پہلی اُڑان – پی آئی اے افسر کا بورڈنگ پاس دینے سے انکار


جب یادوں کے دریچے کھلتے ہیں توکھلتے ہی چلے جاتے ہیں۔ یک دم سے تیزہوائیں چلنے لگتی ہیں اور موسلادھار بارش ہونے لگتی ہے۔ میں آنکھیں مِیچ کر آسمان کو تکنے لگتی ہوں اور ہاتھ پھیلا کر بارش کے قطرے سمیٹ لیتی ہوں، لیکن جب ہاتھ کھول کر دیکھتی ہوں تو ہاتھوں میں ننھے ننھے روئی کے گالے ہوتے ہیں، ہوا کا تیز جھونکا آتا ہے اور ہر طرف برف اُڑنے لگتی ہے۔ پھر میں خود کو برف کے ریگستان میں کھڑا ہوا محسوس کرتی ہوں۔ میں آنکھیں بند کر لیتی ہوں اور ایک دم سے سناٹا چھا جاتا ہے اور خود کو لوگوں کے ہجوم میں موجودپاتی ہوں، دونوں ہاتھوں میں بیگز کے ہینڈل پکڑے اور دونوں کاندھوں پر بیگ پہنے میں علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی راہداری میں کھڑی بابا کو الوداع کہہ رہی ہوتی ہوں۔

میرے اصل سفر کا آغاز یہیں سے ہوا تھا 8 اگست 2016 کی صبح لاہور میں طلوع ہونے والا سورج مجھے الوداع کہہ رہا تھا۔ ہر انسان کی زندگی میں کچھ لمحات ایسے آتے ہیں جن کو بھرپور انداز میں محسوس تو کیا جا سکتا ہے مگر بیان کرنے بیٹھو تو الفاظ احساسات کے شور میں کہیں کھو جاتے ہیں وہ لمحات بھی کچھ ایسے ہی تھے۔ میرے قدم ٹرمنل کی جانب اٹھ رہے تھے اور بابا دور سے دور ہوتے جارہے تھے۔ عین گیٹ کے بیچ کھڑے ہوکرجب گارڈ میرا پاسپورٹ چیک کر چکا تو میں نے مڑ کر دیکھا تو لوگوں کے ہجوم میں مجھے ایک ہاتھ ہلتا ہوا دکھائی دیا وہ میرے بابا کا ہاتھ تھا وہ مجھے خداحافظ کہہ رہے تھے۔

میرے کانوں میں چند لمحوں پہلے والے ان کے الفاظ گونجتے تھے ”جاؤ بیٹا اللہ کی امان میں“۔ اسی لمحے میں نے بھی ہاتھ اٹھا کر خدا حافظ کہا۔ اور میرے قدم اندر کی جانب اٹھ گئے۔ میں اندر داخل ہوئی تو یکسر نیا منظر میرا منتظر تھا کچھ جانے پہچانے چہرے بھی نظرآئے جن سے میں پی ڈی او میں مل چکی تھی۔ مگر شاید وہ لوگ کسی اور ائیرلائن سے پرواز کرنے والے تھے۔ میں پاسپورٹ اور ٹکٹ تھامے پی آئی اے کے استقبالیہ پر پہنچی اور بورڈنگ پاس کا مطالبہ کیا۔

وردی میں ملبوس استقبالیہ پر بیٹھے اس شخص نے کن اکھیوں سے میری ٹکٹ کو دیکھا اور پھر ایک نظر مجھ پر ڈالی اور ساتھ ہی پھینکنے والے انداز میں ٹکٹ سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ مجھے بورڈنگ پاس نہیں ملے گا۔ مجھے کچھ ہتک کا احساس ہوامگراس کی جگہ پریشانی نے لے لی اور میں نے معصوم سی شکل بنا کر دریافت کیا کہ آخر کیوں؟ مگر اس سنگدل انسان پر میری معصوم شکل کا کوئی اثر نہیں ہوا البتہ مجھے یہ اندازہ ضرور ہوگیا کہ اس شخص کے پاس میری ٹکٹ کو مسترد کرنے کا کوئی مناسب جواب نہیں ہے۔

جبھی اس نے نہایت ہتک آمیز انداز میں کہا کہ جاؤ جنہوں نے یہ جاری کیا ہے ان سے رابطہ کرو۔ ناں چاہتے ہوئے بھی میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ یہ میری زندگی کا پہلا موقع تھا جب میں ملک سے باہر جا رہی تھی۔ اور میں اس بات سے قطعی طور پر ناواقف تھی کہ اس ٹکٹ کی اہمیت فقط ایک کاغذ کے ٹکڑے کی ہے اور محض پاسپورٹ دکھا کر بھی بورڈنگ پاس حاصل کیا جا سکتا تھا۔ استقبالیہ پر بیٹھے اس شخص نے میری اس لاعلمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مجھے کہا کہ میں اپنی تنظیم سے امریکہ میں رابطہ کروں اور کہوں کہ مجھے نئی ٹکٹ بھیجی جائے ورنہ مجھے بورڈنگ پاس نہیں ملے گا۔

میں عجیب سی کشمکش کا شکار تھی اور حیران ہو رہی تھی کہ جب باقی سب طلباء کی ٹکٹ بھی بالکل میری ٹکٹ جیسی ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ وہ لوگ بورڈنگ پاس حاصل کر چکے ہیں۔ میں نے ایمیریٹس کے استقبالیہ پر اپنے ساتھی طلبا کی لمبی قطار دیکھی تھی۔ پہلا خیال جو ذہن میں آیا وہ یہ تھا کہ کاش میری فلائٹ بھی پی آئی اے کی بجائے کسی اور ایئرلائن سے ہوتی۔ مگر یہ سب سوچنا بالکل بیکار تھا۔ دوسری پریشان کن بات یہ تھی کہ میرے موبائل میں نہ تو بیلنس تھا اور نہ ہی انٹرنیٹ کا کنکشن اور حد یہ کہ اگر ہوتا بھی تو کیا فائدہ ہوتا کیونکہ میرا تو ای میل پر رابطہ تھا اور ای میل کا جواب فوراً نہیں آیا کرتا۔

میں یہ سب سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہی تھی کہ ایئرپورٹ کا منظر دھندلا گیا پلکیں جھپکیں تو منظر صاف ہوا میرے بالکل سامنے مصفہ کھڑی مسکرا رہی تھی مگر فوراً ہی اس کی مسکراہٹ حیرت میں بدل گئی تھی اور اگلے ہی لمحے وہ مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ آخرمیں رو کیوں رہی ہوں؟ مصفہ کو دیکھ کر میں یک دم پُرامید ہو گئی تھی یقیناً اس کی فلائٹ بھی پی آئی اے سے تھی جبھی وہ اس استقبالیہ پر آئی تھی۔ جہاں مصفہ کو دیکھ کر میری ڈھارس بندھی تھی وہیں یہ سن کر میری 90 فیصد پریشانی دور ہو گئی تھی کہ بورڈنگ پاس تو مصفہ کو بھی نہیں ملا۔

جب آپ کی بھینس چوری ہو جائے تو دکھ ہوتا ہے مگر جب آپ کے ساتھ ساتھ ہمسایوں کی بھی بھینس چوری ہو جائے تو دکھ میں کمی واقع ہوجاتی ہے کیونکہ زندگی میں ہمیشہ ساتھی کی بہت اہمیت ہوتی ہے بھلے وہ خوشیوں کا ساتھی ہو یا دکھوں کا، اس کا قدم ہمیشہ آپ کے قدم کے برابر اٹھتا ہے اور برابر اٹھنے والا قدم آپ کے حوصلے بلند کر دیتا ہے۔ اس وقت مصفہ میری ساتھی تھی اور ہم دونوں ایک دوسرے کا حوصلہ تھے۔

کچھ دیر بعد جب استقبالیہ پہ ایک نئی صورت ابھری تو میں نے اور مصفہ نے جھٹ سے بورڈنگ پاس کا مطالبہ کردیا اور اس دفعہ بنا کسی دقت کے ہمیں بورڈنگ پاس تھما دیا گیا۔ اس واقعے کامیرے اوپرکچھ ایسا اثر ہوا کہ جب تک میں جہازمیں نہیں بیٹھ گئی مجھے یقین تھا کہ میں پاکستان رہ جانے والی ہوں۔ جہاز میں بیٹھنے سے کچھ دیرپہلے تک میں اور مصفہ یہی سمجھ رہے تھے کہ پی آئی اے سے پرواز کرنے والے ایکسچینج طلباء میں صرف ہم دونوں شامل ہیں۔

مگر کچھ ہی دیر بعد ہماری ملاقات ارم سے ہوگئی۔ ہم خوش تھے کہ اب ہم دو سے تین ہو گئے ہیں۔ خدا خدا کر کے جہاز میں سوار ہونے کا پروانہ آیا اور ہم قطار میں لگ گئے جہاز میں بیٹھنے کے بعد واحد مایوسی کی بات یہ تھی کہ مجھے کھڑکی والی نشست نہیں ملی تھی۔ اتنے میں جہاز نے رفتار پکڑی اور کچھ ہی دیر میں ہم فضا میں تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments