کورونا وائرس کو شکست دینے والے چین کے طبی عملے کو سلام


نوول کورونا وائرس اس وقت عالمی سطح پر صحت عامہ کے تحفظ کے حوالے سے درپیش سب سے بڑا مشترکہ چیلنج ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ متاثرہ مریضوں کی تعداد اور شرح اموات میں اضافے نے دنیا کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ تمام تر ترقی اور وسائل کے باجود ایسے بحران اور بڑی آزمائش میں کوئی بھی ملک تنہا کچھ نہیں کر سکتا ہے۔ گلوبل ویلج کا تصور آج حقیقی معنوں میں آشکار ہوا ہے۔

دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں میں عدم تحفظ اور مایوسی جنم لے رہی ہے، صحت عامہ کے تحفظ کے لیے سست روی اور ناکافی اقدامات کے شکوے سامنے آ رہے ہیں، شعبہ صحت کے لیے مختص فنڈز کی بابت عوامی نمائندوں سے پوچھا جا رہا ہے، امراض کی سائنٹفیک تحقیق کی عدم فعالیت سے متعلق سوالات جنم لے رہے ہیں اور طبی وسائل کی وافر موجودگی کے حوالے سے مختلف ممالک کے کھوکھلے دعووں کی قلعی کھل چکی ہے۔

اضطراب کی اس کیفیت میں انسانیت کے پاس کورونا وائرس کو شکست دینے کے لیے امید کی واحد کرن چین کے شہر ووہان اور صوبہ حوبے کا کامیاب ماڈل ہے۔ چین نے وبا کے خلاف شفاف، بروقت، طاقتور اور سخت ترین اقدامات کے تحت موئثر طور پر قابو پالیا ہے۔ ووہان کو چین سمیت دنیا بھر میں کورونا وائرس کا مرکز قرار دیا گیا تھا اور متعدی امراض کے خلاف انسانی تاریخ میں بلاشبہ یہ ایک بے نظیر مثال ہے کہ کیسے اتنی قلیل مدت میں وبا کے سیلاب کے سامنے بند باندھتے ہوئے نہ صرف چینی عوام بلکہ پوری دنیا کے انسانوں کا تحفظ کیا گیا۔ مسلسل پانچ روز سے ووہان شہر میں ایک بھی نیا کیس سامنے نہ آنا پوری دنیا کے لیے خوش آئند اور باعث تقویت ہے کہ ہاں : ہم مل کر کورونا وائرس کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ بلاشبہ اس شہر نے جو عظیم قربانیاں دی اور لاک ڈاون کے باعث جن مصائب کو برداشت کیا وہ تاریخ کے انمٹ نقوش ہیں۔

کورونا وائرس کے خلاف ووہان اور صوبہ حوبے کی فتح میں جہاں بے شمار عوامل کارفرما رہے وہاں ملک بھر سے جمع ہونے والے طبی عملے نے پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ساتھ جذبہ ایثار، ہمدردی اور قربانی کے ٹھوس عملی اظہار سے فتح کی بنیاد فراہم کی۔ چین بھر سے بیالیس ہزار سے زائد طبی عملہ اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر لگن اور جانفشانی کے ساتھ دن رات مصروف عمل رہا اور اُن کی کٹھن جدوجہد کا ثمر کورونا وائرس کی شکست کی صورت میں برآمد ہوا۔

پوری دنیا نے چین کے طبی عملے کی کاوشوں کو اعتراف کیا اور اسے قابل تقلید نمونہ قرار دیا۔ اس جنگ کے دوران کئی طبی کارکنوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے لیکن اپنے مقدس پیشے، فرض کی تکمیل اور انسانیت کی خدمت سے سرشار جذبوں پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔ ووہان اور صوبہ حوبے میں وبا پر موثر طور پر قابو پالیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت طبی عملے کی اپنے آبائی علاقوں کو واپسی جاری ہے۔ صوبہ حوبے کے عوام اپنے ان عظیم محسنوں کو رخصت کرتے وقت بھی انہیں بھرپور خراج تحسین پیش کر رہے ہیں جبکہ آبائی علاقوں میں ان ہیروز کاشایان شان استقبال کیا جا رہا ہے۔

کورونا وائرس کے خلاف جنگ کے دوران چین کے طبی عملے نے اپنے خاندان، عزیز و اقارب اور سکھ چین کو یکسر بھلا دیا اور انسانی زندگی کا تحفظ اُن کا واحد مقصد بن گیا۔ شبانہ روز محنت اور دیانتداری سے مریضوں کا علاج کیا گیا۔ ایک خاندان کے فرد کی طرح اُن کی دیکھ بھال کی گئی اور طبی عملے کی یہ کوشش بھی رہی کہ ایسی سرگرمیاں ترتیب دی جائیں جس سے مریض خود کو مصروف رکھ سکیں اور نفسیاتی طور پر بھی مضبوط رہ پائیں۔ یہی وجہ ہے پورے چینی عوام کے نزدیک طبی عملے کو فرض کی پکار پر لبیک کہنے والے محبوب ترین افراد قرار دیا گیا۔

بیالیس ہزار سے زائد طبی عملے میں چین کی مسلح افواج کے طبی دستے بھی شامل رہے اور قابل ذکر بات یہ بھی رہی کہ ان میں بارہ ہزار سے زائد ایسے نوجوان اہلکار بھی شامل تھے جن کی اوسط عمریں بیس سے تیس برس کے درمیان تھیں۔

چین کے طبی ماہرین جہاں چین میں اپنی کامیابی پر انتہائی مسرور ہیں وہاں دوسری جانب ایک بڑے ذمہ دار ملک کے شہری کی حیثیت سے وہ دنیا بھر کے ماہرین کے ساتھ بھی اپنے تجربات کا تبادلہ کر رہے ہیں تاکہ عالمگیر وبا کے خلاف فیصلہ کن کامیابی حاصل کی جا سکے۔ چینی ماہرین مختلف ویڈیو کانفرنسز کے ذریعے دنیا بھر کے صحت عامہ کے ماہرین کو رہنمائی فراہم کر رہے ہیں۔ یورپ چونکہ اس وقت وبا کا نیا مرکز ہے، سو اب تک چین اور یورپی ممالک کے درمیان انسداد وبا سے متعلق چار ویڈیو کانفرنسز کا انعقاد کیا جا چکا ہے۔

روایتی چینی طب کا بھی کورونا وائرس کی روک تھام و کنٹرول میں نمایاں کردار رہا ہے۔ چین نے اس حوالے سے بھی امریکہ سمیت دیگر ممالک کے ساتھ معلومات اور کامیاب تجربات کا تبادلہ کیا ہے تاکہ ہر اعتبار سے وبا کا تدارک کیا جا سکے۔ چین کی جانب سے طبی ماہرین دنیا کے مختلف ممالک میں بھی بھیجے گئے ہیں جن میں سربیا، ایران، عراق اور اٹلی نمایاں ہیں۔ اٹلی میں وبائی صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر اطالوی حکام چینی طبی ماہرین کی سفارشات پر من وعن عمل پیرا ہیں۔

ایران میں بھی چین کے ماڈل پر عارضی کیبن اسپتال فوری تعمیر کیے جا رہے ہیں تاکہ ہلکی علامات والے مریضوں کو الگ سے طبی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ اعداد و شمار کے مطابق چین نے اب تک بیاسی ممالک، ڈبلیو ایچ او اور افریقی لیگ کو ماسک، تشخیصی ریجنٹس، حفاظتی ملبوسات اور دیگرامدادی سازوسامان فراہم کیا ہے۔ پاکستان کو بھی اس حوالے سے خصوصی امداد فراہم کی گئی ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں نوول کورونا وائرس جدید انسانی تاریخ میں صحت عامہ کے تحفظ کے حوالے سے سب سے بڑا مشترکہ چیلنج بن چکا ہے، یہ لازم ہے کہ آپس کے سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے یکساں موقف اور گلوبل مشترکہ لائحہ عمل اپنایا جائے۔ چین سے ہم نے یہی سیکھا ہے کہ جب قوم یکجا ہو جائے اور یہ ٹھان لے کہ آزمائش کے سامنے سینہ سپر ہونا ہے تو یقین مانیے دنیا کی کوئی بھی طاقت ایسی قوم کو شکست نہیں دے سکتی ہے۔ آئیے اپنے انفرادی اور اجتماعی رویوں میں وہ تبدیلی لائیں جو اس آزمائش سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہو سکے اور دنیا بھر کے عوام بھی چینی عوام کی طرح فتح یاب ہو کر سکھ چین کا سانس لے سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments