کورونا سے پہلے اور بعد کی دنیا


کورونا وائرس کو کون نہیں جانتا۔ اب تو دنیا کاکم وبیش ہر فرد خواہ وہ تعلیم یافتہ ہے یا ناخواندہ ہے کسی ترقی یافتہ ملک کا شہری ہے یا پسماندہ علاقے کے رہنے والا وہ کورونا سے ضرور آشنا ہے۔ چین کے شہر ووہان سے وائرس کی ہلاکت خیزی کی اطلاع ملی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ وائرس دنیا بھر میں پھیل گیا۔ چین تو خیر اس جنگ میں ہمت کرکے وقتی طورپر نکل چکا ہے اور وہان شہر میں زندگی لوٹنا شروع ہوگئی ہے مگر اس وقت یورپ کورونا کی لپیٹ میں آچکا ہے۔

یورپ کے دو ملک اٹلی اور اسپین میں کورونا گویا غصے میں ہے اور انسانی زندگیوں کو تیزی سے نگل رہا ہے۔ میڈیا ذرائع کے مطابق صرف 23 مارچ کے دن میں دنیا بھر میں 1700 انسان اس وائرس کے سبب جان کی بازی ہار گئے۔ اسوقت ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا کے 195 ممالک میں وائرس کے شکار افراد کی تعداد 3 لاکھ 75 ہزار ہوچکی ہے اور ان میں سے ایک لاکھ افراد صحت یاب ہوچکے ہیں جبکہ 16 ہزار سے زائد افراد دنیا بھر میں جان کی بازی ہار چکے ہیں

عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ میں تیزی آ رہی ہے لیکن اس رحجان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ جنیوا میں ایک پریس بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈرس نے کہا کہ ’کورونا کے پہلے کیس کے رپورٹ ہونے کے بعد 67 دن میں نمبر ایک لاکھ تک پہنچا، گیارہ دن میں دوسرا لاکھ ہوا اور تیسرا لاکھ صرف 4 دن میں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے سب سے زیادہ اموات اٹلی میں ہوئی ہیں جہاں پر پانچ ہزار سے زائد اموات کی تصدیق ہوچکی ہے جو کہ چین سے بھی زیادہ ہے جہاں سے یہ وبا شروع ہوئی۔ امریکہ میں اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 25 ہزار سے زائد ہے۔ کورونا کے سبب اس سال جاپان میں گرمیوں میں ہونیو الے اولمپک گیمز کا انعقاد بھی خطرے میں پڑگیا ہے۔

کورونا کی دست درازی سے ایشیا بھی نہیں بچ سکا اور اس وقت سب سے زیادہ ایران متاثر ہوا ہے اس کے بعد اس وائرس کے اثرات پاکستان، انڈیا اور خطے کے دیگر ممالک پربھی ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ پاکستان جزوی لاک ڈاون سے مکمل لاک ڈاون کی طرف جارہا ہے اور انڈیا کی 22 ریاستوں کے 75 اضلاع میں بھی لاک ڈاون کا اعلان کیا گیا ہے۔

دنیا بھر میں کاروبار زندگی رک گیا ہے اور لوگ گھروں میں محصور ہوتے جارہے ہیں۔ زندگی تمام تر آسائشوں کے باوجود ایک مشکل شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ سب سے زیادہ متاثر غریب طبقہ ہورہا ہے اور حکومتیں اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ ان لوگوں کو کچھ مدت کے لئے کوئی ریلیف دے سکیں۔ مطلب یہ کہ موجودہ معاشی نظام اس قابل ہی نہیں کہ وہ اپنے لوگوں کو زندہ رہنے کے لئے مالی طورپر مدد کرسکے۔ کورونا وائرس نے معاشی طورپر مستحکم ممالک جن میں امریکہ، چین، جرمنی، جاپان اور برطانیہ شامل ہیں کی معاشی بنیادوں کو ہلا کررکھ دیا ہے۔

فوربز ڈاٹ کام کے مطابق امریکہ کی وال اسٹریٹ جنرل میں قائم بڑے بینکوں نے 2020 کے دوران مسلسل کساد بازاری کی پیش گوئی کر دی ہے۔ اسی طرح بینک آف امریکہ نے خبردار کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث کساد بازاری کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ جاری کردہ ایک رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ ملازمتیں ختم ہونے جا رہی ہیں، سرمایہ تباہ ہونے جا رہا اور اعتماد کا فقدان بڑھتا چلا جائے گا۔

اسی طرح ڈوئچے بینک کی پیش گوئی کے مطابق پہلی سہ مائی میں امریکہ کی معیشت 12.9 فیصد تک سکڑ جائے گی اور کورونا وائرس کے باعث میں اس میں مزید اضافہ ہو گا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موجودہ معاشی بحران عالمی جنگ دوم کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کی جانب گامزن ہے۔ ارب پتی سرمایہ کار رے ڈالیؤ نے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ اس عالمی وباء سے امریکی کارپوریشن کو چار ٹریلین ڈالر کا نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ ”یہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہماری زندگیوں میں اس سے قبل کبھی نہیں ہوا تھا، یہ ایک شدید بحران ہے جو بڑے پیمانے میں لوگوں کو دیوالیہ کر دے گا۔

یہ تو ان ممالک سے متعلق پیش گوئیاں ہیں جو کہ عالمی معاشی نظام کی نمائندگی کرتے ہیں اور مضبوط معیشتوں کے حامل ہیں ایسے میں تیسری دنیا کے ممالک جن میں پاکستان جیسے ملک شامل ہیں کا تو ذکر ہی کیا کرنا۔ ان پیش گوئیوں کو سادہ الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ کورونا وائرس کے بعد کی دنیا ایک مختلف دنیا ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments