قرنطینہ کے دنوں میں مطالعہ


میں اپبے چھوٹے سے قصبہ نما شہر میں ہوں جو ریت کے ایک اونچے ٹیلے پر واقع ہے۔ آدھا شہر ٹیلے کی ڈھلان پر اور آدھا ٹیلے کی اونچائی پر ہونے کی باعث یہ اوپر والی بزار اور نیچے والی بزار میں بٹا ہوا ہے۔ نیچے والی بزار کو تھر بزار بھی کہتے ہیں۔ کبھی اس بزار میں ہماری پرچون کی دکان ہوا کرتی تھی۔ بابا کے انتقال کے بعد میں ایک برس تک  اس دکان پر کام کرتا رہا جو کہ میرے مزاج کے برعکس ایک مشکل کام تھا۔ مگر بابا کی دیرینہ خواہش تھی کہ میں ان کے ساتھ دکان پر کام میں ان کا ہاتھ بٹاٶں۔

بچپن سے میں شعر و ادب کا شغف رکھتا تھا اور 1999 میں حیدرآباد پہنچ کر ایک سندھی روزنامہ میں بطور سب ایڈیٹر کام کرنے لگا جو بات بابا کو قطعاً پسند نہیں تھی اور یہ سفر بابا کی بیماری کے دوران 2015 میں اختتام کو پہنچا اور اس وقت میں ایک نجی ٹی وی چئنل میں ملازمت کر رہا تھا جو چھوڑ چھاڑ کر واپس اپنے اس گاٶں نما شہر میں لوٹ آیا۔

بابا کی وہ دکان میں نے ایک سال میں ہی برباد کر لی۔ کیونکہ یہاں ادھار کا کاروبار چلتا ہے۔ اور کام بھی خلافِ مزاج تھا۔ اور میں سب ہار کر واپس کراچی آگیا۔

اب بس لمبی چھٹیوں میں ہی یہاں آنا ہوتا ہے اور اس وقت میں یہ قرنطینہ کے دن میں اپنے شہر میں گزار رہا ہوں جہاں زندگی اتنی مشکل نہیں۔

جیسا کہ میں بچپن سے شعر و ادب کا شغف رکھتا تھا۔ گاٶں میں موجود میرے بوسیدہ سے گھر میں بہت ساری اردو اور سندھی ادب کی کتابیں موجود ہیں۔ میں نے قرنطینہ کے پہلے دو دن قرة العین حیدر کے ناول ”سیتا ہرن“ کے مطالعے میں گزار دیے۔ یہ ایک سندھی ہندو لڑکی ڈاکٹر سیتا میر چندانی کی سرگذشت ہے۔ کہانی میں تقسیم ہند و پاک کا درد رقم ہے۔ ڈاکٹر سیتا میرچندانی کا خاندان ہندوستان میں شرنارتھی کی زندگی گزار رہا ہے اور سیتا کی مسلمان لڑکے جمیل سے شادی ہوتی ہے جس کا آدھا خاندان بٹوارے کے دوران پاکستان منتقل ہو چکا ہے۔

قرة العین حیدر کا یہ ناول میں نے دوسری بار پڑھا۔ ”کار جہاں دراز ہے“ کے علاوہ میں قرة العین کی تقریباً سب کتابیں پڑھ چکا ہوں۔ ان میں سے ”آگ کا دریا“ اور ”آخر شب کے ہمسفر“ میری سب سے فیورٹ کتب ہیں۔

قرنطینہ کے ان دنوں میں نے بانو قدسیہ کا ناول ”حاصل گھاٹ“ بھی پڑھ کر ختم کیا۔ اب ”سانگھڑ“ ناول زیر مطالعہ ہے۔ جس کے مصنف کا نام محمد عثمان ڈپپلائی ہے۔ یہ انگریز سامراج کے خلاف ”حر تحریک“ کی سچی کہانی ہے۔

”سانگھڑ“ ضلعہ انگریز راج کے خلاف حر تحریک کا مرکز تھا۔ یہ بغاوت۔ عقیدت اور جدوجہد کی کہانی ہے۔ سید صبغت اللہ شاہ راشدی المعرف ”سورہیہ بادشاہ“ نے ”آزادی یا موت۔ وطن یا کفن“ کے نعرے پر اپنے مریدین کے ساتھ مل کر انگریز راج کے خلاف اس لڑائی کی شروعات کی۔ ضلع سانگھڑ اس تحریک کے حوالے سے الگ پہچان رکھتا ہے۔

اور بھی بہت ہی شاندار کتابیں مطالعے کے لئے موجود ہیں اور صحرائے اچھڑو تھر کے عجائب ہیں جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

میرے خیال میں دورانِ قرنطینہ کتابوں سے بہتر کوئی دوست نہیں ہو سکتا۔ آپ فلمیں اور ڈرامے بھی دیکھ سکتے ہو۔ موسیقی سے لطف اٹھا سکتے ہو مگر کتاب کا اپنا ایک الگ ہی نشہ ہوتا ہے۔ غمِ روزگار کے جھمیلوں میں طویل عرصے سے میں مطالعے سے دور ہو چکا تھا۔ اب ان وبا کے دنوں میں سیلف آئسولیشن مجھے اپنے دیرینہ شوق کی طرف کھینچ لائی ہے تو بہت ہی اچھا محسوس ہو رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments