سائنس، ادب اور وبا کے دن


آمدِ بہار نے موسمِ خزاں کو خیر باد کہا اور برہنہ پیڑوں نے سرسبز پیرہن زیب تن کر لیے۔ چمن میں ہر طرف خوشبو کا سماں تھا کہ اچانک سُرخ کی جگہ سیاہ گلابوں نے لی اور صبح برنگِ ابلق پر کالے بادل منڈلانے لگے۔ بہار کے دنوں کو وبا نے آن گھیرا اور محض چند ہی دنوں میں کم و بیش سترہ ہزار افراد زندگی کی بازی ہار بیٹھے۔ کورونا وائرس جیسی بھیانک وبا نے تمام دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور نظامِ دنیا مفلوج ہو کے رہ گیا ہے۔ انسان کی بقاء اور عافیت اسی میں ہے کہ وہ اپنے گھر تک محدود رہے۔ تین ہفتوں کے لیے تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے اور اگلے چودہ دنوں کے لیے کرفیو نافذ کر دیا گیا تا کہ اس بیماری کی شدت کو روکا جا سکے۔

گھر بیٹھے لوگ اپنی یاسیت کو دور کرنے کے لیے مختلف مشاغل میں مصروف رہتے ہیں۔ لکھاری پڑھنے لکھنے اور جبکہ غریب فکرِ معاش میں سر گرداں نظر آتے ہیں۔ تمام ماہرینِ طبّ اس بیماری کے علاج کو دریافت کرنے کے لیے اپنی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لکھنے والے وبا کے دنوں میں بھی محبت کے گیت لکھ رہے ہیں اور بھلا خیال کی وسعت کو کون سی بیماری قید کر سکتی ہے؟ جان کیٹس نے بیماری کی حالت میں ایسے شاہکار ادب پارے تخلیق کیے جن کے بغیر آج انگریزی ادب نامکمل ہے۔

وبا کے دنوں میں زندگی کو محدود دیکھ کر میری نظر نے ماضی کے دریچوں کے اُس پار دیکھا جہاں طاعون جیسی مہلک وبا نے سب کچھ تباہ کر دیا اور لوگوں میں جینے کی آرزو ابھی باقی تھی۔ آج سے کم و بیش ساڑھے تین سو سال پہلے لندن میں وبا پھیلتی ہے جس میں ایک تہائی لوگ مارے جاتے ہیں اور اسی وجہ سے اسے کالی موت کا نام دیا جاتا ہے۔ سائنس نے ابھی اتنی ترقی نہ کی تھی کہ اس وبا کو مات دی جا سکے اور لوگوں نے قرنطینہ میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔

لندن کے سب تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے اور اپنے گھروں میں رہنا وبا سے بچنے کا مُستقل حل تھا۔ خوف کے ان دنوں میں بھی زندگی کی بقاء کو برقرار رکھنے کے لیے ادیبوں نے شاہکار ادب اور سائنسدانوں نے نئے سائنسی اصول دریافت کیے جو آنے والے دور میں معاون ثابت ہوئے۔ شیکسپئیر کی King Lear جیسی ٹریجیڈی اور فرانس کے ادیب Albert Camus کا ناول The Plague جو الجیریا کے شہر اوران کی وبائی حالت پر لکھا گیا وبا کے دور کی اعلٰی تخلیقات ہیں۔

1665۔ 1667 کے دوران لندن میں طاعون نے مکمل زور پکڑا۔ کیمبرج یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ایک بیس سالہ لڑکا بھی اس وبا سے متاثر ہوتا ہے۔ اُسے نہ چاہتے ہوئے بھی لیبارٹری چھوڑ کر اپنے گاؤں Woolsthorpe آنا پڑا۔ یہ وقت اُس کے خیالات کو پروان دینے کا مؤثر وقت تھا۔ تمام تجربات سے دُوری کے باوجود اُس کے مشاہدہ میں ذرا برابر بھی کمی نہ آئی بلکہ تنہائی کے ان دنوں میں کائنات کی نئی پرتیں اُس پر کھُلنے لگیں۔

isaac newton

آج دنیا اسے آئزک نیوٹن کے نام سے جانتی ہے۔ بنا کسی خوف کے وہ اپنے خیالات میں مصروف رہتا اور مایوسی کے رنگ کو کسی حال میں خود پر نہ چڑھنے دیا۔ نیوٹن کا یہ ماننا تھا کہ حقیقی علم کا تعلق کتاب پڑھنے سے نہیں بلکہ مشاہدہ کی بناء پر ہے۔ روشنی کے عکس کا قانون، کیلکولس اور کششِ ثقل کا قانون جیسے عظیم تخلیقات طاعون کے دور کا نتیجہ ہیں۔ باغ میں سیب گرنے کا واقعہ بھی اُسی دور سے منسوب ہے۔ نیوٹن نے وقت کا بہتر استعمال کرتے ہوئے کلاسیکل فزکس کی بنیاد رکھی۔

وبا کی ابتداء سے محض چند ماہ بعد انگلینڈ کے ایک قصبہ Stratford میں شیکسپئیر کا جنم ہوتا ہے۔ طاعون نے ایک چوتھائی لوگوں کی جان لے لی تھی اور ہر طرف خوف و ہراس کا عالَم تھا۔ موسمِ بہار تھیٹر کا مؤثر موسم تھا لیکن وبا کی وجہ سے تمام تھیٹر بند ہو چکے تھے۔ گماں یہ تھا کہ طاعون کا سبب ہمارے گناہ ہیں اور گناہ کی وجہ یہ تھیٹر ہیں لہٰذا انہیں بند کیا جائے اور تقریباٙٙ 78 ماہ تک تھیٹر بند رہے۔ جب شیکسپئیر پروفیشنل اداکار بنا تو وبا کی وجہ اُسے کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ تمام تھیٹر بند ہو چکے تھے اور اکثر اداکاروں نے معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے اداکاری کو خیر باد کہہ دیا اور یوں تھیٹر اپنے سیاہ ترین دور سے گزر رہا تھا۔ شہر کی خالی سڑکیں، بند دکانیں، جنازے پر بلاوے کے لیے چرچ کی گھنٹی کا مسلسل بجنا بھیانک صورتِ حال پیدا کر رہی تھیں۔ مرنے والوں میں زیادہ کی عمر تیس سال سے کم تھی۔

1603 اور 1613 شیکسپئیر کے ادبی ظہور کا دور تھا اور حالات بھی اپنی بدترین شکل میں آ چکے تھے۔ King Lear جیسی ٹریجیڈی اِن ہی دنوں میں لکھی گئی۔ رومیو اور جولیٹ میں بھی وبا کا خاکہ نظر آتا ہے جب Frier Laurence کے بھیجے گئے قاصد کو وبا آن گھیرتی ہے تو اُسے قرنطینہ میں رہنے کو کہا جاتا ہے۔ Macbeth بھی 1606 کے عرصہ میں لکھا گیا۔ حالات کی سنگینی کو دیکھ کر جون 1592 میں جب تھیٹر چھ ماہ کے لیے بند کر دیے گئے تو پیٹ کی بھوک نے خیال کی پرواز کو وسعت دی۔ جب سب کچھ وبا کی نذر ہو گیا تو لکھاریوں نے اپنی تحریروں کے سبب معاشی مسائل کو مات دی۔ جب کمائی کا ذریعہ لکھنے کے علاوہ کچھ اور نظر نہ آیا تو اس مایوس زدہ عالَم میں شیکسپئیر نے اپنا رُخ شاعری کی جانب موڑا۔ شیکسپئیر کی طویل نظمیں Venus and Adonis اور The Rape of Lucrete بھی اُن دنوں میں لکھی گئیں۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو گا کہ شیکسپئیر کی خوبصورت نظمیں اور بہترین ڈرامے تنہائی کے دور میں لکھے گئے اور ایسی تنہائی جس نے خیالات کو تاریکی میں نہ ڈالا بلکہ قلم اور سوچ کو اور طاقت بخشی۔

آج بھی وبا نے انتہائی ہولناک صورت اختیار کر لی ہے۔ طبی ماہرین ویکسین بنانے میں مصروف نظر آتے ہیں اور ان کی یہ کوشش ضرور رنگ لائے گی۔ اس تاریک رات سے ایک دن ضرور صبحِ روشن پھوٹے گی جس سے سب وبائیں ختم ہو جائیں گی اور چمن میں پھر بہار کا سماں ہو گا جسے کبھی خزاں کا ڈر نہ ہو گا۔ بقول عرش ملیسانی :

اس حال میں جینا لازم ہے جس حال میں جینا مشکل ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments