کورونا وائرس کے باعث ڈالر کی عالمی ذخیرہ اندوزی


ڈالر

پاکستانی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر میں گزشتہ چند دنوں سے مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور جمعرات کی شام تک انٹر بنک میں ایک ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ ایک سو چھیاسٹھ روپے کی حد تک گر گیا۔

اس اضافے کے پیچھے ڈالر کا ملک سے مسلسل اخراج بتایا جا رہا ہے۔ پاکستان کے سٹیٹ بنک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مارچ کے مہینے میں ٹریژری بلوں میں کی گئی سرمایہ کاری میں سے 1.6 ارب ڈالر نکل کر بیرون ملک جا چکے ہیں۔ ایک مہینے سے بھی کم عرصے میں اتنی بڑی تعداد میں ڈالر کر حکومتی سیکورٹیز سے اخراج کورونا وائرس کی وبا سے پھیلنے والی غیر یقینی صورتحال ہے جس نے پوری دنیا کی معیشت کو سست روی کا شکار کر دیا ہے اور بین الاقوامی سرمایہ دار غیر یقینی کا شکار ہونے کہ وجہ سے اپنی سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے کے لیے متحرک ہیں۔

ان ڈالروں کے اخراج نے پاکستان میں ایکسچینج ریٹ پر دباؤ ڈالا جس کی وجہ سے ڈالر کی قدر میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

ڈالر پاکستان سے باہر کیوں اور کہاں جا رہے ہیں؟

پاکستان سے نکل کر یہ ڈالر کہاں جا رہے ہیں اس کے بارے میں مالیاتی اور معاشی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے بعد بین الاقوامی سرمایہ کار اور عالمی فنڈز محفوظ سرمایہ کاری کی تلاش ہیں ہیں اور اس وقت سب سے محفوظ سرمایہ کاری ڈالر میں سرمایہ کاری سمجھی جا رہی ہے اور اس کا محفوظ ٹھکانہ امریکی بانڈز اور ٹریژری بلز ہیں ۔ ان ماہرین کے مطابق پاکستان کے علاوہ دوسرے ملکوں سے بھی ڈالر کا اخراج دیکھنے میں آیا ہے جس کی بنیادی وجہ ان کا امریکی بانڈز میں سرمایہ کاری کر کے موجودہ غیر یقینی صورتحال میں اپنے سرمائے کو محفوظ بنانا ہے۔

مالیاتی امور کے ماہر اور انسٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی میں فنانس اور اکنامکس کے پروفیسر صائم علی کا کہنا ہے کہ عالمی معیشت اس وقت کساد بازاری کا شکار ہے جس کی وجہ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال ہے ۔

کورونا وائرس

پاکستان میں وبا کے دنوں میں کون گھر سے کام کر سکتا ہے؟

کورونا وائرس: کرنسی نوٹ کیسے جراثیم پھیلا سکتے ہیں؟

کیا کورونا وائرس چین اور امریکہ میں لڑائی کی وجہ بن سکتا ہے؟


ان کے مطابق گلوبل فنڈز اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو اس وقت سب سے محفوظ سرمایہ کاری ڈالر اور سب سے محفوظ ٹھکانہ امریکی بانڈز نظر آرہے ہیں۔ صائم علی کہتے ہیں کہ امریکی بانڈز میں سرمایہ کاری اتنی زیادہ منافع بخش نہیں تاہم وہ موجودہ وقت میں سب سے محفوظ سرمایہ کاری کا ٹھکانہ سمجھا رہا ہے اس لیے بین الاقوامی سرمایہ کار اس مارکیٹ میں اپنا سرمایہ لگا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا کی دوسری مارکیٹیں بھی ڈالر کے اخراج کے رجحان کا شکار ہیں۔

پاکستان کے مرکزی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق حکومتی سیکیورٹیز سے ڈالر نکالنے والوں میں برطانوی سرمایہ کار سر فہرست ہیں جن کے بعد امریکی، بحرین اور ائر لینڈ کے سرمایہ کاروں کا نمبر آتا ہے۔

پاکستانی روپے

ڈالر دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کا محفوظ ٹھکانہ

معاشی امور کے ماہر اسد سعید کا اس بارے میں کہنا ہے کہ دنیا بھر کے سرمایہ کار موجودہ حالات میں امریکی بانڈز کو محفوظ ٹھکانہ سمجھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف پاکستانی روپے نے ڈالر کے مقابلے میں قدر نہیں کھوئی بلکہ برطانوی پاؤنڈ، یورو، بھارتی روپیہ بھی ڈالر کے مقابلے میں دباؤ میں ہیں جو ان کے مطابق امریکی حکومت کا کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے Stimulus Package ہے جس نے ڈالر کو دوسری کرنسیوں کے مقابلے میں مضبوطی فراہم کی ہے۔

اسد سعید کا کہنا ہے غیر ملکی سرمایہ کار زیادہ تر مختصر مدت والے ٹریژری بلز میں سرمایہ کاری کرتے ہیں تاکہ قلیل مدت میں منافع کمایا جاسکے۔ ایک غیر یقینی صورتحال میں جب شرح سود میں کمی سے منافع میں گرنے کا بھی خدشہ تھا تو سرمایہ کار ایک محفوظ ٹھکانے کی طرف پرواز کو گئے۔

سونا

سونا بھی محفوظ نہیں رہا

ایکسینچ کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سابقہ سیکرٹری جنرل ظفر پراچہ نے ڈالر کی قدر میں اضافے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ غیر ملکی سرمایہ کارروں کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری کے دو ٹھکانے ہیں۔۔ایک حکومتی سیکیورٹیز اور دوسرا سٹاک ایکسچینج۔ سٹاک مارکیٹ میں بد ترین مندی غیر ملکی سرمایہ کاری کے اخراج کی وجہ بنی تر دوسری جانب مختصر مدت پر مشتمل حکومتی ٹریژری بلز سے بھی ڈالروں کا مسلسل اخراج دیکھنے میں آیا ہے۔

ان کا کہنا ہے غیر ملکی سرمایہ کاروں نے کچھ عرصہ تک سونے میں سرمایہ کاری کی تاہم اب انہیں سب سے محفوظ سرمایہ کاری ڈالر میں نظر آرہی ہے اس لیے ڈالروں کی صورت میں اپنی سرمایہ کاری اور منافع سمیٹ کر وہ مقامی مارکیٹ سے نکل رہے ہیں۔

ڈالر کی قیمت میں اضافہ قلیل مدتی ہو سکتا ہے

ڈالر کی قدر میں اضافے کا رجحان گزشتہ کئی دنوں سے دیکھنے میں آرہا ہے اور کیا یہ اضافہ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں بھی دیکھنے میں آئے گا اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈالر کہ قدر میں اضافے کا رجحان شارٹ ٹرم ثابت ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق سٹیٹ بنک آف پاکستان شاید ابھی فری مارکیٹ کے رجحان کا جائزہ لے رہا ہے اور ابھی اس میں کوئی مداخلت نہیں کی۔

ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قدر میں اضافے کا رجحان شارٹ ٹرم ثابت ہو سکتا ہے۔ اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر ایک معقول تعداد میں مرکزی بینک کی پاس ہیں ۔ مقامی طور پر ڈالر کی طلب دیکھنے میں نہیں آ رہی کیونکہ امپورٹ آرڈرز رکے ہوئے ہیں۔ تیل کی قیمتیں کافی نچلی سطح پر گر چکی ہیں جو امپورٹ بل میں مزید کمی لائیں گی اور پاکستان سے درآمدات کے لیے کم ڈالر باہر بھیجنا پڑیں گے۔

صائم علی کا کہنا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے نے پچھلے ایک سال میں کافی قدر کھوئی ہے۔ ڈالر کی قیمت میں موجودہ اضافہ ان کی نظر میں بھی قلیل مدتی ثابت ہو سکتا ہے جو گھبراہٹ میں نکالی جانے والی اس سرمایہ کاری کے بعد رک جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp