کروانا وائرس: کتنی حقیقت، کتنا فسانہ اور اس کا حل


آج کل عالمی منظرنامہ پر کرونا وائرس کا راج ہے۔ قومی ہو یا بین الاقوامی، ہر خبرنامے کی سرخیوں میں سرِفہرست یہی چھلاوا دکھائی دیتا ہے۔ گزشتہ سال کے اختتام پر چین میں نمودار ہونے والے اس وائرس نے بہت کم عرصے میں پوری دنیا میں اپنا خوف پھیلا دیا ہے۔ شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جو اس سے پوری طرح محفوظ ہو۔

چین میں ہزاروں جانیں نگلنے کے بعد اس آسیب نے ایران کا رکھ کیا۔ پھر یورپی ممالک میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔ چین تو، جلد یا بدیر، اس وائرس پر قابو پانے میں کامیاب ہو گیا لیکن آج اٹلی اس سے بھی زیادہ تباہ کاریاں جھیل رہا ہے۔

اس وائرس کا نقطۂ آغاز تو اب تک کوئی نہیں تلاش کر سکا۔ مختلف لوگوں کی مختلف آرا ہیں۔ کچھ لوگ اسے عذابِ الہی قرار دے رہے ہیں تو کچھ انسانی شرارت۔ مگر چین نے اس کا مکمل الزام امریکہ اور امریکی فوج کے سر ڈال دیا ہے۔ اگر گزشتہ دو سالوں کو دیکھا جائے تو چین کا یہ دعویٰ کافی حد تک درست بھی نظر آتا ہے۔ مگر موجودہ صورتحال یہ ہے کہ امریکہ خود بھی بری طرح اس وائرس کی لپیٹ میں ہے اور عالمی ادارۂ صحت کے مطابق اس کا اگلا مستقل ٹھکانہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسے میں کسی کی بھی تائید کرنا قبل از وقت ہو گا۔

مگر ہمارے لیے تشویشناک بات یہ ہے کہ اب یہ جان لیوا وائرس پاکستان میں بھی پھیل رہا ہے اور تقریباً بارہ سو افراد کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ نو جانیں بھی نگل چکا ہے۔ اس وائرس کے پاکستان میں داخلے کو بہت مضبوط موقف کے ساتھ زلفی بخاری کی کوتاہی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس پر مکمل تحقیقات کے بعد ہی کچھ کہا جا سکے گا مگر چونکہ زلفی بخاری وزیراعظم صاحب کے خاص دوست ہیں، اس لیے تحقیقات ہوتی بھی مشکل ہی دکھائی دے رہیں ہیں۔

ایسے میں سندھ حکومت کا رویہ قابلِ ستائش ہے۔ شروعات میں سندھ میں تیزی سے اس وائرس کے پھیلاؤ کے بعد سندھ حکومت نے بروقت کچھ مشکل فیصلے لیے اور اب یہ وائرس کافی حد تک قابو میں دکھائی دینے لگا ہے۔

یہ وائرس ابتک دنیا میں کم و بیش پانچ لاکھ لوگوں کو بیمار اور انیس ہزار کی جان لے چکا ہے۔ اس وائرس کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی شرح بلاشبہ بہت کم ہے مگر اسے مکمل طور پر نظرانداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ آج کے دور میں کوئی سوچ سکتا ہے کہ اموات تو ملیریا اور نمونیا جیسی بیماریوں سے بھی پیش آئیں اور جدید علومِ طب نہ ہونے کے باوجود ان کا علاج دریافت کر لیا گیا۔ مگر اس وائرس کا سب سے بڑا علمیہ اس کا پھیلاؤ ہے۔ یہ چھوت کی بیماری ہے اور ایک شخص سے دوسرے میں باآسانی منتقل ہو جاتا ہے۔ ایسے میں کون پہلے سے سانس کی بیماری میں مبتلا ہو اور اس سے مر جائے، یہ پہچاننا قدرے مشکل ہے۔

اب سوچنا یہ ہے کہ آخر اس کا حل کیا ہے۔ آخر اس وائرس کی موجودگی میں ایسا کیا کیا جائے کہ ہم محفوظ رہیں۔ احتیاطی تدابیر کی بات تو پوری دنیا ہی کر رہی ہے اور کافی حد تک درست بھی ہے۔ مگر ایسا کیا ہو جو ہم میں منفرد ہو؟

تو وہ یہ ہے کہ بحیثیتِ مسلمان ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ”ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے“ اور ہر ایک کی موت کا وقت مقرر ہے۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ ایسے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کوئی شخص اپنی سانسیں پوری کیے بغیر، اس وائرس کی وجہ سے اس دنیا سے چلا گیا اور احر ادویات میسر ہوتی تو وہ بچ جاتا۔ کیونکہ ہزاروں اسپتالوں اور ادویاتِ قلب موجود ہونے کے باوجود بھی دل کے دورے کے باعث بھی فوت ہو جاتے ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ شفا دینے والی ذات صرف اللہ کی ہی ہے۔ اور ہر نماز میں یہ عہد کرتے ہیں کہ ”ایّاک نعبد وایّاک نستعین“

تو سوائے اس ذات کے، کون ہماری مدد کر سکتا ہے؟

احتیاط اپنی جگہ مگر موت کے خوف کو خود پر حاوی نہ ہونے دیں۔ اپنے ایمان کی حفاظت کیجئے۔

حدیثِ پاک ہے،

” اور جو طاعون (کی بیماری ) سے مر گیا وہ شہید ہے“

اور چونکہ طاعون ایک وبائی مرض ہے تو اس پر صبر اور نصرِ الہی کے منتظر رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں اور ایک مسلمان کے لئے اس سے بڑا رتبہ بھلا کیا ہو سکتا ہے؟

اپنا اور اپنے گھر والوں کا خیال رکھیں، احتیاط کریں کیونکہ موت سے نہ سہی، بیماری سے بچا جا سکتا ہے لیکن خوفوہراس کسی مشکل کا حل نہیں۔

آئیے ہم سب مل کر اللہ سے اپنے تمام گناہوں کی معافی مانگیں، اور اللہ سے مدد طلب کریں۔ چاہے یہ عذابِ الہی ہے یا انسانی چال، حفاظت اور شفا صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔

اللہ ہم سب کو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔ آمین۔

(تمام اعداد و شمار تحریر کرتے وقت لیے گئے ہیں، پڑھتے وقت مختلف ہو سکتے ہیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments