کپتان کے استعفے کی افواہ کیوں پھیلی؟


جب بھارت کو بہت جوش آیا تھا کہ وہ بھوک ننگ اور لچ لفنگ میں اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ اسے سیکیورٹی کونسل کا مستقل ممبر بننا چاہیے تب جرمنی جاپان کے ساتھ مل کر اس نے مہم شروع کر دی تھی، یہ مہم کامیاب ہی ہو جاتی، پر ہوا یہ کہ پاکستان کے بڈھے بڈھے ٹلے ٹلے سفارتکار سرگرم ہوئے انہوں نے اٹلی کے ساتھ مل کر اہم سفیروں کا کافی کلب بنا لیا۔ ایک کامیاب سفارتی مہم شروع کی اور دنیا کے اس تگڑے زیرو میٹر اتحاد کو اک شاندار سفارتی شکست دی۔

اس دن کے بعد سے پاکستان اور اٹلی میں بہنوں والا سچا سفارتی پیار ہے۔ اب جب کسی کانفرنس میں عالمی راہنما اکٹھے ہوں پاکستان اور اٹلی کے بڑے بھی وہاں ہوں تو ان کی لازمی ملاقات ہوتی ہے۔

کپتان نے کشمیر پر جب شاندار تقریر چھوڑی تھی یو این میں شاید وہ پہلا موقع تھا جب اٹلی کے وزیراعظم سے ہمارے وزیراعظم کی رسمی علیک سلیک بھی نہ ہوئی، تب ہمارے نوجوان لیڈر نے کیا شرلی چھوڑ رکھی تھی اب یاد نہیں۔

آج کل لاک ڈاؤن کرفیو وغیرہ کے فرق پر آکسفورڈ والی تحقیق پیش کرنے ہمارا لیڈر بار بار میڈیا کے سامنے آ رہا، میڈیا والوں کو ڈرانے کے لیے جب سامنے آتا ہے تب عبرت کی دو ہی مثالیں پیش کرتا ہے اک اٹلی دوسرا ایران۔ اخے ایران نے پاکستانی لا کر ہماری سرحد پر ہمارے شہری کھڑے کر دیے۔ انہیں ہماری طرف دھکیل دیا، بندہ پوچھے انہیں افغانستان کی سرحد پر لے جاتے یا ترکی کی طرف دھکا دیتے ایران والے؟

کپتان ایران گیا تھا تو کسی کو یاد ہو کہ پھر کیا ہوا تھا، کیا خبریں آئی تھیں؟ کامیابی کا وہ گھوڑا بھی کھوتا کھوہ ہوا پڑا ہے، وجہ صرف یہ نیا انداز بیان ہی ہے۔ ایران اور اٹلی دونوں بے چینی ظاہر کر رہے ہیں کہ کوئی تکلیف ہے تو سفارتی چینل استعمال کرو یہ میڈیا پر ہمارا ذکر کیوں اور وہ بھی ایسے۔ ہیں جی، کیوں جی؟

پارلیمانی لیڈروں کی کانفرنس سے اپنی غزل سنا کر رقیبوں کی شاعری سنے بغیر فرار ہو کر ہمارے وزیراعظم نے کہیں میڈیا پر کہہ دیا کہ دیکھو جی لاک ڈاؤن لاک ڈاؤن کی باتاں نہ کرو گلگت بلتستان میں پہلے ہی تیل کی شارٹیج ہو گئی ہے۔

اب یہ وہ نازک مقام ہے جہاں کوئی دیکھے بھی تو ہمیں خارش ہوتی ہے، کہ ادھر کوئی کیوں دیکھ رہا ہے، آخر کیوں۔ حوالدار بشیر کو پھر اٹھ کے جا کے پوچھنا پڑتا کیوں بھئی کیا تکلیف ہے۔ بھارت اپنے پاس موجود کشمیر کو متنازعہ علاقہ نہیں کہتا، ہمارا موقف ہے کہ گلگت متنازعہ علاقہ ہے۔ اب اس کی حساسیت یوں بہت بڑھ چکی ہے سی پیک یہیں سے گزرتا ہے۔ ہمارے شریک اپنا ساڑ یہیں نکالنے کو بے چین پھرتے موقع ڈھونڈتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ادھر کچھ ہو کوئی موقع کوئی خبر ہاتھ لگے تاکہ وہ پھر ڈھول بجائیں۔

کپتان کا بیان بھارتی میڈیا کے ہاتھ بٹیرا آنے والی بات تھی۔ اس بیان کو لے کر انڈین میڈیا نے اپنا لچ تلنا شروع کر دیا۔ یہ شوں شوں زیادہ ہی بڑھ گئی۔

اس کے بعد پھر ہمارے ساتھ لگتے چین کے ہمسایہ صوبے شنجیانگ کے گورنر نے وزیراعلی گلگت بلتستان کو کال کھڑکا دی۔ ان سے پوچھا کہ آپ کے پاس تیل کی شارٹیج ہے؟ انہیں وزیراعلی نے کہا بالکل نہیں ہمارے پاس جتنے ہفتوں کا سٹاک ضروری ہوتا وہ موجود ہے۔

آپ کو کیا چاہیے، حکم کریں؟ وزیراعلی نے لگتا نورجہاں کا پورا گانا گا کر سنایا کہ ماہی میں ہک عرض کراں۔ اب جمعہ کے روز سوست باڈر کھلے گا اور شنجیانگ سے امدادی سامان کا قافلہ گلگت بلتستان پہنچے گا شریکوں کو اگ لگے گی، مٹھی مٹھی۔

پر اک گل کی بالکل سمجھ نہیں آ رہی، بے وثوق نے مزے لے لے کر یہ سارا قصہ تو سنایا ساتھ حیرت ظاہر کی کہ کل اچانک کپتان کے کے استعفے کی خبریں کیوں سوشل میڈیا پر چل پڑیں؟ تھوڑی بہت رنگائی چھلائی رگڑائی تو پھر چلتی ہے۔ پر کپتان کو پوچھنے والا کوئی ہے کیا؟ وہ سوٹی والی سرکار کو تو سچا پیار ہے سوہنے سے، تو پھر کون؟

اب اگلی ملاقات میں دیکھنا پڑے گا کہ سوٹی کیسے کدھر کو رکھ کے بیٹھتے ہیں ، کہیں چھپا ہی نہ لیں فوٹو میں نہ آئی تو پھر جو ہمیں وہ بہت کمینی سی خوشی ہونی ہے وہ کیسے ہو گی۔ سر جی غصہ نہ کرنا اتنا سوہنا تو ہے کرپٹ بھی نہیں ہے کیا ہوا جو بولتے وقت سوچتا نہیں سمجھتا بھی تو نہیں ہے، اچھا نہیں چلیں جیسے آپ کی مرضی۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments