کورونا، مولانا، مفتی اور علامہ


خدا بخشے پروفیسر فضل حسن کو۔ یونیورسٹی میں فنانس پڑھاتے پڑھاتے اکثر سیاست کی گلی میں نکل جاتے۔ سیاست سے سماجیات اور عمرانیات پر پہنچتے پہنچتے فنانس کہیں دور رہ جاتی۔ اکثر اوقات انہی لیکچرز میں قوم کے بے لوث رہ نماؤں کا ذکر آتا تو وہ موٹی عینک کے شیشوں کے پیچھے سے گول گول دیدے گھماتے اور کہتے ”دیکھو، امریکی بہت سمارٹ لوگ ہیں۔ پتہ ہے ان کا پسندیدہ محاورہ کیا ہے۔ دیٹ دئیر از نو سچ تھنگ ایز اے فری لنچ۔ دنیا میں کچھ مفت نہیں ملتا اور جو تمہیں کچھ مفت دینے کا دعوی کرے، سمجھ جاؤ دال میں ضرور کچھ کالا ہے بلکہ کالے میں کچھ دال ہے۔ سب کمانے کے دھندے ہیں“

لیجیے، پروفیسر صاحب کے ساتھ ساتھ اماں بھی یاد آ گئیں۔ بچپن میں جو لوک دانش ہمارے ذہنوں میں بٹھائی گئی اس میں دو باتیں بہت اہم تھیں۔ ایک تو نظیر اکبر آبادی کا شعر

کلجُگ نہیں کرجگ ہے یہ، یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہات دے اُس ہات لے

اور ساتھ ساتھ یہ نصیحت کہ جو قسم کھا کر سچ بولے، سمجھ لو، وہ سب سے بڑا جھوٹا ہے۔ اور جو جتنا اپنی نیک نیتی کا اشتہار لگائے، وہ اتنا بڑا دھوکا ہے۔ سچے اور نیک نیت کو کبھی یہ فکر نہیں ہوتی کہ اسے دوسروں کو کچھ باور کرانا ہے۔

پچھلی تین دہائیوں میں ان پتے کی باتوں پر ایسا ہی ایمان رہا جیسا کہ اس بات پر کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ کشش ثقل کی وجہ سے ہر شے نیچے گرتی ہے اور پاکستان کے اصل حکمران کبھی نہیں بدلتے۔ بار بار آزما کر دیکھا، یہ سب نصیحتیں آزمائش کی ہر کسوٹی پر کھری نکلیں۔

اب جب مولانا طارق جمیل رو رو کر، قسمیں کھا کر اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ زندگی میں انہیں چائے کی ایک پیالی سے زیادہ کسی چیز کی ہوس نہیں تو ہمیں خواہ مخواہ عمرہ اور حج پیکج یاد آ جاتے ہیں۔ جب وہ وزیراعظم اور آرمی چیف کے قصیدے پڑھتے ہیں، ایر چیف اور نیول چیف کا نام یاد نہ ہونے کے باوجود ان کی نیک نیتی کی گواہی دیتے ہیں، سائنس اور ٹیکنالوجی کی بے بسی کو حقارت سے دھتکارتے ہیں تو یو ٹیوب گولڈن بٹن، لینڈ کروزر، دو انگلیوں والے بادل نخواستہ عوامی مصافحے اور سینیٹائزر کے ساتھ ساتھ عامر خان اور جنید جمشید والے معانقے آنکھوں کے آگے پھر جاتے ہیں۔ اس ہات دے اس ہات لے۔

مولانا کی حالیہ پرفارمنس کا خلاصہ کچھ یوں تھا کہ ہمارا وزیراعظم نیک ہے، آرمی چیف متقی ہے، نیول اور ایر چیف بھی ٹھیک ہی ہیں، باقی رہے ڈاکٹر، نرسیں اور سائنس دان تو وہ ہوں، یا نہ ہوں، کیا فرق پڑتا ہے ویسے ہی جیسے وینٹی لیٹر ہوں یا نہ ہوں، جو کرنا ہے کورونا نے ہی کرنا ہے۔ اوپر سے مولانا صرف چائے کی پیالی کے روادار ہیں، بسکٹ یا خطائی بھی اس کے ساتھ نہیں لیتے اور اسی ناقدری پر مولانا کو ایسا رونا آیا، ایسا رونا آیا کہ شمیم آراء یاد آ گئیں۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں۔

ابھی مولانا کا غم تازہ تھا کہ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے لوگوں پر واضح کر دیا کہ مساجد کا بند کرنا شرع میں جائز نہیں۔ اس پر ہمیں ان کا شریعہ کورٹ کے قاضی کی حیثیت سے جاری کردہ حکم یاد آگیا جس میں کہا گیا تھا کہ سودی بینکاری بھی شرع میں جائز نہیں۔ سودی بینکاری تو خیر وہیں رہی پر حکم کی رو سے اس کے بطن سے ایک حلالی غیر سودی بینکاری نے جنم لیا۔ اب یہ تو مفتیان کرام ہی جانیں کہ حرام یہودی بینکنگ سے حلال اسلامی بینکنگ کی پیدائش کیونکر ہوئی۔ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ اس کے بعد بننے والے ان گنت شریعہ بورڈز سے ماہانہ لاکھوں اور سالانہ کروڑوں کی پیداوار جسے کچھ کم ظرف تنخواہ کہتے ہیں، شیخ الاسلام اور ان کے قریبی خانوادے کا مقدر بن گئی۔ شرع میں سنا ہے اسے ہدیہ کہنے سے اسی طرح برکت پڑتی ہے جیسے لیز کو اجارہ کہنے سے پڑتی ہے۔

کچھ حاسد لوگ اس ضمن میں ”کونفلکٹ آف انٹرسٹ“ نام کی ایک فضول سی اخلاقی اور قانونی شق کا حوالہ دیتے ہیں کہ فیصلہ لکھنے والے فیصلے کی کمائی کھا رہے ہیں لیکن چونکہ فقہہ میں ایسی کسی شق کا ذکر کرنا آئمہ کرام بھول گئے تھے اس لیے ان کی بات پر کوئی کان نہیں دھرتا۔

ملک پر جب کوئی آفت پڑتی ہے تو شیخ الاسلام کے درشن ہو ہی جاتے ہیں اور ہر دفعہ ایک نئی باشرع درفنطنی بھی سننے کو ملتی ہے۔ کبھی یہ طالبان کے ضمانت کار بنتے ہیں، کبھی صوفی محمد کے پیام بر تو کبھی لال مسجد کے محافظ۔ ایک ناتواں جان پر کیا کیا بوجھ ہیں۔ رہی اسلامک فنانس تو وہ ان کے گھر کی لونڈی ہے اور اس کے ساتھ سلوک بھی لونڈیوں والا ہوتا ہے۔

کورونا کے دنوں میں مفتی صاحب نے ویکسین تو تیار نہیں کی لیکن ان کے ہاتھ سے لکھی مجرب دعاؤں کا نسخہ سوشل میڈیا پر ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ ایک ستم ظریف کا خیال ہے کہ ان دعاؤں سے یہ خدشہ تو ہے کہ وائرس مسلمان ہو جائے لیکن یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ فوت ہو جائے گا۔ اس پر بس نہ ہوا تو مفتی صاحب نے ٹیلی ویژن پر آ کر ایک اور وظیفے کی تاکید کر ڈالی اور اس کے ثبوت میں ایک رویائے صادق بھی پیش کر دیا۔ فی زمانہ یہ ایسی گواہی ہے جس کی تفتیش ممکن نہیں۔ چونکہ کہہ دیا گیا اس لیے ماننا پڑتا ہے۔

شنید ہے کہ آج کل مذہبی اجتماعات کی حرمت بیان کرنے والوں کو پولیس پکڑ کر لے جاتی ہے۔ سافٹ ویر وغیرہ اپڈیٹ کرنے پر شعلہ بیان خطیب ایک سو اسی درجے کے زاویے پر مقیم ملتے ہیں۔ پر بھیا یہ نسخہ گلی محلے کے مولوی کے لیے ہے۔ مفتی صاحب تو یہ باتیں نیشنل ٹیلی ویژن پر کرتے ہیں اور سب دم سادھے سنتے ہیں۔ شیخ الاسلام جو ہوئے۔ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔

ہاتھی سے یاد آیا کہ علامہ ضمیر اختر نقوی نے بھی لونڈے لپاڑوں کی خوب عزت افزائی کی ہے۔ سوشل میڈیا پر مذاق بنانے والے ان ناہنجاروں کی وجہ سے وہ قدیمی نسخہ جو علامہ صاحب کے سینے میں دفن ہے، لگتا ہے وہیں رہ جائے گا۔ اصرار ہوا کہ کورونا کے انسداد اور عوام کے مفاد میں نسخہ بتا دیجیے تو ارشاد ہوا کہ عوام خود بھلا کس مرض کی دوا ہیں۔ قسم لے لیجیے یہ سرکلر ریفرنس ہمیں تو سمجھ نہیں آیا پر بھیا منبر کے امانت داروں میں ایسی ہی باتوں کا چلن ہے سو سن لیتے ہیں اور پنڈولم کی طرح سر بھی ہلا دیتے ہیں۔ ورنہ لوگ ایمان پر شک کرتے ہیں۔

کاش کوئی علامہ ضمیر اختر نقوی صاحب کے دل پر مرہم رکھ سکے جسے لوگوں نے میم در میم در میم سے چھلنی کر ڈالا ہے۔ مغربی نگوڑ مارے تو ویکسین کی تیاری سے برسوں نہیں تو مہینوں دور ہیں اور کورونا ہے کہ بے لگام ہوا جاتا ہے۔ علامہ صاحب کے ساتھ پاکستانیوں نے بنا کر رکھی ہوتی تو کورونا کو نیپال کی ترائی سے پہلے پناہ نہ ملتی مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے کہ تو نہیں، تیرا غم، تیری جستجو بھی نہیں۔ لاحول ولا۔ یہ ساحر لدھیانوی بیچ میں کہاں سے آ گیا۔ ہت تیرے کورونا کی۔

کہنے کو کچھ خاص نہیں ہے۔ ہاں یہ بتانا تھا کہ کورونا تو کبھی نہ کبھی چلا ہی جائے گا پر ہمارے مولانا، مفتی اور علامہ یہیں رہیں گے۔ چند دن بعد آپ اور میں بھول جائیں گے کہ وبا کے دنوں میں انسانیت سے زیادہ انہیں اپنی دکانداری عزیز رہی تھی۔ وہم بیچنے والوں کے لیے منڈی کل بھی سجی تھی، آنے والے کل میں پھر سج جائے گی۔ کچھ وائرس ایسے ہوتے ہیں جن کی ویکسین ملک ضیاء داد میں کوئی لینے میں دل چسپی نہیں رکھتا۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments