیاں درست کر لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments