کورونا وائرس: کیا انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں مودی کا کام آسان ہو گیا؟


کشمیر

عمر عبد اللہ اور فاروق عبد اللہ

پوری دُنیا کے بیشتر ممالک کے کورونا وائرس کی زد میں آنے سے قبل انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی اور وزیرِ داخلہ امیت شاہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں معمول کی سیاست کی بحالی کے لیے بے چین تھے۔

گذشتہ برس اگست میں خطے کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے سے یہاں کے لوگ ناراض تھے۔ بے مثال قدغنوں اور کلیدی سیاسی رہنماؤں سمیت ہزاروں افراد کی گرفتاری سے کشمیر خوفناک خاموشی کی تصویر بن کے رہ گیا تھا۔

اسی دوران نئی دلی کے مؤقف کی غیرمشروط حمایت کے لیے جب سیاسی اتحادیوں کی تلاش شروع ہوئی تو محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک رہنما اور سابق وزیر نے تقریباً دو درجن سیاسی رہنماؤں کا گروپ بنایا اور اس کا نام ’اپنی پارٹی‘ رکھا۔

انھوں نے وزیرِ اعظم مودی اور وزیرِ داخلہ امیت شاہ کے ساتھ دلی میں ملاقات کی اور یہاں اعلان کیا کہ وہ بجلی، پانی اور سڑک کی تعمیر کی بات کریں گے اور کچھ نہیں کہیں گے۔

اس کا سادہ سا مطلب یہ تھا کہ جو کچھ گذشتہ برس کشمیر میں ہوا اس پر اب واویلا کرنا وقت کا ضیاع ہے اور کچھ نہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ملائیشین پام آئل کشمیر تنازعے کا شکار

عمر عبداللہ رہا، جیل سے گھریلو قرنطینہ میں

’اس طرح کی یکجہتیوں سے کشمیر آزاد نہیں ہو سکتا‘

فاروق عبداللہ کی رہائی: ’سب کی رہائی کے بعد کچھ کہوں گا‘

لیکن صورتحال کا ڈراپ سین انڈیا میں پہلے کووِڈ 19 کیس کے انکشاف سے ذرا قبل اُس وقت ہوا جب کشمیر کی سب سے بڑی اور پرانی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے سرپرست اور سابق وزیر اعلیٰ اور موجودہ رکنِ پارلیمان فاروق عبداللہ کو رہا کیا گیا۔

رہائی کے بعد فاروق عبداللہ نے سبھی قیدیوں کی رہائی تک سیاسی مسائل پر بات نہ کرنے کا اعلان کیا۔

اب جب کہ پورے انڈیا میں کووِڈ 19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن ہے تو فاروق عبد اللہ کے بیٹے عمرعبداللہ کو بھی رہا کیا کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے بھی کہا کہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ کا فیصلہ ہونے تک وہ سیاسی گفتگو سے پرہیز کریں گے۔

اب سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی رہائی کا حکم آیا چاہتا ہے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ موجودہ حالات کے پیش نظر وہ عبداللہ خانوادے کی طرف سے کھینچی گئی لکیر کو پار نہیں کر سکیں گی۔

محبوبہ مفتی

پی ڈی پی کی محبوبہ مفتی نے 2016 میں بی جے پی کی حمایت سے کشمیر کی پہلی خاتون وزیراعلی کا حلف لیا، ان کے بہت سے حامی بی جے پی کے ساتھ اتحاد کو عوام کے ساتھ ‘دھوکہ’ قرار دیتے رہے(فائل فوٹو)

واضح رہے عمرعبداللہ، فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی گذشتہ برس اگست میں ہونے والے فیصلے کی مخالفت میں ایک ہی صفحے پر ہیں اور اس پر تبصرے کیے گئے ہیں کہ اسی وجہ سے انھیں طویل قید میں رکھا گیا۔

اب عوامی اور بعض سیاسی حلقوں میں یہ کہا جا رہا ہے کہ نئی دلی اور ان اہم سیاسی رہنماؤں کے درمیان کوئی خفیہ مفاہمت ہو گئی ہے اور اسی مفاہمت کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ’اپنی پارٹی‘ کے الطاف بخاری کو ایک متبادل کے طور سامنے لایا گیا ہے۔

سیاسی تجزیہ نگار اعجاز ایوب کہتے ہیں کہ ’ظاہر ہے نئی دلی کشمیر میں اپنے مؤقف کی اشاعت کے لیے کشمیری چہروں کی تلاش میں رہتی ہے۔

یہ کام عبداللہ اور مفتی سے بہتر کون کر سکتا ہے۔ مگر اس بار دونوں کو عوامی ساکھ کھونے کا ڈر تھا۔ لیکن یہ مسئلہ کورونا وائرس نے حل کر دیا۔ جو کچھ پچھلے سال ہوا، کورونا کے مسئلے نے اُسے کنارے کر دیا ہے اور یہی وہ سنہری موقعہ ہے جو مودی کے ہاتھ لگا ہے کیونکہ وہ عرصے سے یہاں کے سیاسی بیانیے کو بدلنا چاہتے تھے۔‘

عمرعبد اللہ کی نیشنل کانفرنس سنہ 2009 میں اٹل بہاری واجپائی کی زیر قیادت قومی جمہوری اتحاد کا حصہ رہی ہے اور عمرعبداللہ واجپائی کی حکومت میں نائب وزیرِ خارجہ رہے ہیں۔

محبوبہ مفتی نے سنہ 2016 میں بی جے پی کی حمایت سے کشمیر کی پہلی خاتون وزیرِ اعلٰی کا حلف لیا، حالانکہ بی جے پی نے اُن کی مدت اقتدار ختم ہونے سے تین سال قبل ہی یہ کہہ کر حمایت واپس لے لی کہ محبوبہ کا لہجہ علیحدگی پسندانہ ہے۔

مبصرین اسی پس منظر میں کہتے ہیں کہ معروف رہنماؤں کے لیے دلی کے ساتھ خفیہ ساز باز کوئی نئی بات نہیں۔

کالم نویس طارق علی میر کہتے ہیں کہ ’کورونا وائرس نے اُس ناراضگی کی شدت تو کم کر دی ہے جو گذشتہ برس اگست کے فیصلے سے پیدا ہوئی تھی لیکن ہمیں دیکھنا ہو گا کہ کورونا کا اثر کس حد تک ملکی سطح پر سیاسی لہجوں پر اثر انداز ہو گا۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ مودی اور امیت شاہ کے لیے کشمیر میں پرانے ہی چہروں کے ذریعہ سیاست کی نئی لہجہ سازی کا سنہری موقعہ مل گیا ہے۔‘

قابل ذکر بات یہ ہے کہ بی جے پی کے کشمیری کارکنوں نے حالیہ دنوں لوگوں کی ہمدریاں حاصل کرنے کے لئے کئی علاقوں میں فیس ماسک، سینی ٹائزر اور کووِڈ اُنیس کے بچاو کے لئے دیگر اہم اشیا لوگوں میں تقسیم کیں۔

کشمیر

اپنی پارٹی کے رہنما الطاف بخاری

بی جے پی کے ترجمان الطاف ٹھاکر کہتے ہیں: ’یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور ہم جذبات کی سیاست نہیں کرتے۔ البتہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے ہمیشہ لوگوں سے جھوٹ بولا ہے، انھیں خودمختاری اور خود حکمرانی کے خواب دکھائے۔ ہم ایسا نہیں کرتے۔ ہم نے ’اپنی پارٹی‘ کا خیرمقدم کیا کیونکہ جمہوریت میں سب کو سیاست کرنے کا حق ہے۔ اگر رہائی کے بعد فاروق عبداللہ اور عمرعبداللہ محتاط انداز میں بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ انھیں دیوار پر لکھی تحریر صاف نظر آرہی ہے ۔‘

غورطلب ہے کہ فاروق عبداللہ اور عمرعبد اللہ کو وطن دشمنی اور امن و قانون میں رخنہ اندازی کے الزامات کے تحت قید کیا گیا تھا۔

تاہم اُن کی رہائی کے حکم نامے میں یہ واضح نہیں ہے کہ انھوں نے الزامات کو تسلیم کرکے سابق لہجے میں سدھار کی یقین دہانی کی ہے یا حکومت نے ہی الزامات کو غلط قرار دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp