بھٹو بھی 10 لاکھ افراد سے خوف زدہ تھے!


\"Shahzad

سات دسمبر 1970 کو عا م انتخابات ہوئے پیپلز پارٹی کو مغربی اور عوامی لیگ کو مشرقی پاکستان میں کامیابی ملی۔ 6 نکات کی بات ہوئی اختیارات اور اقتدار کی منتقلی کی بات ہوئی بھارت نے بھی اپنا گھناؤنا کردار ادا کیا اور پھر صورتحال ادھر ہم ادھر تم والی ہو گئی۔ نشتر پارک کراچی جلسے میں ذوالفقار علی بھٹوکے اصل الفاظ تھے \’وہاں تم جیتے ہو اور ہم یہاں جیتے ہیں، وہاں تمھاری طاقت ہے اور یہاں ہماری طاقت ہے\’۔ اور پھر جب حالات بگڑے تو بھٹو کو لاہور کے جلسے میں یہ کہنا پڑا \’جو مشرقی پاکستان گیا میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا\’۔ بھٹو کہتے تھے کہ ہم لوگ جب ڈھاکہ جا کر بیٹھ گئے اور باہر دس لاکھ افراد جمع ہو گئے تو کون سا رکن اسمبلی ہو گا جو جرات کرے گا کہ اسمبلی میں پیش ہونے والی کسی بات کی مخالفت کرے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ بھٹو نے دس لاکھ افراد کا جو سراب بنا لیا تھا بعد میں وہ حقیقت بن گیا اور بھٹو نے اپنی آنکھوں سے بنگالیوں کا بنگلہ دیش بنتے دیکھا۔

تحریک انصاف کے سربراہ جو باربار دس لاکھ افراد کی اسلام آباد پہنچنے کی بات کرتے ہیں اس نے موجودہ حکمرانوں کو خوف کے بت کے نیچے کھڑا کردیا ہے۔ وہ سوچ رہے ہیں کہ لوگ آئے تو یہ بت ان پر گر جائے گا جبکہ دوسری سوچ یہ ہے کہ آنے دو۔ پی ٹی آئی کےکارکنوں کو اسلام آباد آنے دو۔ حقیقت آشکار ہو جائے گی کہ دس لاکھ ہیں یا دس ہزار۔ بہرحال وزیراعظم بدلنے کا یہ کوئی جمہوری طریقہ نہیں لیکن عمران خان کا موقف ہے کہ جب انہیں کہیں سے انصاف ہی نہ مل رہا ہو تو ان کے پاس احتجاج کے سوا کیا چارہ رہ جاتا ہے سوائے اس کے کہ وہ عوام کو باہر نکلنے کی کال دیں۔ باہر نکلنے کی کال باہر کی دنیا بھی دیتی ہے( جنوبی افریقہ اور جنوبی کوریا کے عوام بھی ان دنوں اپنے حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر ہیں) لیکن وہاں کم از کم یہ نہیں ہوتا کہ ریاست اپنے ہی عوام کی نقل و حرکت پر پابندی لگا دے اور ایک اکائی کو دوسرے سے کاٹ دے۔ لیکن پاکستان میں ایسا ہوا اور خیبر پختو نخوا کے ساتھ پنجاب کو بھی پنڈی اسلام آباد سے کاٹ دیا ہے۔ جس پر وزیراعلیٰ خیبر پختو نخوا پرویز خٹک کو سخت بیانات بھی دینے پڑے۔ ایسے میں شاید بعض افراد پرویز خٹک کو مورد الزام بھی ٹھہرائیں گے لیکن وہ ان حالات اور واقعات پر نظر نہیں ڈالیں گے جس کی وجہ سے ایک صوبے کے وزیراعلیٰ کو یہ سخت باتیں کہنا پڑیں۔

\"zulfikar-ali-bhutto-4\"

میٹرو اور موٹر وے بلاشبہ اچھے منصوبے ہیں۔ لیگی قیادت ملک میں سڑکوں کا جال بچھانے کی قائل ہے لیکن ان مردہ سڑکوں کا کیا فائدہ جو زندہ انسانوں کو ایک دوسرے سے ملنے نہ دے۔ ایم ون اور ایم ٹو کے بعد جی ٹی روڈ اور تمام رابطہ سڑکیں بند کرکے آپ دنیا کو چھوڑیں اس ملک کے باسیوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ اپنی کابینہ اور کارکنوں کے ساتھ اسلام آباد آنا چاہتے ہیں تو آپ نہتے لوگوں کو مسلح جتھا قرار دے کر آنسو گیس کی شدید شیلنگ کرتے ہیں۔ آپ کے اس آمرانہ اقدام سے وہ لیگی کارکن بھی ناخوش ہیں جو قائد اعظم کی طرح قانونی جنگ لڑنے کے قائل ہیں نہ کہ گولیوں اور شیلنگ سے دوسروں کو فتح کرنے کے درپے ہیں۔ حکومت اگر اس جنگ میں جیت بھی گئی جو مشکل ہےتو پھر بھی اس کی ہار ہو گی۔ لیگی کارکن اس لئے بھی پریشان ہیں کہ یہی ہمارے قائد تھے جو عدلیہ بحالی تحریک میں جب ماڈل ٹاؤن لاہور سےنکلے تھے تو نہ حکومت نے کریک ڈاؤن کیا اور نہ ہی کنٹنیرز کے ذریعے راستے بند کئے اور پھر فوج کی یقین دہانی پر معاملات ٹھیک ہو گئے لیکن آج مخالفین پاناما کا مردہ دفنانے کے لئے شور وغوغا کر رہے ہیں تو آپ انہیں جمہوری حق ادا کرنے نہیں دے رہے آخر کیوں؟ جوڈیشل کمیشن کیوں بننے نہیں دیا ؟ کیوں ٹی او آر پر اڑے رہے ؟اب دو نومبر کی تاریخ سر پر پہنچ چکی ہے تو جوڈیشل کمیشن کا چٹکلا چھوڑا جا رہا ہے جناب اتنے مہینوں سے اپوزیشن جوڈٖیشل کمیشن بنانے کی بات کررہی تھی اس وقت یہ کیوں نہیں کیا گیا۔ اور جب ملک کی اعلیٰ عدلیہ بھی ہاتھ کھڑے کردے تو کیا انا پرست سیاست دان اس بحران کو حل کر پائیں گے؟

حکومت بلاشبہ بڑے بھائی جیسے ہوتی ہے جو کبھی دلیل کی طاقت سے چھوٹے بھائی ( اپوزیشن ) کو مناتی ہے تو کبھی لاڈ کرتی ہے لیکن ہاتھ نہیں اٹھاتی۔ پانچ سال کی واہ واہ کے لئے عمر بھر کے لئے کلنک کا ٹیکا لگانا ہرگز سمجھداری نہیں ہے اور جو ماضی سے سبق سیکھنے کی بات کرتے ہیں وہ دروغ گوئی کرتے ہیں۔ 90 کی دہائی بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کی تھی۔ کیا اس دور میں ملین مارچ ، لانگ مارچ ،ٹرین مارچ نہیں ہوتے تھے؟ کیا اس وقت چلو چلو اسلام آباد چلو کے نعرے نہیں لگتے تھے؟ ہوتا تھا اور یہ بھی ہوتا تھا کہ اس وقت کی حکومت نے بھی مارچ کے شرکا کو روکنے کے لئے تمام حکومتی مشینری اور طاقت استعمال کی تو پھر ہم نے آخر کیا سیکھا ؟ جناب حکومت کسی کی بھی ہو اور حکمران کوئی سا بھی ہو۔ دماغ مفلوج اور اعصاب شل کرنے کے لئے بس اتنا ہی کافی ہوتا ہے۔۔ ۔ دس لاکھ افراد!

بلاگر سترہ سال سے پیشہ صحافت سے منسلک ہیں گیارہ برس پرنٹ میڈیا کی خاک چھانتے رہے اور گزشتہ چھ سال سے الیکڑانک میڈیا کی خاک بنے ہوئے ہیں ان دنوں 92 نیوز سے وابستہ ہیں ان سے ان کے ای میل shahzadiqbal7@yahoo.com
پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

شہزاد اقبال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شہزاد اقبال

شہزاد اقبا ل دشتِ صحافت کے پرانے مسافر ہیں۔ وہ صحافت اور سیاست کی گھڑیاں اٹھائے دو دہائیوں سے حالت سفر میں ہیں۔ ان دنوں 92 نیوز چینل میں ان کا پڑاؤ ہے۔

shahzad-iqbal has 38 posts and counting.See all posts by shahzad-iqbal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments